تحقیقی فضولیات سے پرہیز علاج سے بہتر ہے


\"\"

دنیا میں اس وقت دو سو سے زائد ممالک یا نیم خود مختار خطے ہیں۔ ان میں سے ایک سو ترانوے اقوامِ متحدہ کے ارکان ہیں۔ان میں سے بیس ممالک (جی ٹوینٹی) ایسے ہیں جن میں اس دنیا کی چونسٹھ فیصد آبادی بستی ہے۔ کل عالمی پیداوار کا اسی فیصد ان کے ہاتھ میں ہے اور پچھتر فیصد عالمی تجارت انھی جی ٹوینٹی ممالک کے دم سے ہے۔

اس وقت دنیا میں سرکاری و نجی شعبے اور یونیورسٹیاں سائنسی و صنعتی ریسرچ پر سالانہ ایک اعشاریہ سات کھرب ڈالر صرف کر رہی ہیں۔ اس رقم کا بانوے فیصد جی ٹوینٹی ممالک میں خرچ ہو رہا ہے۔ دنیا کے ستاسی فیصد سائنسداں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین انھی جی ٹوینٹی ممالک میں مصروفِ عمل ہیں۔ امریکا اور یورپ میں سالانہ جتنی ایجادات پیٹنٹ ہوتی ہیں ان میں سے بانوے فیصد جی ٹوینٹی ممالک سے ہوتی ہیں۔

جی ٹوینٹی میں پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک شامل ہیں۔ جیسے ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی،جاپان،جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ، امریکا اور یورپی یونین۔

ان میں سے دس ممالک ایسے ہیں جو سائنسی ریسرچ پر دنیا میں صرف ہونے والی رقم کا اسی فیصد خرچ کر رہے ہیں۔ سائنسی و ٹیکنالوجیکل ریسرچ میں بھی ورلڈ لیڈر امریکا ہے جو اپنی کل قومی آمدنی کا اگرچہ دو اعشاریہ سات فیصد اس مد میں خرچ کرتا ہے مگر یہ رقم بھی اس شعبے میں ہونے والے کل عالمی اخراجات کا تیس فیصد ہیں۔ اسی لیے امریکا سب سے بڑی سپر پاور ہے۔

چین دوسری بڑی سپر پاور ہے جو اگرچہ اپنی قومی آمدنی کا  دو اعشاریہ سات فیصد اس مد میں خرچ کرتا ہے مگر یہ آمدنی سائنٹفک ریسرچ پر خرچ ہونے والی عالمی رقم کے بیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ چین ہر سال اس بجٹ کی مد میں اٹھارہ فیصد کا اضافہ کر رہا ہے۔ اس شرح سے چین سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ کے میدان میں دو ہزار بیس تک امریکا سے آگے نکل جائے گا۔

اگر سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق پر اخراجات کو قومی آمدنی کی عینک سے دیکھا جائے تو اس وقت چوٹی کے سولہ ممالک کی ترتیب کچھ یوں بنے گی۔ جنوبی کوریا اپنی کل قومی آمدنی کا چار اعشاریہ تین فیصد، اسرائیل چار اعشاریہ ایک فیصد، جاپان تین اعشاریہ چھ فیصد، فن لینڈ اور سویڈن تین اعشاریہ دو فیصد، ڈنمارک تین اعشاریہ ایک فیصد، آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ تین فیصد، جرمنی دو اعشاریہ نو فیصد، امریکا و چین دو اعشاریہ سات فیصد، بلجیئم اور سلووینیا ڈھائی فیصد، فرانس دو اعشاریہ تین فیصد، آسٹریلیا اور سنگا پور دو اعشاریہ دو فیصد خرچ کر رہے ہیں۔ (اس فہرست میں کوئی مسلمان ملک شامل نہیں)

اگر سائنس و ٹیکنالوجی پر صرف ہونے والی رقم کے حجم کو دیکھا جائے تو ترتیب یوں بنے گی۔ سب سے پہلے امریکا، اس کے بعد چین، جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، فرانس، بھارت، روس، برطانیہ، برازیل، اٹلی، کینیڈا، آسٹریلیا، اسپین اور نیدر لینڈز۔ (اس فہرست میں بھی کوئی مسلمان ملک شامل نہیں)۔

جہاں تک مسلمان ممالک کا معاملہ ہے تو ملائشیا سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم و تحقیق کے شعبے میں سب سے زیادہ یعنی اپنی کل قومی آمدنی کا ایک اعشاریہ سات فیصد، ترکی ایک فیصد، مراکش و مصر و مالی  اعشاریہ سات فیصد، تیونس اعشاریہ چھ فیصد ، فی کس آمدنی کے اعتبار سے سب سے امیر عرب ملک کویت اور واحد ایٹمی طاقت پاکستان اعشاریہ تین فیصد، تیل کی دولت سے مالامال سب سے بڑا مسلمان افریقی ملک نائجیریا اعشاریہ دو فیصد اور آبادی کے اعتبار سے سب سے گنجان مسلمان ملک انڈونیشیا اس مد میں محض صفر اعشاریہ صفر آٹھ فیصد خرچ کر رہا ہے۔

اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اس وقت اسرائیل میں ہر ایک ملین آبادی پر سائنسی محققین کی تعداد آٹھ ہزار دو سو پچپن ہے۔ یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جب کہ پاکستان میں ہر ایک ملین کی آبادی پر سائنسی محققین کی شرح پینتالیس ہے۔ بھارت جو سائنسی تعلیم و تحقیق کی مد میں رقم خرچ کرنے کے اعتبار سے عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے وہاں ہر ایک ملین آبادی پر سائنسی ماہرین کی شرح ایک سو چھپن ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کا وجود ملک دشمنوں کو کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان نہ صرف عالمِ اسلام کا قلعہ بلکہ واحد ایٹمی قوت ہونے کے فخر سے مالا مال ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان دور مار میزائیل، طیارے،ٹینک اور ڈرون مقامی طور پر بنا رہا ہے۔

اگر سائنسی ترقی کا پیمانہ یہی ہے تو اس اعتبار سے  پاکستان کو کم ازکم مسلمان دنیا کی حد تک سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم و تحقیق کے میدان میں لیڈر ہونا چاہیے۔ کتنی قابلِ فخر بات ہے کہ ایک پاکستانی سائنسداں نوبیل انعام یافتہ ہے۔ کئی سرکردہ پاکستانی یورپ اور امریکا میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں نام کما رہے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم و تحقیق کی عالمی رینکنگ میں وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین کے بقول ستاسیویں نمبر پر ہے۔

دو روز قبل سینیٹ کی سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں رانا تنویر حسین نے نہایت سچائی کے ساتھ اپنا دل کھول کے رکھ دیا۔ انھوں نے بتایا کہ دو ہزار آٹھ کے بعد سے عملاً سائنٹفک ریسرچ کی مد میں مختص بجٹ میں بڑھوتری کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔ لہذا باصلاحیت لوگ دل برداشتہ ہو کر یا تو اپنا روزگاری شعبہ بدل رہے ہیں یا پھر اپنے مستقبل کا سوچ کر بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔

بقول رانا صاحب وفاقی وزارتِ سائنس و ٹیکنولوجی سرکاری ترجیحات میں نچلے پائیدان پر ہے۔ اس وزارت کو اپنے اخراجات اور توانائی، آبی وسائل اور سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل تحقیق کے لیے کام کرنے والے سولہ اداروں کے لیے جو بجٹ دیا جاتا ہے وہ کل قومی بجٹ کا صفر اعشاریہ انتیس فیصد ہے۔ اس موقع پر سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ عثمان سیف اللہ نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ یہ بجٹ تو میٹرو بس کے ایک کلو میٹر پر آنے والے اخراجات سے بھی کم ہے۔

پر ہماری پسماندگی کا اصل سبب سائنس و ٹیکنولوجی کی علمی اہمیت سے بیگانگی تھوڑا ہے۔ ہماری پسماندگی کا سبب تو یہود و نصاریٰ و ہنود کی مسلسل سازشیں ہیں۔ جب تک یہ سازشیں جاری ہیں ہم سائنس و ٹیکنولوجی کے میدان میں تحقیق و ترقی کو فروغ دینے کے وسائل اور ماحول کیسے پیدا کریں؟ اگر اس بابت سوچنے سے ڈیپریشن ہو تو پھر اپنی مرضی کے منتخب اقبالی اشعار کی گولی بنا کر نگل لیں اور مایوسی سے نجات پائیں۔

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

کیا یہ اطمینان کافی نہیں کہ چھچورا مغرب اور اب مشرق جس سائنسی ترقی پر اترا رہا ہے وہ ہمارے پرکھوں کی ہی تو دین ہے۔

آپ ایک اور نیند لے لیجے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا  (جون ایلیا)

(بشکریہ ایکسپریس نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments