گاندھی کی نسل پرستی، جناح کا راست اقدام اور عمران کی کرکٹ


\"\"کچھ روز پہلے اس ویب سائٹ پر مجھے دو کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جن کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو حاشر صاحب کا کالم گاندھی جی کے متعلق تھا اور دوسرا عمران خان کی کرکٹ کے بارے میں تھا۔

گاندھی جی کو مہاتما اور جناح صاحب کو قائد اعظم بنا کر ہم ان پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ ان کی شخصیات کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔ تاریخ ہند و پاک کے یہ دو لازوال کردار بہرحال انسان تھے اور اگر ان کو انسان ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔

گاندھی جی بلا شبہ ایک عظیم رہنما تھے۔ ان کی شہادت پر جناح کے اخبار ڈان کا فرنٹ پیج ملاحظہ ہو۔ واضح رہے کہ جناح گاندھی کے سب سے بڑے سیاسی حریف تھے۔ اس کے باوجود جناح نے دیوداس گاندھی کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں گاندھی جی کی موت کو تمام انسانیت کے لیے ایک المیہ قرار دیا۔ یہ ٹیلیگرام جناح پیپرز میں موجود ہے۔ گاندھی جی کی المناک شہادت پر جناح کے دوسرے اخبار پاکستان ٹائمز کا اداریہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ اداریہ اخبار کے مدیر اعلی فیض احمد فیض نے لکھا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی حکومت نے تین روز تک سرکاری طور پر سوگ منایا اور پرچم کو سرنگوں رکھا۔ تین روز تک ریڈیو پاکستان نے تعزیتی نشریات پیش کیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان گاندھی جی کی وفات کے غم میں پوری طرح شامل رہا۔ اس دوران کسی نے مولانا ظفر علی خان کے شعر \’اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے\’ کا ذکر تک نہیں کیا۔

\"\"پر جہاں گاندھی جی کی خصوصیات کا ذکر ہو وہاں ان کی تصویر کا دوسرا رخ بھی واضح رہنا چاہیے۔ مجھے امریکی درسگاہ رٹگرز یونیورسٹی کی لائبریری میں گاندھی جی کے \’کولیکٹڈ ورکس\’ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ گاندھی جی چونکہ بین الاقوامی سطح پر اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اس لیے ان کی تحاریر ہمارے نصاب کا حصہ بھی تھیں۔ گاندھی کی تحاریر میں ان کے جنوبی افریقہ کے زمانے کا بھی ذکر ہے۔ سیاہ فام افریقیوں کے بارے میں ان کے وچار میں شدید نسل پرستی کا امر واضح ہے۔ ان کی تمام تر کاوشیں جنوبی افریقہ کی حکومت کو یہ باور کرانے پر مشتمل تھیں کہ ہندوستانی بحیثیت نسل کالے \”کافروں\” سے بہتر ہیں۔ لفظ کافر جنوبی افریقہ میں سیاہ فام نسل کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ قاری اس سے متعلق اپنی تحقیق خود کرسکتے ہیں۔ اب گاندھی جی کی تحاریر کا مجموعہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

گاندھی جی کی تصویر کا ایک اور رخ میں نے عظیم دلت رہنما امبیدکر کی کتب اور تحاریر میں پایا۔ امبیدکر کے نزدیک گاندھی دلت اور اچھوت طبقہ کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ وہ گاندھی جی کو ایک شاطر اور مکار اپر کاسٹ ہندو گردانتے ہیں۔ امبیدکر کی تحاریر بھی اب انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ دلت اور اچھوت لوگوں کا ماننا ہے کا گاندھی جی نے پونا پیکٹ کے ذریعے ان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔ میں قاری پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس الزام کی صداقت کی تحقیق کرے۔

بطور پاکستانی میرے نزدیک گاندھی جی کی سب سے بڑی غلطی ان کا جناح کے ساتھ رویہ تھا۔ جب گاندھی ہندوستان واپس تشریف لائے تو جناح صاحب نے ان کے اعزاز میں دیے گئے گجرات سبھا کے اجلاس کی صدارت کی اور ان کا بطور ہندوستانی اور گجراتی ان کا خیر مقدم کیا۔ اس اجلاس میں گاندھی جی نے جواباً کہا کہ ان کو خوشی ہوئی کے ایک مسلمان نے ان کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ انہوں نے پہلے کسی مسلمان کو گجراتی محفل میں شامل ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ گاندھی جی شاید بھول رہے تھے کہ جنوبی افریقہ میں ان کے سب سے بڑے محسن گجراتی مسلمان ہی تھے۔ دوسرا یہ کہ اس وقت تک جناح ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے اور اپنے آپ کو صرف ہندوستانی مانتے تھے۔ اس واقعے کا ذکر دلیپ ہیرو کی ’لانگسٹ اگست‘ میں اور جسونت سنگھ کی \"\"کتاب ’جناح انڈیا اندیپینڈینس پارٹیشن‘ میں ملتا ہے۔ بہرحال جناح مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے کوشاں رہے۔ پھر گاندھی جی تحریک خلافت میں کود پڑے۔ جناح نے انہیں بارہا سمجھایا کہ مولویوں کو سیاست میں لانے سے ہندو مسلم اتحاد کو بہت نقصان ہوگا۔ اور وہی ہوا۔ جنوبی ہند میں موپلا مسلمانوں نے ہندوؤں کا قتل عام کیا۔ اسی طرح گاندھی جی کی رام راج کی کال نے ہندوؤں کو متحرک کر دیا۔ کہیں شدھی تحریک چل پڑی اور کہیں تنظیم اور تبلیغ۔ ہندو مسلم اتحاد 1920 کی دہائی میں ایسا پارہ پارہ ہوا کہ دوبارہ نہ سنبھلا۔ اسی دوران مسلمانوں کے ہاں مسلم نیشنلزم کا بول بالا ہونا شروع ہوا۔ جناح نے 1920-1940 میں کئی بار گاندھی جی کو مسلمانوں کے جائز مطالبات ماننے اور ہندو مسلم اتحاد کی جانب مائل کرنے کی کوشش کی مگر ان کا رویہ ہمیشہ تمسخرانہ رہا۔ یو پی میں مسلم لیگ کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تو جناح نے پھر گاندھی سے اپیل کی مگر گاندھی کا جواب مبہم رہا۔ اسی اثنا میں جناح پر پنجاب کے مسلمان حاوی ہونے شروع ہوئے اور بالآخر جناح کو مطالبہ پاکستان ماننا پڑا۔ پھر بھی جناح نے ہندوستان کو متحد رکھنے کی آخری کوشش 1946 میں کی جب انہوں نے کابینہ مشن پلان مان لیا۔ اس کو کانگرس نے مسترد کیا تو انہوں نے راست اقدام کی کال دی جو سول نافرمانی کی تحریک تھی اور ہندو مخالف نہ تھی۔ بہرحال یہ ایک غلطی تھی اور اس کے نتائج کلکتہ میں واضح ہوئے۔ حاشر صاحب نے ہندو مسلم فسادات کا سہرا یوم راست اقدام کے سر ڈالا ہے جو کہ غلط ہے۔ یہ ایک طویل داستان ہے جو بہت پہلے سے شروع ہوتی ہے۔

جناح صاحب بھی گاندھی جی کی طرح انسان تھے۔ غلطیوں سے ہرگز مبرا نہ تھے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک انگریزی اخبار میں یہ \"\"لکھا کہ جناح نے پاکستان کے بنانے کو اپنی سب سے بڑی غلطی کہا تھا تو مجھے پاکستان دشمن اور نہ جانے کیا کیا سننا پڑا۔ انگریزی اخبار نے بھی ڈر کر کالم ہٹا دیا۔ جناح صاحب انسان تھے۔ انسان ہی دروں بینی کرتے ہیں۔ اس سے ان کی شخصیت پر حرف نہیں آتا۔

اب بات کرتے ہیں عمران خان کی کرکٹ کی۔ عمران خان کی سیاست سے مجھے سخت اختلاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم عمران خان کو بطور کرکٹر ہی رگڑ دیں۔ عمران کبھی دعویدار نہیں رہے کہ وہ عظیم ترین کرکٹر تھے۔ ان کی کتاب آل راؤنڈ ویو میں یہ واضح درج ہے کہ وہ اپنے آپ کو قدرتی طور پر ٹیلنٹڈ نہیں سمجھتے۔ مگر ان کی کرکٹ کی خاصیت ان کی ان تھک محنت اور ان کا ہار نہ ماننے کا جذبہ تھا۔ ان کے ریکارڈز کا آج کے ریکارڈ سے موازنہ کرنا غلط ہے۔ البتہ اپنے زمانے میں ان کے ریکارڈز نمایاں تھے۔ ہم نے ان کو اپنے عروج پر کھیلتے دیکھا ہے۔ اگر وہ آج کھیلتے تو یقیناً کئی ریکارڈز ان کے نام ہوتے۔ اگر آپ عمران کو بڑا کھلاڑی نہیں مانتے تو یہ آپ کی کرکٹ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے کیونکہ ان کو ہر بڑا کھلاڑی عظیم مانتا ہے۔ سیاست کو خدارا کھیل سے الگ رکھیں۔

اور یہ جان لیں کہ گاندھی جی ہوں جناح صاحب ہوں یا عمران خان نہ ان کو آپ فرشتہ جانیں اور نہ ہی ان کو ہر برائی کا منبا۔ انسانوں کو انسان رہنے دیں اور ان کی زندگیوں سے سبق حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments