قائد اعظم، طوائف کا بالاخانہ اور ایوب کا انتخابی نشان


میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ ایوب خان کے صدارتی الیکشن (منعقدہ 2 جنوری 1965) میں دولت بے حساب حد تک لٹائی گئی۔ ایوب خان کی مسلم لیگ کے پاس کروڑوں روپے کا فنڈ تھا جسے خرچ کرنے کی ذمہ داری ان کے وزیر خزانہ مسٹر محمد شعیب پر ڈالی گئی تھی۔ ہر شخص کا ایک بھاﺅ تھا اور یہ بھاﺅ بھی اس لیے تھا کہ ایوب خان نے انتخاب کے لیے ووٹروں کی تعداد گھٹا کر صرف اسی ہزار کر دی تھی۔ یہ اسی ہزار لوگ ’بیسک ڈیمو کریٹ‘ کہلاتے تھے اور ہر بی ڈی ممبر کی قیمت تین سے پانچ ہزار روپے تک مقرر کی گئی تھی۔میں نے کئی بند کمر وں میں بی ڈی ممبروں کو قرآن مجید پر حلف اٹھاتے اور نقد نوٹوں کے لفافے وصول کرتے دیکھا۔ مسٹر شعیب اس کاروبار کو اس طرح چلا رہے تھے جیسے وہ ملک کے بجٹ کے مختلف اندازوں کا تعین کرتے اور انہیں خرچ کرتے تھے۔ کراچی میں ہم لوگوں نے بی ڈی ممبروں کے لئے بکرا پیڑی کی اصطلاح وضع کی اور وہ اس لیے بھی کہ بی ڈی کے ممبر اکثر اوقات ایک ایسے مقام پر جمع ہوا کرتے تھے جہاں یہ لوگ قہوہ خانوں میں بیٹھ کر ووٹ کے لین دین اور قیمت کا حساب کیا کرتے تھے۔ بکروں کی خریداری کی منڈی بھی پاس ہی تھی۔

جنگ کے نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے میں اپنے آپ کو اس لیے بااختیار سمجھتا تھا کہ مالک کی لگائی ہوئی لکیر کے اندر رہ کر سب کچھ جائز طور پر چھاپا جائے مگر میر خلیل الرحمن بہرحال اس معاملے میں اس لیے پھنسے ہوئے تھے کہ انہوں نے دو بڑے پرنٹنگ پریس خریدنے کی غرض سے درآمدی لائسنسوں کے حصول کی درخواستیں دے رکھیں تھیں اور انہیں اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات مسٹر الطاف گوہر نے واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اگر الیکشن کے دوران ان کے اخبار کا رویہ درست اور ایوب کے حق میں رہا تو انہیں لائسنس عطا کر دیے جائیں گے لہٰذا میر صاحب پوری فرمانبرداری کا ثبوت دے رہے تھے۔ اس سلسلے میں مجھے اس انتخابی مہم کے کچھ واقعات خوب یاد پڑتے ہیں۔

دسمبر 64 ء کا دوسرا ہفتہ تھا۔ ایک روز میر خلیل الرحمن کے چھوٹے بھائی مسٹر حبیب الرحمن رات کو کوئی ساڑھے دس بجے میرے دفتر آئے اور کہنے لگے کہ آﺅ میں تمہیں اپنی ایک دوست سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ان کی یہ دوست ایک رقاصہ تھی جو کراچی شہر کے اس بازار میں رہتی تھی ۔ جب ہم وہاں گئے تو میں رقص و سرور کی محفل تو بھول گیا وہاں مجھے ایک کمرے میں رکھی ہوئی قائداعظم کی ایک بڑی تصویر نظر آئی۔ میں نے اس رقاصہ سے کہا کہ کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ سے یہ تصویر خرید لی جائے۔ اس نے جواب دیا ایک لاکھ بھی دو گے تو نہیں ملے گی۔ میں نے بائی جی آپ کا ریٹ بی ڈی ممبر سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ آخر کچھ تو رعایت کرو۔ میر حبیب الرحمن کو بھی بیچ میں ڈالا مگر کسی طور پر رضامند نہ ہوئی ۔ آخر بحث کے دوران بائی جی نے میری یہ تجویز مان لی کہ اگر اسے دو سو روپے ادا کر دیے جائیں تو وہ یہ تصویر صرف ایک گھنٹے کے لیے ادھار دے سکتی ہے۔ میں نے حبیب صاحب سے دو سو روپے تو اسی وقت ادا کر دیے اور خود تصویر لے کر اپنے آرٹسٹ کے ہاں جا پہنچا جس نے چند منٹ میں تصویر کا نیگٹیو اتارا اور مجھے تصویر دوبارہ فریم میں جوڑ کر واپس کر دی۔ میں تصویر لے کر بائی جی کے گھر پہنچا تو اس وقت ’سیٹی‘ بج چکی تھی گویا پولیس کے حکم سے تمام کوٹھے بند ہو چکے تھے۔ میں نے ایک پولیس والے کو بتایا کہ میں کسی قسم کا گاہک نہیں ہوں صرف یہ تصویر واپس دینے آیا ہوں۔ پولیس والے نے تصویر دیکھی تو اس نے بوکھلا کر کہا کہ یہ تصویر تم کنجروں کو دینے آئے ہو، میں نے جواب دیا بھئی یہ صرف تصویر ہے، میری ملکیت نہیں۔ یہیں سے لے گیا تھا اور یہیں واپس دینے آیا ہوں۔

قائداعظم کی یہ تصویر کوئٹہ دربار میں لی گئی تھی۔ میرے نزدیک تصویر کی ایک سیاسی خصوصیت یہ تھی کہ قائداعظم صدر دربار کی حیثیت سے بڑی ساری کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کے قدموں میں گلاب کے پھول پڑے تھے۔ گلاب کا پھول ایوب خان کا انتخابی نشان تھا۔اس کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔ میں نے روزنامہ جنگ کے آرٹسٹ کو اگلے دن بتایا کہ قائداعظم کی یہ تصویر 25 دسمبرکے ایڈیشن کے لیے ہو گی۔ چنانچہ تصویر ٹائٹل پر شائع ہوئی اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے کراچی شہر میں آرائشی گیٹ بنائے اور ان پر یہ تصویر جگہ جگہ چسپاں کی گئی۔ اکثر جگہ دلی کے کرخنداروں کا یہ جملہ سننے میں آتا تھا ’میاں دیکھا کہ ایوب خان قائداعظم کی بہن سے الیکشن لڑنے نکلا ہے جبکہ اس کا انتخابی نشان قائداعظم کے پیر کی خاک بھی نہیں ہے‘۔

 (اقتباس: سٹاپ پریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments