اک نظر انسانی حقوق ایکشن پلان پر بھی



\"\" گزشتہ ایک دو برسوں سے وطن عزیز پاکستان میں کسی بھی غیرمعمولی واقعہ کے بعد ایکشن پلان کی باز گشت سنائی دیتی ہے جو کہ جنوری 2015ء میں اے پی ایس سانحہ پشاور کے پس منظر میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ترتیب دیا گیا تھا جس پر عمل درآمد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بحث مسلسل جاری و ساری ہے۔
تاہم اس ایکشن پلان کے تقریباً ایک سال بعد فروری 2016ء میں حکومت کی جانب سے انسانی حقوق ایکشن پلان سامنے لایا گیا جس کے حوالے سے بحث مباحثہ تاحال مخصوص حلقوں تک محدود ہے۔ پاکستان کے پہلے انسانی حقوق ایکشن پلان کا ترتیب دیا جانا بلا شبہ ایک تاریخی کارنامہ ہے جس پرموجودہ حکومت تحسین کی مستحق ہے۔
اس ایکشن پلان کے بنیادی مقاصد میں پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانا اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا شامل ہے۔ ایکشن پلان کے ابتدائیہ میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے بلا امتیاز فروغ اور تحفظ کے عزم کے ساتھ ساتھ مروجہ ملکی قوانین کو بین الااقوامی انسانی حقوق فریم ورک سے ہم آہنگ کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ مزید براں ایکشن پلان میں انسانی حقوق پالیسی فریم ورک متعارف کرانے، انسانی حقوق کی تعلیم بذریعہ نصاب، انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کیلئے قومی اور صوبائی سطح پر اداراتی انتظامات، خصوصاً انسانی حقوق انسٹیٹیوٹ اور نیشنل ٹاسک فورس کے قیام کے اہداف بھی شامل ہیں۔ ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کیلئے 750 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
ریاستی سطح پرانسانی حقوق ایکشن پلان ترتیب دیے جانے کی سفارشات 25 جون 1993ء کو ویانا میں منعقدہ بین الاقوامی انسانی حقوق کانفرنس کے موقع پر ترتیب دیے گئے اعلامئے میں پیش کی گئیں جن کو جولائی 1999 ءمیں تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں انسانی حقوق ایکشن پلان کے موضوع  پر منعقدہ علاقائی کانفرنس کے موقع پر قبول کیا گیا۔
2002 ءمیں اقوام متحدہ کی جانب سے ویانا میں منعقدہ بین الاقوامی انسانی حقوق کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں، انسانی حقوق ایکشن پلان کے موضوع پر ایک کتابچہ متعارف کرایا گیا جس میں انسانی حقوق ایکشن پلان سے متعلق تصورات اور بنیادی اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ کتابچے میں درج انسانی حقوق ایکشن پلان کی خصوصیات میں منصوبے کی جامعیت ، سیاسی حمایت، شفافیت، شراکتی منصوبہ بندی، حقیقت پسندانہ ترجیحات کا تعین، موثر نگرانی کی حکمت عملی، کامیابی کے واضح معیارات کا تعین اور مناسب وسائل کی فراہمی جیسے موضوعات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
ویانا میں منعقدہ بین الاقوامی انسانی حقوق کانفرنس کے اعلامئے کی سفارشات کے مطابق انسانی حقوق ایکشن پلان کی تشکیل ریاستوں کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے تاہم حکومت پاکستان کے متعارف کردہ انسانی حقوق کمیشن ایکٹ 2012 ء کے تحت انسانی حقوق کمیشن کویہ ذمہ داری تفویض کردی گئی ہے جو کہ کمیشن کی آزادانہ حیثیت کے متضاد ہے، لہٰذا اس قانونی سقم کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔
فروری 2015ء میں وفاقی وزارت قانون، انصاف اور انسانی حقوق کی معیت میں تشکیل دیے گئے انسانی حقوق ایکشن پلان کی باقاعدہ منظوری کی بلاشبہ اہم سیاسی اہمیت ہے تاہم اقوام متحدہ کی سفارشات کی روشنی میں ضروری ہے کہ ایکشن پلان کے مندرجات کو کسی باقاعدہ سیاسی فورم پر بحث کیلئے پیش کیا جائے تاکہ اس منصوبے کیلئے بھی درکار وسیع سیاسی حمایت حاصل کی سکے۔
ایکشن پلان میں بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کا تحفظ ایک جمہوری معاشرے کے بنیادی خواص اور مذہبی اقدار کی روشنی میں شہریوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کیلئے درکار ریاستی ترجیحات کو تسلیم کیا گیا ہے تاہم انسانی حقوق کے ضمن میں بین الاقوامی ہم آہنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق ایکشن پلان کے بنیادی ستونوں کے تعین کیلئے انسانی حقوق کے تسلیم شدہ بنیادی اصولوں یعنی برابری اور عدم امتیاز کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سفارشات کے مطابق انسانی حقوق ایکشن پلان کی تشکیل سے قبل ملک کی موجودہ انسانی حقوق صورتحال کا درست تجزیہ لازم ہے تاکہ اس حوالے سے تمام اہم مسائل کا احاطہ کیا جا سکے جو کہ ترجیحات کے تعین میں معاون ثابت ہو سکیں۔ گو کہ پاکستان کے انسانی حقوق ایکشن پلان کی تشکیل سے پہلے ایسا کوئی اقدام تو نہیں اٹھایا گیا تاہم ایکشن پلان میں چند اہم مسائل کی نشاندہی ضرور کی گئی ہے مثلاً خواتین، بچوں اور خصوصی افراد کے حقوق کے مسائل، ماورائے عدالت قتل، تشدد اور صوابدیدی حراست کے واقعات اورجبری مشقت کی موجودگی۔ تاہم کئی اہم مسائل مثلاً مذہبی اقلیتوں کے حقوق، عقیدے، سوچ اور اظہار رائے کی آزادی جیسے مسائل کا ذکر موجود نہیں جو کہ ایکشن پلان کی ہمہ جہت حیثیت کے منافی ہے، اس خامی کو دور کیا جانا چاہئے۔
ایکشن پلان میں چند مخصوص اقدامات کی تکمیل کیلئے وقت کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے جبکہ دیگراہم اقدامات جو کہ خصوصی طورپر نتائج کے حصول سے متعلق ہیں کیلئے وقت کا باقاعدہ تعین نہیں کیا گیا۔ یہ حکمت عملی نہ صرف ایکشن پلان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کی روح سے متصادم ہے بلکہ وسائل کے استعمال اور مختص کئے جانے سے متعلق سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق دیگرعوامل مثلاً انتظامی اور اداراتی امور کے ساتھ ساتھ وقت اور وسائل کا تعین ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے انتہائی اہم اجزا ہیں۔ ان کے بغیر منصوبہ محض وعدوں کا ایک پلندہ ہے۔
ایکشن پلان میں درج ہے کہ منصوبہ اس وقت کی وفاقی وزارت قانون، انصاف اور انسانی حقوق کی معیت میں تیار کیا گیا اور اس ضمن میں متعین وقت میں دیگر وفاقی وصوبائی وزارتوں اور محکموں، بشمول دیگر شراکت داروں کے ساتھ اندرونی سطح پر مشاورت کی گئی اور سفارشات طلب کی گئیں، تاہم شراکت داروں کی وضاحت موجود نہیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق شراکت داروں کی شمولیت، منصوبے کی ساکھ اور اثر پذیری کے ضامن ہیں اور شراکت داروں کی تکثریتی شمولیت منصوبے پر عمل درآمد کے ضمن میں شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے۔ گو کہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے تاہم اس سلسلے میں سول سوسائٹی، پارلیمان اور انسانی حقوق کے اداروں کی شمولیت انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے ضمن میں سیاسی اور سماجی حمایت اور تکنیکی معاونت کے حوالے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
انسانی حقوق ایکشن پلان کے اہم مقاصد میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ سے متعلق انتظامی امور کے ساتھ ساتھ قوانین کو بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ کرنا، انسانی حقوق کی تعلیم کے فروغ کیلئے نصاب تیار کرنا اورمعاشرے میں انسانی حقوق کے احترام کی خاطر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر متحرک کردار ادا کرنا شامل ہیں۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی سفارشات کے مطابق انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو ریاستی پالیسی سازی اور حکمرانی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے اقتصادی اور انتظامی امور میں بہتری کے ذریعے شہریوں کی زندگی کو بہتر بنایا جاسکے۔
حقوق کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبہ بندی ، جو کہ ایکشن پلان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، کے تحت سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پلان میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کیلئے وسائل کا تعین اور ضلعی سطح پر ورکنگ گروپ کی تشکیل کی تجویز تا کہ شہریوں کے سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق کا فروغ اداراتی سطح پر ترقیاتی منصوبہ بندی کا حصہ بنایا جاسکے، ایک اچھا عمل ہے تاہم اسے موجودہ ملکی ترقیاتی ڈھانچے سے ہم آہنگ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کا قیام اور استحکام، جو کہ ایکشن پلان کا حصہ ہے، بلا شبہ ایک مستحسن اقدام ہوگا لیکن قومی اور صوبائی سطح پر قائم کئے جانے والے انسانی حقوق کے اداروں کے درمیان باہمی رابطہ کاری کو موثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید براں انسانی حقوق کے اداروں بشمول سول سوسائٹی کا انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ میں حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کے اختیار کو ایکشن پلان کا حصہ بنانے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ایکشن پلان کے مقاصد کے حصول میں دشواریوں کو دور کیا جاسکے۔
چونکہ پاکستان نے ابھی تک انسانی حقوق کے نو میں سے سات بنیادی بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کی ہے اس لئے توقع کی جاتی ہے کہ دیگرمعاہدوں اور پروٹوکولز کی توثیق کا عمل بھی ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔ پاکستان کے تناظر میں محنت کشوں کی مہاجرت اور جبری گمشدگی جیسے اہم مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ان سے منسلک بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کے عمل کو ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔ انسانی حقوق سے منسلک چند دیگر اہم مسائل جیسا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے تحفظ، اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی عمل میں شہریوں کی شرکت سے متعلق مسائل کے حل کے اقدامات کو بھی ایکشن پلان کا حصہ بنائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں قدرتی آفات اور انسانی اقدامات سے متاثرہ ملکی اور غیرملکی مہاجرین کی بڑی تعداد عارضی طور پر پناہ گزین ہے۔ اس لئے ضروری ہے پناہ گزینوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے اقدامات کو بھی انسانی حقوق ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments