ایک امیتابھ بچن اور فن کی سانجھ


\"\"امیتابھ بچن کی اداکاری بھارتی فلمی صنعت کے موجودہ مقام کی بڑی وجہ ہے۔ جب بھی ہندوستانی سنیما کی تاریخ پہ بات ہو گی، اس بلند قامت شخص کی حصہ داری کا ذکر سرحد کے دونوں اطراف ہوگا۔ جتنی شہرت بھارت میں اس خوش بخت نے پائی، بلا مبالغہ ادھر بھی ان کے انداز کو مانا اور سراہا جاتا ہے۔ وقت کروٹیں بدلتا ہے، پہلو بدلتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ایسے کردار تاریخ کے صفحات پہ ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ تحریر مصنف کا کمال ہے مگر اس کی ادائیگی اور پھر ایک خاص اظہار کی طرح اپنا کے، اداکار الفاط اور خیال کا امانت دار بن جاتا ہے۔ وہ منفرد خیالات کا پیغمبر ہوتا ہے ۔سماج میں عمومی ناہمواریوں اور بد اعتدالیوں کے خاتمے کے لئے مطلوبہ کردار کے خدوخال واضع کرتا ہے، ترغیب دیتا ہے اور اس سے قبل شعور دیتا ہے۔ فنکار کا جرم اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ آگہی کے فریضے کو رد نہیں کرتا۔ وہ سماجی نا انصافیوں پہ زبان بند نہیں کرتا، وہ روش نہیں بدلتا۔ ایک حقیقی فنکار جو دیکھتا ہے اس پہ اظہار کرتا ہے، نفرت سے آزادی اور تعصب سے بیزاری اسے فن کی معراج تک پہنچانے میں ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔

اسی لئے انور مقصود جب سرحد عبور کر کے جشن ریختہ میں شرکت کرتے ہیں تو اردو زباں و بیاں کے رسیا بھول جاتے ہیں کہ موصوف کس ملک کے باسی ییں۔ ہر مذہب کا ماننے والا جیسے اس محفل میں انور صاحب کا منتظر بیٹھا ہو۔ ہر چند کہ میر اور مصحفی کا آپس میں جب تعلق قائم کیا تو سماں بندھ گیا۔ اسی جشن میں ایک بار مشہور شاعر انور مسعود کا انداز بھی یوں مقبول نظر آیا کہ جیسے اپنے ہی صحن میں بیٹھے ہوں۔ داد و تحسین ایسے ملی کہ جیسے خود اپنے ہی کلام پہ میاں مٹھو بن گئےہوں۔

گلوکار رفاقت علی خان کی ہر پیش کاری پہ پورا حلقہ جھوم جاتا ہے۔ بھارت کے سٹیج پروگرامز میں ہمارے جو نوجوان فنکار گئے، ان کو \"\"کتنا پسند کیا گیا اس کے لئے یوٹیوب سے استفادہ لیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں شہناز اور زین علی کو کتنے لوگ جانتے ہوں گے ،مسرت عباس اور خرم کی گائیکی کا کتنے لوگوں کو معلوم ہوگا۔ ہاں مگر ہمسایہ ملک نے انہیں وہ پزیرائی دی جس کا خواب میں بھی تصور محال ہے۔ استاد نزاکت علی اور سلامت علی کو مذہب کی پرواہ کئے ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی سبھی مانتے ہیں۔ وہ نوجوان جنہیں اپنے ہاں کوئی نہیں جانتا ان کی ویڈیوز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کتنا فن ہمارے ہاں رجعت کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارے سفیر ہیں، جنہیں ہم نے پہچانا مگر اس وقت جب انہوں نے سرحد پار کی۔ اس طرف یہ باتیں ہورہی ہیں کہ گاندھی جی کو کیوں مارا گیا، وہ تو ہمارے نہیں تھے۔ فقط مسلمانوں اور پاکستان کی حق تلفی کے خلاف نحیف آواز کو جواز بنا کر سلام نہیں کیا جا سکتا وغیرہ جیسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔

پھر لوٹتے ہیں امیتابھ صاحب کی طرف اور جانتے ہیں کہ محترم اس مثال پہ کس قدر پورا اترتے ہیں۔ سماجی رابطے کے ایک سلسلے میں موصوف کی ایک مختصر سی ویڈیو چلی، جس میں ایک نہیں ان گنت پہلو ہیں کہ ہندوستان میں عام انسان ہمارے ہاں کے انسان سے قطعی مختلف نہیں، وہاں کا باسی جس بوجھ کو سر پہ اٹھائے جی رہا ہے لگ بھگ ویسی ہی گٹھری ہمارے سروں پہ لدی ہے۔ پینے کو صبر کا پیالا ہے، مشقت کی طرح محنت اور اس میں عظمت کی بشارتیں ہیں۔ یہاں بھی عام انسان کے معاملات روز محشر پہ چھوڑے گئے ہیں اور سرحد پار بھی ایسی ہی گھڑی کا انتظار ہے۔ سب دکھ، درد اور خوشیوں کے منتخب سے لمحات ایک جیسے ہیں، مگر ہم ایک نہیں ہیں۔ انسانوں کی صورتیں پوری دنیا میں ایک سی ہیں۔ دنیا کے تمام عام انسان ایک جیسے کرب اور ایک جیسی الجھنوں میں زندہ ہیں، مگر ہم ایک نہیں ہیں۔ \"\"ہر سرحد کے اطراف عام انسان کی تکالیف سب کی سب ایک ہیں، مگر ہم ایک نہیں ہیں۔ صاحب ہم تو سرحد کے اندر بھی ایک نہیں بن سکے، ہم سب کچھ بھی بن جاتے ہیں، ذات، برادری، مذہب، فقہ اور نہ جانے کس کس کی تقسیم میں جی جاتے ہیں۔ مگر ہم ایک نہیں بن سکتے کیونکہ ہمیں خودغرضی کا نشہ دیا گیا اور ہمیں اس نشے کی لت لگ چکی ہے۔ ہم اچھے خیالات کے حامی ہیں، انہیں پسند بھی کریں گے مگر واپس پلٹ کے زندگی کی ریل کے اسی ڈبے میں آئیں گے اور پھر وہی بوجھ اٹھا کے صبر کے گھونٹ پی لیں گے۔ ہمارے پاس ایک نہ ہونے کے کئی حوالے موجود ہیں، کئی طرح کے تعصبات سے زندگی کو کٹھن بنا رکھا ہے۔ دنیا میں صرف لوٹ مار میں کوئی تفریق نہیں، مالدار کسی بھی نسل قوم اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ کسی بھی دوسری قوم سے تعلق رکھنے والے عام انسان کو گاہک بنا سکتا ہے اور اس ضمن میں ہاتھ آئی دولت کسی لحاظ سے ناجائز نہیں تصور کی جا سکتی۔ گاہک کا مسلک، مذہب، قوم اور زبان اس لمحے تک کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک وہ پیسے حوالے نہیں کرتا۔ اس تفریق اور بے وقعتی سے اختلاف کو پھیلا کر آج دنیا کے وہ محنت کش جن کی بدولت یہ دنیا اس حالت میں موجود ہے، ان کی دولت دنیا کے آٹھ مخیر اور خدا ترس لوگوں کے پاس موجود ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خیرات کے نام پہ لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کر کے انہیں بھکاری اور خودکو نیک ثابت کرنے میں ذرا برابر کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ دنیا جن کے دم سے ہے ان کو اداکار جب اپنے انداز اور خاص اظہار کے سپرد کرتا ہے تو سماجی شعور کئی پستیوں کو پھلانگ کے اوپر آ جاتا ہے۔\"\"

صد افسوس کہ اب فن کو سرمائے کی ہوا لگ گئی۔ آج فلم اور ڈرامے میں بہت کم ایسا کام ہوتا ہے کہ جس سے معاشرتی سفر کی راہیں ہموار ہو سکتیں، زندگی پہ شب خون مارنے والوں اور محروم رکھنے کی سازشوں سے پردے اٹھ سکتے ہیں۔ تفریح کے نام پہ ہی ذہن کے اندر اٹھنے والے سوالات کو دبا دیا جاتا ہے۔ سنیما فکری تحرک میں بڑا خاص کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گلیمر اور تفریح نے اس پورے میدان پہ قبضہ کر رکھا ہے۔ اس طرح محدود مقاصد ہی حاصل ہو سکتے ہیں، مختلف مصنوعات کی تشہیر کے لئے البتہ مناسب نتائج بر آمد ہو رہے ہیں۔ دلچسپیوں کو اس رخ ہانکا گیا کہ اب ہم جاننے اور سوچنے کی بجائے گم رہنا چاہتے ہیں۔ ہماری آنکھ صرف نفرت کی للکار پہ کھلتی ہے، دنیا میں انسانوں کے پاس ایک ہونے کے کئی جواز موجود ہیں مگر ہم ایک نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments