اہل مغرب، مسجد اور ثنا خوان تقدیس مشرق۔۔۔۔


\"\" میں کیا کہوں اور کیا سنوں… جو سنتا ہوں، وہی بتاتا ہوں۔ جو دیکھتا ہوں، وہی لکھتا ہوں۔ میری آنکھ کا استعارہ اور تمہارے اندر کا کالا پن دونوں ایک دوسرے سے اتنے ہی مختلف ہیں، جتنا میں تم سے اور تم مجھ سے۔ مگر کمال یہ دیکھو کہ کالا پن صرف تمہارا ہے۔ میں تو دل کا بہت اچھا واقع ہوا ہوں۔ مجھے تو سانس کے ساتھ بہار ملتی ہے اور تم اسے خزاں رسیدہ کرنا چاہتے ہو۔

‏‎ تمہارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ تمہارے خیال میں ہر دوسرا کالی زبان والا اور تم منطق کے بادشاہ سب سے الگ، سب سے جدا۔

‏‎ اپنا کالا پن مسئلہ نہیں ہے تمہارا۔ ذرا جھانک کر دیکھو، جو لکھا ہے نا دل پر وہ بھی سیاہ روشنائی نہیں؟ پر تم پڑھ سکو تو نا؟ تمہیں تو سیدھی بات سمجھ میں نہیں آتی، استعارہ کہاں آئے گا۔ میں خود معقول کرتا ہوں تمہاری ہر رائے کو، ورنہ اس کی نامعقولیت مجھ پر عیاں ہوتی ہے۔ میں معقول نہ کروں تو مجھے بھی بری ہی لگے۔ مگر اس سے بڑھ کر میں اپنی بات کو خود کے لیے معقول کرتا ہوں۔ اور اپنی ہر بات کی توجیہ کر کے اس کے لیے بہترین دلیل ڈھونڈھ لیتا ہوں۔ تو یہ دلیل پھر دوسرے کے لیے کیوں نہیں۔ اگر دلیل ٹھیک ہے تو دوسرے کے لیے بھی ٹھیک ہونی چاہیے۔ اگر غلط تو پھر میرے لیے ٹھیک کیوں کر ہو سکتی ہے۔

‏‎کینیڈا اور امریکا کی مساجد میں پیش آئے حالیہ واقعات میں سامنے آنے والے سماجی رویے نے بہت کچھ عیاں کر دیا۔

‏‎ اگر انگریز آج بھی برصغیر میں موجود ہوتے تو ان کا رویہ بھی شاید ہمارے والا ہوتا کہ:

‏‎ ہاں، تو اچھا ہوا نا وہ بھی تو ہزاروں لوگوں کو مار رہے ہیں۔ ان کے لوگ کہتے ہیں کہ سوائے ان کے کسی کو جینے کا حق نہیں اور اگر ہے \"\"تو وہ بھی یوں کہ ہم سے چھوٹے بن کر رہو۔

‏‎ تو کیا ہوا ان کے اپنے اندر کے لوگ ہوں گے۔ فلاں اور فلاں ڈاکیومینٹری میں آپ نے دیکھا نہیں انہوں نے خود بتایا ہے کہ ان کے اندر اس سب کی تیاری جاری تھی کہ کیسے یہ اقدام کر کے اپنے لیے بدلتے حالات تو اپنے حق میں کیے جائیں۔ تو یہ سب اس کی کڑی ہے اور کچھ نہیں۔ وہ جو خود اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مسلکوں اور فرقوں کی بنیاد پر دھماکے کرتے ہیں، وہ بھلا یہ کیوں نہیں کر سکتے۔ وہ جن سے خود ان کے ہم مذہب محفوظ نہیں، ان کے لیے یہ کیوں مشکل ہو سکتا ہے۔ وہ جو خود اقدام بھی کرتے ہیں اور منصف بھی ہیں۔ جنہیں جینے کی وجہ تو ملے نہ ملے مرنے کو لا تعداد توجیہات موجود ہیں۔ تو اب وہ اس سے فائدہ اٹھا کر کہیں گے کہ دیکھو دہشت گرد تو تمہارے اندر بھی موجود ہیں۔ یہ سارا پلان اسی نظر سے بنایا گیا ہے تا کہ وہ تقدیر کی اوندھی کوڑیاں اپنے حق میں سیدھی کر لیں۔

‏‎ ہم کیا کر رہے ہیں!

‏‎ہمارے اپنے ہمسائے اور اپنے ملک کے لوگ ہم سے محفوظ نہیں۔ ہم لوگوں کے صرف فرقے پر ان کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہم صرف خود سے اختلاف پر ہر کسی کے ایمان کا فیصلہ سنانے کو ہر دم تیار کامران ہیں۔ تم اگر میری بات مان لو تو صادق و امین بھی ہو اور متقی و پرہیزگار بھی اور ایک اچھے مسلمان بھی۔ لیکن اگر تم میری بات ماننے کو تیار نہیں تو نہ تم صادق ہو اور نہ امین، نہ متقی اور نہ پرہیزگار اور نہ اچھے مسلمان۔

‏‎ سماج کا یہ رویہ صرف اہل مذہب تک ہی نہیں۔ غم، دکھ، مصیبت اور آفت میں چاہے خود پر آئے یا دوسرے پر، قوموں کے رویے پورے سماج کی تربیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور خبر ہو کہ ان رویوں کا کوئی تعلق کسی فرقے، مذہب یا لامذہبیت سے نہیں ہوتا۔ یہی رویے سماج کی مجموعی دانش اور شعور کا پتا دیتے ہیں۔

\"\"‏‎ مثلاً:

‏‎جو طبقہ مذہب کے شاید اتنا قریب نہیں سمجھا جاتا، وہ بھی اس وقت امریکا، کینیڈا میں پیش آئے سماجی رویے کو اہل مذہب کو آئینہ دکھانے کو ہاتھ اور زبان کی نوک پر رکھے بیٹھا ہے۔ یہ آئینہ ان کا چہرہ بھی ویسا ہی دکھائے گا جیسا سماج کا چہرہ ہے۔ افراد کی ایک بڑی تعداد جب اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتی ہے تو پھر سماج کا مجموعی شعور بھی اسی گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اخلاقی و سماجی انحطاط کا شکار سماج کسی معاملے میں کوئی مجموعی فیصلہ ٹھیک کرلے۔

‏‎ کیوں! یہ بھی ویسے ہی ہیں!

‏‎ اس لیے کہ انہوں نے بھی رویہ یہی اختیار کیا۔ اگر اہل مذہب ان کو سمجھنےاور بات کرنے یا ان کی دلیل سننے کو تیار نہیں تو یہ کوشش ان کے ہاں سے بھی نہیں ہوئی۔

‏‎جملہ ان کے ہاں بھی وہی ہے کہ ہمیں پتا ہے یہ کیا کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں اور کیسے کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کو پڑھنے، سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور سنے یا پڑھیں بھی کیا کہ ہر دلیل کے جواب میں وہ کچھ برہان قاطع لا کھڑی کرتے ہیں، اب انسان اس پر کیا بات کرے اور کہاں تک کرے۔

‏‎ تو مسئلہ سماج کا رویہ ہے۔ اگر ہم نے مسئلے میں جینا اور اس سے نبرد آزما ہونا نہیں سیکھا تو کچھ نہیں سیکھا۔

‏‎ ہم اپنے ہمسائے میں موجود کسی اور فرقے یا مسلک کو برداشت نہیں کرتے۔ غلط کام کوئی بھی، کہیں اور کرتا ہے اور ہم اپنے بھائیوں کی املاک کو آگ لگا دیتے ہیں۔ ظلم اگر ہم پر کہیں اور سے بھی ہو تو ہم اپنا گھر، اپنی بستاں اور اپنے اثاثے جلا کر احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جاننے اور سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اس سے تو ہم غلط حرکت کرنے والے کو اپنی جہالت اور اخلاقی پستی کی دلیل فراہم کر رہے ہیں۔ ہم اس مقدمے کا فیصلہ خود اپنے خلاف لکھوا رہے ہیں جو مقدمہ ہم اپنی سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر اپنے حق میں لڑنے نکلے ہیں۔

 ہم جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم پہلے کسی پر الزام لگاتے ہیں، پھر الزام پر الزام لگاتے ہیں، ہر اس سطح تک گرتے ہیں کہ علم کی جنگ سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی فلمی جنگ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اپنی جیت کے لیے اگر کچھ اپنوں کی جانیں بھی ہار دیں تو پروا نہیں۔ جب بات اس سب سے بھی نہ بنے تو پھر جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کی سزا بنتی تو یہی ہے، مگر ہم نہیں کہتے کہ دے بھی اپنے ہاتھوں دی جائے۔ اور جب یہ اندازہ ہو جائے کہ جذبات کی آگ تیل کی منتظر تو پھر ہم اپنی محبتوں کے لازوال تیل سے سے کچھ کے جسم اور جو بچ جائیں ان کے نفس جلا ڈالتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ہم پر معصومیت کا دیوانہ وار حملہ ہوتا ہے اور ہم چیخ چیخ کر مذمت کرتے اور بتاتے ہیں کہ جانے یہ کرنے والے کہاں سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ انہی کے ہاں کی پیدائش ہیں جو ہمیں لڑوا کر ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

‏‎اس قدر خوبصورتی اور مہارت سے ہم ضمیر کو خواب خرگوش میں دھکیلتےہیں اور خود کو بادلیل دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں جس سے اگر کسی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ ہم خود اور ہماری قوم ہوتے ہیں۔

سیکھنے کو کیا ہے:

‏‎ مریکہ اور کینیڈا میں ہماری مساجد پر حملہ اور ٹرمپ صاحب کی طرف سے ہم پر لگی پابندیوں اور اس کے جواب میں ان کے سماجی روئیے اور اہلِ دانش سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اب یہ الزام خدا را نہ لگائیے گا کہ دیکھا ہم تو پہلے کہتے ہیں کہ یہ سب انہی کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔\"\"

وہ اپنے بارے میں ہماری رائے اور ارادے اور اس ارادے کے نتیجے میں پیش آئے واقعات سے باخوبی واقف ہونے کے باوجود ہمارے حق کی جنگ کا علم لیے کھڑے ہو گئے اور اعلان کرنے لگے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ ہمیں اپنی حکومت کے خلاف جانا پڑے۔

اپنے گھروں کے دروازے اور اپنی عبادت گاہوں کی کنجیاں پیش کر دیں کہ تمہاری عبادت گاہ جب تک دوبارہ کھڑی نہ ہو جائے ہماری حاضر ہے۔ یہ وہی ہیں جو جانتے ہیں کہ وہ ہماری کسی عبادت گاہ میں داخل ہونا کا سوچ بھی نہیں سکتے کجا یہ کہ وہاں آ کر اپنی عبادت کر سکیں۔ بلا تفریقِ رنگ و نسل، زبان اور مذہب وہ ہمارے حقوق کی جنگ لڑنے کھڑے ہو گئے۔

اب یہ بھی نہیں کہ وہ سارا کا سارا سماج یا یوں کہیے پوری قوم ہی اسی جگہ کھڑی ہے۔ ہرگز نہیں۔ ایسا ہوتا تو نہ ٹرمپ صاحب اقتدار میں آتے اور نہ ان کے لوگ ہماری مسجدوں پر حملہ آور ہوتے۔

اچھے برے لوگ ہر قوم میں پائے جاتے ہیں، مگر جب سر پر کوئی آفت آن پڑے یا کوئی فیصلے کی گھڑی آن پڑے تو اس وقت سماج کی مجموعی تربیت پوری قوم کی فطرت کار کا منہ بولتا ثبوت بن جاتی ہے۔ اپنا گھر جلتا دیکھ تو سب کھڑے ہو جاتے ہیں، ویسے ہم وہ بھی نہیں ہوتے، مگر دوسرے کا گھر جلتا دیکھ کھڑے ہونا کمال ہے۔

تو سیکھنا یہ ہے کہ اگر کسی اور مذہب، فرقے یا مسلک کے ساتھ بھی کچھ برا ہو تو ہم ایسے ہی اس پر اپنے جذبات کا اظہار کریں جیسے کینیڈا کے وزیراعظم اور امریکا اور کینیڈا کی عوام کی اکثریت نے کیا۔

‏‎ سماج کے سیکھنے کو اس میں بہت کچھ ہے اور شاید اسی رویے میں بقا کے تمام رنگ بھی پوشیدہ کہ بکھیرو تو سہی۔۔۔ اور پھر ان دھنک رنگوں میں اپنا مستقبل اپنی انہی آنکھوں سے دیکھ لینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments