یوم یکجہتی کشمیر…. ایسی دوا نہ کرو جو مرض بڑھا دے


\"\" کیا ہر سال پانچ فروری کو انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ، ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا کر ، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کشمیر پاکستان کی شہ رگ’ کشمیریوں کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے‘ کشمیری خود کو تنہا نہ سمجھیں ، ایسے رٹے رٹائے گھسے پٹے جملے بول کر ہلہ گلہ کرنے سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا ؟ ہر گز نہیں…. اگر ایسا ہوتا تو پچھلے ستائیس برسوں میں ایسے نمائشی اقدامات سے اب تک مسئلہ کشمیر بھگت چکا ہوتا۔ واضح رہے کہ یوم یکجہتی کشمیر کا سلسلہ 1989 میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے شروع کیا تھا۔ اور یہ سوال ایسے میں اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب وہ لوگ اس طرح کی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہوتے ہیں جنہوں نے دانستہ یا نا دانستہ مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچا کر کشمیری عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔
بطور کشمیری یہ بات میرے لئے تکلیف دہ ہے کہ آزادی کے لئے اتنی قربانیاں دینے اور اقوام متحدہ کی فائلوں میں مسئلہ کشمیر سر فہرست ہونے کے باوجود کشمیری آج نہ صرف تنہا ہو گئے ہیں بلکہ انتہائی مخدوش حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ حالیہ کچھ دنوں میں امریکہ اور یورپ میں ہونے والی اس پیشرفت سے بھی ہو سکتا ہے کہ کینیڈا میں ایک مسجد اور نمازیوں کی شہادت اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سات مسلمان ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں داخلے پر پابندی کے اعلان نے سارے یورپ اور امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ مسلم کشی کی ہر سطح پر مذمت کی گئی۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی غیر مسلم اکثریت مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑی ہو گئی کہ نسلی اور مذہبی تفریق کی بنیاد پر ایک پوری کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے اقدامات اور پالیسیاں ہرگز برداشت نہیں کی جائیں گی۔ لیکن اس کے برعکس کشمیر میں جب بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلم آبادی کی نسل کشی ہوتی ہے، نہتے شہریوں کے خلاف وحشیانہ ریاستی تشدد ہوتا ہے، بچوں، عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کے جسم چھروں سے چھلنی کئے جاتے ہیں، جعلی پولیس اور فوجی مقابلوں میں ’باغی‘ نوجوانوں کو ہلاک کیا جاتا ہے‘ سنسان جگہوں سے کشمیری نوجوانوں کی تشدد زدہ لاشیں ملتی ہیں۔اور رائٹر، بی بی سی ، الجزیرہ، سی این این ایسے عالمی نشریاتی اداروں کی مسلسل کوریج کے باوجود بھی مغرب میں مظلوم کشمیری قوم کے لئے کوئی موثر آواز نہیں اٹھتی، مو¿ثر احتجاج نہیں ہوتا بلکہ امریکہ بھارت کے موقف کی تائید کرتا ہے کہ دہشت گردی کے مدعے پر وہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے دنیا کو ہمیشہ یہی باور کرایا ہے کہ کشمیر میں سب اوکے ہے، شانتی ہے بس پاکستان سرحد پار سے ’آتنک وادیوں‘ کو بھیج کر گڑبڑ کر دیتا ہے۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ کشمیر میں مسلح بغاوت تو 80 ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی تو اس وقت تک کشمیر میں ریفرنڈم کیوں نہیں ہوا تھا؟ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت نے کشمیر میں ’مسلح جہاد‘ شروع کر کے بھارت کو بیک فٹ پر کھیلنے کا منصوبہ ضرور بنایا کسی حد تک اس پر عمل بھی ہوا لیکن اس سٹریٹیجی نے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کیونکہ اتار چڑھاو کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کسی طور بھی بیرونی عوامل کے تابع نہیں ہے۔ یہ اندرونی تحریک ہے لیکن پاکستان کی ناقص پالیسیوں نے بھارت کو پراپیگنڈہ کا جواز فراہم کیا۔
جب حکومت پاکستان کی طرف سے ایک طرف تو یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ کشمیر متنازع خطہ ہے، یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے، کشمیر کے لوگوں کا استصواب رائے کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے اور پھر یہ کہنا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یا پاکستان کا حصہ ہے تو یہی وہ تضادات ہیں جو مسئلہ کشمیر پر کسی مثبت پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے ہیں۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں تو پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے فریق ہیں اور دونوں نے شروع میں اس پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ امن کی بحالی اور ساز گار ماحول میں رائے شماری کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات کریں گے لیکن جب یک طرفہ طور پر ایک طرف کشمیر کو شہ رگ اور دوسری طرف اٹوٹ انگ قرار دیا جانے لگا تو مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی مریض کو ایسی دوا کھلائی جائے جو افاقے کی بجائے مرض بڑھانے کا سبب بن جائے۔
قابل ذکر ہے کہ ایک طرف تو مرحلہ وار گلگت بلتستان کو وفاق میں ضم کر کے پانچواں صوبہ بنایا جا رہا ہے۔ 2009ء میں ’ امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس‘ آرڈر کے تحت اندرونی خودمختاری دینے کا ہوا کھڑا کر کے اس متنازعہ علاقے کو پاکستان کا صوبہ قرار دیا گیا۔ اس وقت وفاق میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار تھی۔ لیکن کسی ممکنہ عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے حکومت پاکستان نے یہ موقف اپنایا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ اور کشمیر کا ہی حصہ ہے لیکن اس علاقے کو زیادہ بااختیار بنانے کے لئے عارضی طور پر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ مسئلہ کشمیر کے فیصلہ کن مرحلے تک آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو ون یونٹ بنانے کی بجائے عارضی صوبہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ گزشتہ برس کے اوائل میں پاکستان کے سرکردہ انگریزی اخبارات میں یہ خبریں چھپی کہ چین سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہا ہے کیوں کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے زمینی راستے متنازعہ گلگت بلتستان سے گزرتے ہیں اس لئے چین کا یہ اصرار ہے کہ اس علاقے کو مکمل طور پر وفاق میں ضم کر دیا جائے جس پر کام جاری ہے۔ اس پر ہندوستان کے میڈیا میں کافی چیخ و پکار ہوئی اور بھارتی وزیر سشما سوراج نے کہا تھا کہ سی پیک منصوبہ ’ناقابل قبول‘ ہے۔
اس سوال کا جواب دینے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے کہ کیا کشمیر کے ایک حصے کو صوبہ بنانا بھارت کو شہ دینے کے مترادف نہیں ہے کہ وہ آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو انڈین یونین میں ضم کر دے۔ جیسا کہ یہ بھاجپا سرکار کا ایجنڈا بھی ہے۔
بہرحال قطع نظر اس بات سے کہ کشمیر پر دہلی یا اسلام آباد کی پالیسی یا موقف کیا ہے اقوام متحدہ کا اس حل طلب معاملے پر خاموش تماشائی کا کردار ایک طرح سے یہ اعلان ہے کہ’عالمی برادری‘ غیر علانیہ طور پر مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہو گئی ہے۔
اس پس منظر میں مظلوم کشمیری قوم کو اس بات سے کیا غرض کہ یکجہتی کے نام پر ان کے لئے ہاتھوں کی زنجیریں بن رہی ہیں۔ ان کے ذہنوں میں اگر کوئی سوال کلبلا رہا ہے تو وہ یہ کہ ہم سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ ہمیں آزادی اور امن سے رہنے کا حق کب ملے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments