گاندھی۔ شیطان یا فرشتہ


\"\"گاندھی جی پر لکھے گئے لفظ بہت سوں کو کہیں بہت گہرے چبھے۔ اعتراضات کی جھڑی تھمنے میں نہیں آ رہی۔ علمی تنقید اور تحسین تو سر آنکھوں پر لیکن ان بچکانہ تجزیوں اور طعنوں کا کیا کریں جو بیٹھک اور چوپالوں کے مخبروں، مدارس اور مساجد کے نیم خواندہ مولویوں اور درسی کتب کے کنوﺅں میں قید طلبا کی عنایت ہیں۔
بہت سوں کو اعتراض بس یہ ہے کہ گاندھی کو شہید کیوں کہا گیا۔ اب ان کو کون بتائے کہ شہید اور شہید فی سبیل اللہ میں کیا فرق ہے۔ لسانیات کے کون سے حوالے ان کے قدموں میں ڈھیر کریں کہ وہ جان سکیں کہ لفظ شہید نہ تو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی جاگیر تھا اور نہ ہی اس پر کسی صحیفے کا کاپی رائٹ ہے۔ لگے ہاتھوں ان سے Martyr کا کوئی بہتر اردو ترجمہ مانگ لیا تو اور شوروغل کا اندیشہ ہے۔ سوچ کتنی سطحی اور سمجھ کتنی ناقص ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ کسی بھی قتیل مذہب کی تنقید سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک دوست معترض ہوئے کہ کابینہ مشن کی ناکامی کا سہرا گاندھی کے سر سے کیوں اتارا گیا۔ دست بستہ ان سے عرض کیا کہ یہ سہرا تو کبھی ان کے سر بندھا ہی نہیں تھا۔ خیر وہ خاموش رہے پر ایک اور مجاہد میدان میں اتر آئے اور جسونت سنگھ کی تلوار کے پینترے دکھانے لگے۔ ان سے پوچھا کہ بھائی جسونت سنگھ کی کتاب پڑھی تو ہم نے بھی تھی پر اس میں کسی بھی سطر میں گاندھی جی اور کابینہ مشن ساتھ ساتھ نہیں ملے تو حضرت نے چیں بچیں ہوتے ہوئے ہماری اصلاح کی غرض سے بتایا کہ نہرو نے بالکل کابینہ مشن کی لٹیا ڈبوئی تھی۔ اچھا تو نہیں لگا پر ان کا مغالطہ دور کرنا بھی ضروری تھا اس لیے انہیں شانتی سے دانت پیستے ہوئے بتا دیا گیا کہ حضرت معصوم الٰہی،عزیز من، یہ جواہر لال نہرو اور موہن داس کرم چند گاندھی یک جان یک قالب نہیں تھے بلکہ دو مختلف لوگ تھے۔
ان اعتراضات کے ہمراہ برادر یاسر لطیف ہمدانی نے انتہائی شائستہ پیرائے میں ایک جوابی کالم لکھ ڈالا۔ ہمدانی صاحب کا کالم ایک عمدہ تجزیہ ہے لیکن اگر وہ برا نہ مانیں تو عرض کیے دیتے ہیں کہ اس میں کچھ خلط مبحث کی کیفیت ہو گئی ہے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں کہ جواب آنا اور جواب دینا عقلمند لوگوں کی نشانیاں ہیں پر اگر پہلے سوال پورا سن لیا جائے تو تو سونے پر سہاگا ہے۔ تو معاملہ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شاید خامی مجھ میں ہی ہو کہ میں اپنا نقطہ نظر ابہام سے پاک نہ کر سکا تو پھر ایک کوشش کیے لیتے ہیں۔ اسے جواب الجواب سمجھ لیجیے یا ایک اور دستک۔ امید ہے کہ اس کے بعد در معنی کے پٹ کھل جائیں گے نہیں تو میدان بھی یہیں ہے اور گھوڑا بھی ابھی تازہ دم ہے۔
میرے دوست کا کہنا ہے کہ گاندھی کو مہاتما اور جناح کو قائداعظم بنانا ان کے ساتھ ظلم ہے۔ میں صد فی صد متفق ہوں حضور۔ شاید اسی وجہ سے میں نے اپنے پورے مضمون میں نہ موہن داس کرم چند گاندھی کو مہاتما کہا نہ محمد علی جناح کو قائداعظم۔ ہمارے یہاں راہنما آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ یہ ہماری آپ کی طرح کے انسان ہوتے ہیں۔ ہزار غلطیاں کرتے ہیں۔ درجنوں غلط فیصلے کرتے ہیں۔ اپنی کچھ غلطیوں سے سیکھتے ہیں کچھ سے نہیں۔ تاریخ ایک بے رحم ناقد ہے۔ وہ ان راہنماو¿ں کے قد کا فیصلہ خود کرتی ہے۔ جب ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کے اچھے کاموں کو ان کی غلطیوں سی نفی کر کے نہیں دیکھا جائے گا۔ ان کی جدوجہد کو ان کی نادانیوں سے تقسیم نہیں کریں گے۔ جو بات درست ہو گی اس کی تحسین اس بنا پر رد نہیں ہوگی کہ کہیں اور ان کی غلطی پر تنقید لازم ہو گی۔ ہاں اگر کبھی پوری شخصیت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے سزاوار کرنا مقصود ہو تو پھر سارے زاویے پرکھ کر تاریخ کا جج کسی کا مجسمہ بنانے کا حکم دے گا تو کسی کو کوڑے دان کی نذر کر دے گا۔
میرا مضمون گاندھی کی سوانح نہیں تھا اور نہ ہی گاندھی اور جناح کا موازنہ تھا۔ یہ ایک مقدمہ تھا اس بارے میں کہ ایک جغرافیائی وحدت جسے ہم پاکستان کہتے ہیں، اس کا اور اس کے باسیوں کا گاندھی کے بارے میں رویہ اور عمومی سمجھ کیا تاریخی حقائق کا درست مظہر ہے یا نہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس بات کو کھینچ تان کر گاندھی کی ساری زندگی پر پھیلا دینا ایک ایسی بحث ہے جو اس مضمون کا موضوع تھی ہی نہیں۔ جناح اور گاندھی کا موازنہ بھی ایک غیر فطری امر سے کم نہیں کیوں کہ یہ موازنہ کسی طور ممکن نہیں۔ ہمدانی صاحب بہتر جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر یا کسی بھی غیر متعصب تاریخی پیمانے پر جناح صاحب کہیں اس صف میں موجود نہیں ہیں جس میں گاندھی، منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسے کھڑے ہیں۔ پر یہ بھی مضمون کا موضوع یا محل نہیں تھا اس لیے اس بحث کو یہاں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔
ہمدانی صاحب گاندھی کی عظمت کے اعتراف میں بتاتے ہیں کہ ان کی وفات پر جناح نے اس کو انسانیت کے لیے المیہ قرار دیا اور پاکستان کا پرچم ان کے سوگ میں سرنگوں رہا۔ میں اس بات سے انکاری ہر گز نہیں ہوں پر سوال یہ نہیں تھا کہ 1948 میں پاکستانی قوم ان کے بارے میں کیا سوچتی تھی۔ سوال یہ تھا کہ ان کی عظمت کے اس اعتراف کو درسی کتب کے زہر سے کیوں مار دیا گیا۔ ظفر علی خان کا شعر اگر 1948 میں غیر متعلق تھا تو بعد میں وہ کیسے ہماری درسی کتب کا جھومر بن گیا۔ ہمدانی صاحب اور میں دونوں 1948 میں پیدا نہیں ہوئے تھے پر کیا وہ اس سے انکار کریں گے کہ ہماری نسل اور ان کی نسل کو گاندھی کا جو پیکر مدارس اور سکولوں میں دکھایا گیا وہ ان کا اصل پیکر نہیں بلکہ ظفر علی خان کی ہجو کی ہو بہو تصویر تھا۔ یقین نہ ہو تو ہماری، آپ کی اور بعد کی نسلوں کے نمائندوں کی وہ مغلظات آپ پڑھ سکتے ہیں جو اس مضمون کے چھپنے پر رائے کے طور پر ارسال کی گئیں۔ رونا اس بات کا ہے کہ وہ قوم جو بقول ہمدانی صاحب گاندھی کی موت کے غم میں 1948 میں برابر کی شریک تھی وہی آج گاندھی کو مکر و فریب کا استعارہ سمجھتی ہے۔ نفرت کا یہ زہر کئی عشروں کی محنت سے ہماری رگوں میں اتارا گیا اور اس سے گاندھی کے قد کو تو کوئی فرق نہیں پڑا مگر ہماری اپنی نسلوں کی جون بدل گئی۔ انسان کم ہوگئے، پھنکارتے افعی گلی گلی ملنے لگے۔ مجھے یہ ایک المیہ لگتا ہے۔ آپ چاہے اسے جو نام دے لیں۔
اس کے بعد گاندھی کے بارے میں ہمدانی صاحب دوسرے زاویے کی تلاش میں نکل گئے۔ گاندھی کی نسل پرستی اور بھارتی اچھوتوں سے دشمنی پر روشنی ڈالی گئی۔ میں اگرچہ ان کے اس تجزیے سے کلی اتفاق کرنے پر معذور ہوں مگر ایک بار پھر یہ گوش گزار کرتا چلوں کہ گاندھی کو ایک ولی یا فرشتہ ثابت کرنا اس مضمون کا مقصد نہیں تھا۔ ہمدانی صاحب یہاں ایک منطقی مغالطے کا شکار رہے۔ میں گاندھی کے اس کردار پر روشنی ڈالنا چاہتا تھا جو فسادات اور ریاست پاکستان کے اثاثوں کے حوالے سے تھا۔ اب کیا یہ ضروری ہے کہ جب تک ان کے جنوبی افریقہ میں گزارے گئے ایام کا پوسٹ مارٹم نہ کر لیا جائے اور امبیڈکر سے اختلافات کو مائیکروسکوپ سے تسلی سے دیکھ نہ لیا جائے، ان کی زندگی کے آخری دو سال پر بات نہیں ہو سکتی۔ چلئے ایک مضمون آپ اس پر تحریر کریں کہ گاندھی نسل پرست تھے اور میں اس کے جواب میں یہ لکھوں کہ اس پر بات تبھی ممکن ہے جب ان کے قتل کی سازش پر بات پہلے کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی اعتراض ٹھہرے گا۔ اصولی طور پرمجھے آپ کی بات سے اختلاف ہو گا تو میں اسی سیاق و سباق میں رہتے ہوئے حوالے پیش کر دوں گا تاکہ یہ بتا سکوں کہ میری نظر میں گاندھی کیوں نسل پرست نہیں تھے یا پھر میں آپ کے تجزیے سے اتفاق کر لوں گا۔ میرے مضمون میں گاندھی کے فسادات اور اثاثوں سے متعلق ان کے کردار پر آپ کوئی معنی خیز اعتراض نہ اٹھائیں اور ایک غیر متعلقہ زاویہ زیر بحث لے آئیں تو یہ خلط مبحث کی ذیل میں نہیں آئے گا تو اور کیا کہلائے گا۔
اس سے آگے ہمدانی صاحب ایک دفعہ پھر تاریخ کی بھول بھلیوں میں کھو گئے اور انہوں نے موازنہ گاندھی و جناح شروع کر دیا۔ مجھے اس میں ان کے استنباط سے کہیں اتفاق ہے اور کہیں اختلاف لیکن یہ بھی موضوع نہیں تھا۔ مثال کے طور پر تحریک خلافت کو میں ایک غلط تحریک سمجھتا ہوں اور گاندھی جی کے اس میں کردار کا بھی ناقد ہوں لیکن اس تحریک کا ڈول گاندھی نے نہیں ، مسلمان راہنماو¿ں نے ڈالا تھا۔ اگر گاندھی اس میں ان کے ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو بھی وہ نشانہ بنتے کہ ان کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھیں اور جب وہ کھڑے ہو گئے اور تحریک ناکام ہو گئی تو ہم پس ادراک انہیں کم فہم کہنے لگ گئے۔ اسی جگہ ہمدانی صاحب نے کہا کہ پنجاب کے مسلمان جناح پر حاوی ہو گئے تو جناح کو مطالبہ پاکستان ماننا پڑا۔ اگر وہ اجازت دیں تو مجھے یہ کہنے دیں کہ ان پر مسلمان نہیں، پنجابی جاگیردار طبقہ حاوی ہوا تھا جو نہرو کے بعد از آزادی لینڈ ریفارم کے منصوبے سے خوفزدہ تھا۔ پاکستان کا قیام جن لوگوں اور جن مفادات کے تحفظ کے لیے عمل میں آیا کیا تاریخ کو ادنی درجے میں سمجھنے والا بھی اس سے اختلاف کر سکتا ہے۔ لیکن ہمدانی صاحب کے اپنے جملے سے کیا جناح صاحب کی اپنی قوت فیصلہ پر سوال کھڑا نہیں ہوتا۔ گاندھی اور جناح طویل عرصے تک متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ جناح اچانک ایک الگ ملک کے حامی کیوں بن بیٹھے، یہ ایک الگ طویل بحث ہے اور مجھے شک ہے کہ اس ضمن میں شاید ہمدانی صاحب اور میرے تجزیے میں کوئی خاص فرق نہیں ہو گا۔
رہی بات ہندو مسلم فسادات کی تو یہ بات درست ہے کہ ان کی تاریخ طویل ہے تاہم جو لاکھوں جانوں کا نذرانہ بالآخر لے کر ٹلی، وہ شدت راست اقدام کے دن جنمی اور اس کے لیے آپ جناح صاحب یا سہروردی کومکمل بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ ہمدانی صاحب نے یہاں ایک بہت عمدہ بات کہی کہ جناح بھی گاندھی کی طرح انسان تھے۔ میں متفق ہوں حضور اوراگر ان کے نزدیک پاکستان بنانا ان کی سب سے بڑی غلطی تھا تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تقسیم کی طرف اٹھنے والے سارے اقدامات میں کہیں ہمیں وہ، کہیں گاندھی اور کہیں نہرو ملزم نظر آئیں گے مگر اب یہ بحث شاید کسی حد تک تضیع اوقات ہے۔ پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ گیا ہے۔ تاریخ کا جبر کہیے کہ لمحوں کی غلطی، لکیریں بہرحال کھینچی گئی ہیں۔ لیکن لکیروں کے دونوں جانب جھوٹ، نفرت اور تعصب کی گرد اڑانے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ ہمدانی صاحب جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے جو اس بات کو سمجھتے ہیں۔ میری کاوش کا مقصد ایک خاص حوالے سے دفن ایک حقیقت کو اجاگر کرنا تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ نفرت کی دیوار ڈھیر نہ ہو پر اس میں کچھ روزن ہی بن جائیں۔ کچھ تازہ ہوا آ جائے۔کچھ دیوار کے پار جھانکنے کا بہانہ بن جائے کہ دیکھ سکیں کہ دیوار کے اس پار بھی کل بھی ایسے ہی انسان تھے اور ہیں، نہ وہ فرشتے ہیں اور نہ ہی شیطان۔ ضرب لگاتے رہے تو راستہ بن ہی جائے گا۔ مل بیٹھ کر سانجھے دکھ اور سانجھی خوشیوں کو بانٹنے کا دن آیا توشاید کبھی برگد کے درخت تلے شام کی چوپال میں گاندھی اور جناح دونوں ایک ہی حقے کے کش لگاتے نظر آجائیں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments