مسلمانوں کو ذمہ داری قبول کرنا ہو گی


\"\" آج صبح پیرس کے لوور میوزیم کے قریب ایک شخص نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے چاقو سے سکیورٹی پر مامور ایک فوجی پر حملہ کر دیا۔ جوابی فائرنگ میں حملہ آور شدید زخمی ہوا ہے۔ فرانس میں اس واقعہ کو دہشت گردی سے منسلک کر کے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ یورپ میں ایک بار پھر یہ بحث شروع ہو گی کہ مسلمان آبادیوں پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے اور دہشت گرد گروہ نوجوان مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کہاں تک کامیاب ہو رہے ہیں۔ لوور میوزیم میں پیش آنے والے واقعہ کی تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں اور نہ ہی یہ پتہ چل سکا ہے کہ اس شخص نے ڈیوٹی پر موجود فوجیوں پر کیوں حملہ کیا اور وہ خنجر نما چاقو لے کر کیوں گھوم رہا تھا۔ اس کے پاس دو بیگ تھے لیکن ان میں کوئی دھماکہ خیز مواد نہیں تھا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حملہ آور جانبر ہو جائے تا کہ اس کے ارادے اور کسی انتہا پسند گروہ سے رابطہ کے بارے میں مزید معلومات سامنے آ سکیں۔ گو کہ یہ کسی مخبوط الحواس شخص کی اضطراری کیفیت میں کارروائی بھی ہو سکتی ہے لیکن حملہ آور کے اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے سے دہشت گردی کے شبہات کو تقویت ملتی ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں اور اسلام کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے فوری طور پر اس واقعہ پر ٹوئٹ پیغام میں کہا ہے: ’’پیرس میں لوور میوزیم میں ایک ریڈیکل اسلامک حملہ۔ سیاح پھنس گئے۔ فرانس پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ امریکہ تم ہوشیار رہو‘‘۔ یہ لب و لہجہ اس صورتحال میں مسلمانوں کیلئے مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

یوں تو پیرس میں آج رونما ہونے والے واقعہ بہت بڑا نہیں ہے۔ لیکن فرانس کو گزشتہ ڈیڑھ دو برس کے دوران جس طرح پے در پے دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان کے تناظر میں اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ایسے ہی سانحات کا حوالہ دیتے ہوئے برسر اقتدار آئے ہیں اور سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ کی پابندی عائد کرنے کے علاوہ مہاجرین کا ملک میں داخلہ بند کر چکے ہیں۔ انہوں نے شامی مہاجرین کو ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے مستقل بنیادوں پر شام کی خانہ جنگی سے متاثر کسی بھی پناہ گزین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ اس سلسلہ میں سابق صدر باراک اوباما کی پالیسی کو احمقانہ قرار دیتے ہیں۔ اسی لئے گزشتہ دنوں آسٹریلیا کے وزیراعظم میلکم ٹرن بل سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے چند سو پناہ گزین قبول کرنے کے معاہدہ پر تلخ کلامی کی اور ان لوگوں کو خطرناک دہشت گردوں سے تشبیہ دی۔ آسٹریلیا نے سمندری راستوں سے کشتیوں میں کسی طرح اپنے ساحل پر پہنچنے والے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان لوگوں کو بعض دور دراز جزیروں کے کیمپوں میں انتہائی ابتر حالت میں رکھا گیا ہے۔ ایسے اڑھائی ہزار لوگوں کی افسوسناک حالت کے پیش نظر سابق صدر باراک اوباما ان میں سے 1250 افراد کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب ٹرمپ اس معاہدہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسی حوالے سے وہ پہلی ٹیلی فون گفتگو میں آسٹریلوی وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے قلیل تعداد میں پناہ گزینوں کے سوال پر ایسا سخت لب و لہجہ اختیار کیا جس کی سفارتی آداب اجازت نہیں دیتے۔

امریکہ اب مسلمان ملکوں سے لوگوں کی آمد کو روکنے کیلئے سخت ترین اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ جیسے لیڈر کی موجودگی میں بدترین کنٹرول اور مطالبات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور یورپ میں ٹرمپ کے مسلمانوں پر پابندی کے فیصلہ پر احتجاج کیا جا رہا ہے اور متعدد امریکی عدالتوں نے اس پابندی کے خلاف حکم امتناع بھی جاری کیا ہے اور انسانی حقوق اور مسلمانوں کی تنظیمیں اس حکم نامہ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ اس قانونی جنگ کے باوجود اگر امریکی صدر کسی ارادے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے اور اس کی پارٹی کو کانگریس میں اکثریت بھی حاصل ہے تو عملی طور سے اس کا راستہ روکنا آسان نہیں ہو گا۔ فرانس میں ہونے والے واقعہ کے حوالے سے امریکہ اور صدر ٹرمپ کا ذکر یوں اہم ہو جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا میں انتشار اور جنگ پیدا کرنے کی امریکی حکمت عملی کو بھلا کر اپنے ملک اور یورپ میں ہر قسم کے سانحہ کی ذمہ داری مسلمانوں اور اسلام پر عائد کرنے کیلئے پرجوش اور سخت گیر لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ اس کا اثر یورپی ممالک کی رائے عامہ اور لوگوں کے رویہ پر بھی مرتب ہو رہا ہے۔ خاص طور سے ایسی مسلمان دشمن سیاسی قوتیں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں جو اپنے ملکوں میں پناہ گزینوں کی آمد کا راستہ روکنے کے علاوہ یہاں پر آباد مسلمانوں کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ اب مباحث حجاب کے حق اور مساجد کی تعمیر سے ہوتے ہوئے مسلمان ہونے کے حق تک پہنچ چکے ہیں۔ اس صورتحال میں یورپ اور امریکہ کے مسلمانوں پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اس ساری صورتحال کا یہ پہلو بھی افسوسناک ہے کہ اگر ٹرمپ کی طرح بعض لیڈر اور عناصر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سارا الزام مسلمانوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں تو یورپ اور امریکہ میں آباد مسلمانوں کی اکثریت یا تو اس ساری بحث سے غیر متعلق رہنا چاہتی ہے یا بعض مسلمان لیڈر یکطرفہ اور انتہا پسندانہ نقطہ نظر اختیار کرتے ہوئے مسلمان گروہوں کی وکالت کا فریضہ ادا کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح بحث آگے نہیں بڑھتی اور اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ اس طرح مقامی آبادیوں اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ اور مواصلت بھی متاثر ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے بنائے ہوئے مراکز اور مساجد عام طور سے سماج میں رونما ہونے والے واقعات اور مباحث سے لاتعلق رہتی ہیں۔ وہ نماز پڑھنے اور عبادات پر زور دیتے ہیں اور ان کا اہتمام کر کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اپنا پیغام پہنچا کر فرض ادا کر لیا ہے۔ لیکن ایسے معاشروں میں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہو اور مسلمانوں کے بارے میں نفرت، غلط فہمی اور شبہات کی فضا جڑ پکڑ رہی ہو، وہاں پر مسلمانوں کی مساجد اور عبادات کا حق بھی تب ہی محفوظ رہ سکے گا۔ اگر وہ خود اس کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داریاں قبول کرتے ہوئے موثر اقدام کرنے کی کوشش کریں گے۔

 اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کی اکثریت خواہ وہ مذہبی طرز زندگی اختیار کئے ہوئے ہوں یا اس سے لاتعلق ہوں، اب خود سماج میں مسلمانوں اور اسلام کے تعلق کے حوالے سے سماجی و سیاسی مباحث کا حصہ نہیں۔ اب یہ مباحث صرف چند حقوق کے حصول تک محدود نہیں ہو سکتے۔ اب سب سے پہلے مسلمانوں کو مقامی معاشروں کو اس بات کا یقین دلانا ہو گا کہ ان کی وجہ سے یہ ممالک غیر محفوظ نہیں ہیں اور وہ بھی باقی ماندہ شہریوں کی طرح اس ملک کی حفاظت اور اس کے لوگوں کی سلامتی کیلئے پریشان اور متفکر ہیں۔ اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے تیار ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مغرب میں مسلمانوں اور معاشرہ کے تعلق کے حوالے سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں، ان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مساجد اور عبادات کیلئے قائم کئے گئے مراکز یا مقرر کئے گئے امام و علما ، نہ تو صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کیلئے تیار ہیں اور نہ وہ اس سے نمٹنے کیلئے صلاحیت حاصل کر سکے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اس لئے اس وقت جو چیلنج درپیش ہے، اس سے نمٹنے کیلئے مساجد اور دینی رہنماؤں سے توقع وابستہ کرنے کی بجائے مسلمانوں کو خود متحرک ہونا پڑے گا اور حالات و واقعات کی روشنی میں کردار ادا کرنا ہو گا۔

یورپ میں 50 ملین کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں مسلمان کل آبادی کا ایک فیصد ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی دہشت گرد تنظیمیں ان مسلمانوں کو اپنی قوت سمجھتے ہوئے جدید مواصلاتی ذرائع سے نوجوانوں کو متاثر کرتی ہیں اور انہیں سماج دشمن کارروائیوں پر آمادہ کر لیتی ہیں۔ اسے مسلمانوں کی کوتاہی اور بے خبری کے علاوہ کیا کہا جائے گا کہ وہ خود اپنی نئی نسل کے ساتھ رابطہ رکھنے اور انہیں ان خطرات سے آگاہ کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں آباد مسلمان نوجوان بعض مخصوص حالات کی وجہ سے تخریبی عناصر کا آلہ کار بنتے ہیں اور پھر باقی مسلمان ان کی حرکتوں کی وضاحت کرنے میں صلاحیتیں صرف کرنے لگتے ہیں۔ اب ردعمل ، معذرت خواہی یا الزام تراشی کا طرز عمل ترک کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے اور مسلمانوں کی نیک نامی و شہرت اور مقامی معاشروں کے تحفظ کیلئے قیادت اپنے ہاتھ میں لینے کا وقت آ گیا ہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ کے مسلمانوں نے اگر حالات کی رفتار کو سمجھنے سے گریز کیا تو وہ اپنے ساتھ اسلام کیلئے بھی تہمت اور شرمندگی کا سبب بنتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments