بانو آپا بھی داستان سرائے سے چلی گئیں۔۔۔۔۔۔


\"\"ابھی بہت وقت نہیں گزرا،جب میں 121۔ داستان سرائے کے مرکزی دروازے میں داخل ہوئی تھی۔ یہ وہی داستان سرائے تھی جہاں دو داستان گو،اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کہانیوں کے کردار تخلیق کیا کرتے تھے۔ اُس دن بھی بہت سارے کردار اس سرائے کے کسی نہ کسی کونے میں سانس لیتے محسوس ہو رہے تھے،کیونکہ گڈریا اور ایک محبت سو افسانے کے تخلیق کار کے اس داستان سرائے سے ہجرت کرنے کے بعد اُس کی زندگی کی شریک، اس کی محبت کی نشانی، محبت کو لفظوں میں بیان کرنے والی اور”راجہ گدھ “ اردو ادب کے ماتھے پر سجانے والی،ابھی زندہ تھی۔ اس انٹرویو کے دوران میں نے محسوس کیا تھا کہ بانو آپا ہر لمحہ اشفاق احمدکے بغیر ادھورا محسوس کرتی ہیں اور اس کی گواہی اُن کی آنکھوں میں رہنے والی نمی دے رہی تھی۔ آج وہ بھی داستان سرائے سے چلی گئیں۔۔۔۔۔

میری اور بانو آپا کی یہ گفتگو 2016 کے ابتدائی دنوں میں ہوئی۔

سوال :۔ آج کی بانو آپا بچپن کی بانو قدسیہ کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے؟ دونوں میں کیا فرق ہے اور کون سی باتیں مشترک ہیں؟

بانو قدسیہ :۔ میں وہی بانو قدسیہ ہوں جو بچپن میں تھی۔ یہ ٹھہری ایک مشترک بات (ہلکی سی مسکراہٹ) نہ تو میں بہت زیادہ شرارتی تھی اور نہ ہی بالکل دُبک کر بیٹھی رہنے والی بچی تھی۔ بچپن کے تجربات بہت الگ تھے لیکن اب میں سنجیدہ باتوں کی طرف مائل ہوتی ہوں۔

سوال :۔ وہ لمحہ یاد کیجئے جب پہلی بار اشفاق صاحب کی شخصیت نے آپ کو اپنے حصار میں لے لیا؟

بانو قدسیہ :۔ جب پہلی مرتبہ میں نے انہیں دیکھا تو ہم صادق صاحب کی کلاس میں موجود تھے۔ جب میں کلاس روم میں داخل ہوئی تو ڈاکٹر صادق پڑھا رہے تھے اور اشفاق صاحب کرسی پر آرام سے بیٹھے نوٹس لے رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب دو سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے باقی کلاس بھی کھڑی ہوئی مگر اشفاق احمد اپنی جگہ سے نہیں ہلے وہ بیٹھے رہے۔ مجھے لگا یہ بڑا عجیب آدمی ہے شاید ALIEN ہے جو کسی کو پسند نہیں کرتا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ گڈ ریے کے گمان میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہی پہلی ملاقات تھی۔

سوال :۔ آپ دونوں کا رشتہ کیسے پروان چڑھا؟

بانو قدسیہ :۔ وہ کلاس میں مجھے کتابیں Present کرتے تھے اُن کے پاس کورس کی کتابیں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ وہ جب کبھی دیکھتے کہ میرا ملازم مجھے لینے نہیں آیا تو وہ میرے پیچھے پیچھے آتے اور جب میں بس پر سوار ہو جاتی تو پھر وہ واپس چلے جاتے تھے۔ امتحانات کے بعد جب میں کالج چھوڑ کر گھر آ گئی تو پھر میرا خیال تھا کہ اشفاق صاحب کے ساتھ سلسلہ ٹوٹ گیا لیکن تین روز بعد گھر کا دروازہ کھٹکا، میں نے باہر نکل کر دیکھا تو ہمارے گھر میں ایک جھولا تھا اور اس کے ساتھ سندری کا درخت ہوتا تھا۔ اُس میں سے ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی اشفاق احمد، اشفاق احمد جو آدمی میرا جھولا جھول رہا تھا وہ اشفاق احمد ہی تھا۔ مجھے پہلے غصہ آیا لیکن پتہ نہیں میرا غصہ اچانک ٹھنڈا ہو گیا۔ انہیں چائے پلائی پھر ان کا یہ معمول بن گیا کہ وہ میرے پاس آتے اور ہم دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ کبھی کبھی بہت دیر ہو جاتی تو میر ی والدہ باہر برآمدے میں آجاتیں تھیں اور کہتیں کہ اتنی دیر باہر نہ بیٹھو۔ پھر ان کے جانے کا وقت آتا تو بڑے پژ مردہ ہو کر کہتے میں پھر چکر لگاﺅں گا تم میرا انتظار کرنا۔ حتیٰ کہ اشفاق صاحب نے ایک دن مجھے کہا کہ مجھ سے شادی کرو گی۔ میں ڈر گئی یہ تو بہت مشکل کام ہے۔ پھر میں نے کہا آپ میری ماں سے پوچھ لیجئے اگر وہ مان جائیں تو پھر میں شادی کر سکتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم اشفاق صاحب نے میری والدہ سے کیا بات کی، بہر حال میری والدہ مان گئیں اور اس طرح ہماری شادی طے ہو گئی۔ ہماری شادی کے گواہ ممتاز مفتی تھے۔

سوال :۔ آپ اور اشفاق احمد کا رشتہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے میں ہمیشہ رشک بھری نظروں سے دیکھا جاتا رہا۔ رشتے کو مثالی بنانے میں کس کا زیادہ اہم کردار رہا؟

\"\"بانو قدسیہ :۔ اشفاق صاحب کا کردار ہی زیادہ اہم رہا۔ اگر وہ مجھے پڑھنے لکھنے سے روک دیتے تو میں وہ نہ بن پاتی جو آج ہوں۔ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی کہ میں لکھوں پڑھوں اور جو کہنا چاہتی ہوں ویسا اظہار اپنی تحریروں میں کر سکوں۔ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر وقت باورچی خانے میں نہ گھسی رہا کرو بلکہ اپنے لکھنے پر توجہ دیا کرو۔

سوال :۔ آپ جب گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو ادب میں ایم اے کر رہی تھیں اس وقت اشفاق احمد کے افسانوں کی کتاب گڈریا شائع ہو چکی تھی، آپ کے اندر لکھنے کا رجحان کب پیدا ہوا؟

بانو قدسیہ :۔ اشفاق احمد سے ملنے کے بعد یہ رجحان پیدا ہوا تھا۔ میں لکھنا شروع سے ہی چاہتی تھی لیکن میں لکھتی نہیں تھی۔ پھر اشفاق صاحب نے میری حوصلہ افزائی کی کہ میں لکھا کروں۔ یوں میں نے لکھنا شروع کیا۔

سوال :۔ کیا لکھاری پیدائشی ہوتا ہے اور وہ دنیا میں صرف لکھنے کے لیے آتا ہے یا پھر کسی ہنر کی مانند وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ کر کوئی ادیب بن جاتا ہے ؟

بانو قدسیہ :۔ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ لکھنے کا جوہر پیدائشی طور پر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اور پھر اسے ماحول کیسا ملتا ہے جہاں وہ اپنے جوہر کو چمکاتا ہے۔ جیسے میں لکھنا چاہتی تھی مگر میرے جوہر کو اشفاق احمد نے چمکایا ورنہ میں کچھ نہ ہوتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان کی بڑی مہربانی رہی۔

سوال :۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے فکشن میں کیا فرق ہے ؟

بانو قدسیہ :۔ جو اشفاق صاحب نے لکھ دیا میں ویسا نہیں لکھ سکتی میں ان سے کم تر لکھتی ہوں۔

سوال :۔ آپ بہت بڑی ادیبہ ہیں۔ راجہ گدھ نے آج تک ہر نسل کو متاثر کیا ہے اور کر تا رہے گا۔\"\"

بانو قدسیہ :۔ جی بڑی مہربانی آپ کی۔ عورت باریک بین ہوتی ہے۔ عورت کا کام ہے بخیئے ادھیڑنا، باتیں بنانا۔ چغلیاں کرنا اس کا شیوہ ہے لیکن جہاں تک اصل کام کا تعلق ہے وہ اشفاق صاحب کا ہی ہے۔ ان کے ادب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جزئیات بہت خوبی سے لکھتے تھے۔ وہ ساری جزئیات اس طرح لکھتے ہیں کہ قاری کو پتہ نہیں چلتا اور سب کچھ اس کے تجربے میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ لکھنے کا عجب ڈھنگ ہے۔

سوال :۔ فکشن میں موضوعات کے انتخاب کے کیا محرکات ہوتے ہیں ؟

بانو قدسیہ :۔ اس میں دو تین باتوں کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ لکھنے والے کی جنس کونسی ہے وہ مرد ہے یا عورت۔ موضوعات کی طرف بنیادی رجحان یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ مرد اور عورت اپنے اپنے نقطہ نظر سے سوچتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی کیسے ماحول میں پرورش ہوئی۔ آپ کے والدین کے رویے کیسے تھے پھر آپ کا سکول کون سا تھا اور تیسری بات یہ ہے کہ آپ کو دوست کیسے ملے۔ ادیب کے لکھنے کا رجحان انہیں باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔

سوال :۔ اپنی تحریروں میں سب سے عزیز تخلیق کونسی ہے اور اسے کیوں پسند کرتیں ہیں؟

بانو قدسیہ :۔ مجھے اپنی کتاب مردِ ابریشم بہت پسند ہے۔ یہ کتاب قدرت اللہ شہاب صاحب کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔

سوال :۔ کیا محبت دوری اور جدائی کے سبب ہی زندہ رہ سکتی ہے؟ اگر وہ حاصل ہو جائے تو کیا اپنی موت مرجاتی ہے؟

بانو قدسیہ :۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ جب انسان ایک دوسرے کی کمیوں، کوتاہیوں کو معاف کرتا رہے تو محبت قائم رہتی ہے اور اگر وہ تنقید ہی کرتا رہے تو پھر محبت سراب بن جاتی ہے۔ اپنے ساتھی کو ہر وقت ٹھیک کرتے رہنے سے محبت ٹھیک نہیں رہتی۔

سوال :۔ آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ راجہ گدھ آپ سے لکھوا یا گیا تھا۔ یہ کیا قصہ ہے؟

بانو قدسیہ :۔ ابھی آپ جس لان سے گزر کر آئی ہیں میں ایک دن وہیں بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی کہ میرے کانوں میں ایک آواز آئی کہ ”راجہ گدھ لکھو “۔ میں چونکی پھر وہی آواز آئی تو میں نے کہا مگر کیسے تو مجھے کسی نے بتایا کہ اوپر چھت پر جاﺅ۔ چھت پر ایک کاپی پڑی تھی جس پر صرف راجہ گدھ لکھا تھا یوں میں نے راجہ گدھ لکھنا شروع کر دیا۔ یہ ناول مجھ سے کسی مافوق الفطرت قوت نے لکھوایا۔ میں بارہ سال تک اس ناول کی کیفیت کے زیر اثر رہی۔

سوال :۔ اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ دیوار کے اس پاردیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیا انہوں نے تصوف کی گھاٹیاں پار کر لیں تھیں؟

بانو قدسیہ :۔ ان کے ذاتی تجربات کے بارے میں کیا کہہ سکتی ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ اشفاق احمد جس مقام تک پہنچ چکے تھے عام آدمی وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔

سوال :۔ کیا آپ بھی اشفاق صاحب کے بابا جی سے ملی تھیں؟

بانو قدسیہ :۔ جی بابا جی نور والوں سے ملاقات ہوئی تھی لیکن پھر مجھے قدرت اللہ شہاب نے ان سے ملنے سے منع کر دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ نے کسی کی بیعت نہیں کرنی۔ اس لیئے میں قدرت اللہ شہاب کو ہی اپنا پیر سمجھتی ہوں۔

سوال :۔ آپ کا تصوف سے کتنا تعلق ہے ؟\"\"

بانو قدسیہ :۔ میرا تصوف سے اتنا ہی تعلق ہے جتنی اجازت مجھے اشفاق صاحب نے دی تھی۔ میں نے کوئی چلے نہیں کاٹے، وظیفے نہیں کیئے۔

سوال :۔ آپ کا گھرانہ لبرل سوچ کے حامل افراد پر مشتمل تھا یا پھر مذہبی روایا ت سے جڑا ہوا تھا ؟

بانو قدسیہ :۔ میری والدہ مذہبی روایات سے جڑی ہوئی تھیں جس کی بدولت میری توجہ بھی مذہب کی طر ف ہوئی۔ باقی گھرانہ لبرل ہی تھا جتنا اس زمانے میں کوئی گھرانہ ہو سکتا تھا۔

سوال :۔ آ پ اور اشفاق احمد میں سے کس نے بچوں پر زیادہ اثرات چھوڑے ؟

بانو قدسیہ :۔ میرا خیال ہے ماں کے اثرات ہی بچوں پر ہوتے ہیں۔ وہ بیوی بچوں پر کم توجہ دیتے تھے۔ وہ اتنے سارے شعبوں میں بٹے ہوئے تھے کہ گھر پر کم توجہ دیتے تھے اور میرا ساری عمر ان سے یہی گلہ رہا۔

سوال :۔ آپ کے تین بیٹے ہیں۔ آپ کو سب زیادہ پیارا کون سا بیٹا ہے؟

بانو قدسیہ :۔ سب سے چھوٹا بیٹا اثیر احمد۔ وہ بھی صوفی ہے۔ بڑا جلالی ہے۔ میری وجہ سے اس نے اب تک شادی نہیں کی۔

سوال :۔ آپ دونوں کا ادبی ورثہ آپ کی اولاد میں کیوں منتقل نہیں ہو سکا ؟

بانو قدسیہ :۔ میرے بڑے بیٹے انیق احمد نے کتاب لکھی اور پھر بہت سارے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ درا صل نہ تو وہ کتاب اور ادب سے باغی رہے اور نہ ہی انہوں نے اسے اوڑھنا بچھونا بنایا۔

سوال :۔ کوئی ایسا دن یاد پڑتا ہے جب آپ کی اشفاق احمد سے شدید لڑائی ہوئی ہو؟

بانو قدسیہ :۔ نہیں ایسا کوئی دن مجھے یاد نہیں پڑتا۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ بہت اچھے شوہر تھے۔ میں اپنی ذات کے حوالے سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ نرم مزاج تھے۔ بچوں اور بھائیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے۔

سوال :۔ اگر کبھی ہلکی سی لڑائی ہو جاتی تھی تو منانے میں پہل کون کرتا تھا؟

بانو قدسیہ :۔ جی اشفاق صاحب ہمیشہ منا لیا کرتے تھے۔

سوال :۔ کیا آپ دونوں لکھنے سے پہلے ایک دوسرے سے اپنے آئیڈیاز زیر بحث لاتے تھے؟\"\"

بانو قدسیہ :۔ نہیں ہر گز نہیں۔ ہم اپنا اپنا لکھ دیا کرتے تھے۔ کبھی لکھنے سے پہلے شیئر نہیں کرتے تھے۔

سوال :۔ اشفاق صاحب نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ مجھے بڑی جیلسی ہوتی ہے کہ بانو قدسیہ نے راجہ گدھ لکھا۔ کیا آپ کے اندر بھی اشفاق صاحب کی کسی تحریر کے حوالے سے ایسے جذبات پیدا ہوئے ؟

بانو قدسیہ :۔ (مسکراتے ہوئے) مجھے تو اشفاق صاحب کی ہر تحریر سے جیلسی ہے۔

سوال :۔ انہوں نے آپ کی کسی تحریر کو کتابی شکل میں آنے سے قبل کبھی پڑھا؟

بانو قدسیہ :۔ نہیں۔ کبھی نہیں۔ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی اور کی تحریر کو پڑھیں۔ وہ اکیلے Authorہیں جنہوں نے اتنی فیلڈز میں کام کیا اور ہر فیلڈ میں نام کمایا۔ وہ جہاں جہاں بھی گئے انہوں نے معرکہ مارا۔ میں حیران ہوں وہ تنہا لکھنے والا تھا اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکا۔

سوال :۔ کسی فرد کی باطنی کیفیات کو جاننا مشکل ہوتا ہے۔ بانوآپا آپ کو یہ احساس کس دن ہوا کہ اشفاق احمد تصوف کی طرف مائل ہو رہے ہیں؟

بانو قدسیہ :۔ جس دن وہ بابا نور والوں کے ڈیرے پر جانے لگے۔ اس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ اشفاق صاحب اب تصوف کی منزلوں کے راہی بن چکے ہیں۔ اس کے بعد وہ یہ اکثر کہتے رہتے کہ لوگوں کو کھانا کھلاﺅ، بھوکوں کو کھانا کھلاﺅ پھر اس کے بعد شاذہی کو ئی ایسا آدمی ہو گا جو ہمارے گھر آیا ہو گا اور میں نے اسے کھانا نہ کھلایا ہو۔

سوال :۔ اشفا ق صاحب اپنے آپ کو تصوف کے علم کا جرنلسٹ کہتے تھے، آپ کی نظر میں وہ اس میدان میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟

بانو قدسیہ :۔ میرے خیال میں وہ ادیبوں کو تصوف کی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ واقعی تصوف کے جرنلسٹ بن گئے تھے۔

سوال :۔ اشفاق احمد کا ڈرامہ ”من چلے کا سودا“ کس شخصیت کی عکاسی کرتا ہے؟ اس کی کہانی حقیقی کرداروں سے ماخوذ تھی یا پھر ایک ادیب کے تخیل کی تصویر؟

بانو قدسیہ :۔ اشفا ق صاحب کی ذاتی دوستی قدر ت اللہ شہاب سے تھی۔ ان کی شخصیت کا اثر بھی ہو سکتا ہے پھر وہ بابا نور والوں کے پاس جایا کرتے تھے اس لیے بابا جی کا عکس بھی ہو سکتا ہے۔ واصف علی واصف سے ان کی ملاقاتیں رہتی تھیں۔ ان تمام شخصیات کے یقینا اثرات ہوں گے لیکن وہ اُن کے اندر ہی اندر تھے بظاہر ایسا کچھ نہیں لگتا تھا کہ کسی ایک کی زندگی سے متاثر ہو کر لکھ رہے ہیں۔

سوال :۔ آ پ اشفاق صاحب کے لیے کون سی ڈش اہتمام سے بناتی تھیں ؟

بانو قدسیہ :۔ وہ آلو گوشت شوق سے کھاتے تھے کیونکہ اس میں بہت سے لوگ شریک ہو جاتے تھے۔

سوال :۔ آپ کی کون سی عادت اشفاق احمد کو پسند تھی؟

بانو قدسیہ :۔ انہیں میری بات مان لینے کی عادت بہت پسند تھی۔

سوال :۔ آج لکھنے والے زیادہ ہیں لیکن معیاری لکھنے والے بہت کم۔ جب آپ لکھ رہی تھیں تو کیا آپ کو بھی کبھی محسوس ہوا تھا کہ آپ کے اردگرد اچھا لکھنے والوں کی کمی ہے؟

بانو قدسیہ :۔ اس وقت لکھنے والے کافی لوگ تھے لیکن معیاری لکھنے والے بھی زیادہ ہوتے تھے۔ آج معیاری (ادب) کم لکھا جا رہا ہے۔

سوال :۔ جب اشفاق احمد اٹلی میں تھے تو کئی سال آپ نے ان کا انتظار کیا۔ آپ کو لگتا نہیں آج کے عہد میں برداشت اور انتظار نہ کرسکنے کی وجہ سے رشتے کمزور پڑ رہے ہیں ؟

بانو قدسیہ :۔ یہ آپ کا خیال ہے۔ آج بھی رشتے نبھانے والے موجود ہیں۔ برداشت کرنے والے نبھاتے ہیں اس عہد میں کیا اور اُس عہد میں کیا۔ یہ انسان کی طبع پر منحصر ہے۔

سوال :۔ کیا محبت قربان کی جاسکتی ہے اور اسے قربان کرنے کے بعد انسان کا Survival ممکن ہے؟

بانو قدسیہ :۔ جس سے محبت ہوتی ہے وہ انسان کے دل میں رہتی ہے۔ نہ تو وہ قربان ہوتی ہے اور نہ ہی تج دی جاتی ہے لیکن شاید اس کا اظہار ختم ہو جاتا ہے۔

سوال :۔ اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستانی قوم کو کسی ایسے کندھے کی تلاش ہے جس پر سر رکھ کر وہ رو سکیں۔ آپ کے نزدیک وہ کندھا کس کا ہو سکتا ہے ؟

بانو قدسیہ :۔ اللہ۔ اللہ ہی انسان کو حوصلہ دیتا ہے۔ وہی سہارا دیتا ہے۔ وہی اس کے اندر آگے بڑھنے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔

سوال :۔ آپ نے اشفا ق احمد کے ساتھ زندگی کے کئی موسم دیکھے، کبھی ایسا لگا کہ وہ وقت بہت تیزی سے گزر گیا؟

بانو قدسیہ :۔ مجھے یو ں لگتا ہے وہ ایک پل تھا جو گزر گیا۔ وقت کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔

سوال :۔ رشتے کیوں ناکام ہوتے ہیں؟

بانو قدسیہ :۔ جب ہم خود ناکام ہوتے ہیں تو رشتے ناکام ہوتے ہیں۔ جو خود کسی سے وفا نہیں کر سکتا اسے پھر وفا نہیں ملتی۔ آپ جو دے نہیں سکتے وہ مانگ کیوں رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے رشتے ناکام ہوتے ہیں۔

سوال :۔ آپ کو کون سا ادیب پسند ہے؟

بانو قدسیہ :۔ مفتی صاحب (ممتاز مفتی) کا انسانوں کے بارے میں بہت زیادہ علم تھا۔ بہت اعلیٰ لکھتے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے قدرت اللہ شہاب کی ساری باتیں بہت پسند ہیں۔

سوال :۔ شہاب نامہ کے آخری باب ”چھوٹا منہ بڑی بات “ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

بانو قدسیہ :۔ انہوں نے بالکل درست لکھا ہے لیکن شاید وہ باتیں میرے تجربے سے نہیں گزریں۔ ہر انسان کا تجربہ اور بیان الگ الگ ہوتا ہے اور بیان سے بڑا فرق پڑتا ہے۔

سوال :۔ میڈیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے، معلومات کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے، خواہ وہ سچ ہے یا جھوٹ بہر حال اس معلومات تک ہرایک کی رسائی ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں ایک تخلیق کار کیسے اپنا کردار موثر انداز میں ادا کر سکتا ہے؟

بانو قدسیہ :۔ وہ اس صور ت حال میں توازن بر قرار رکھے۔ چھان پھٹک کرکے اپنے لیئے راستہ نکالے پھر دانے الگ ہو جائیں گے، بیج الگ اور کنکر الگ۔ انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ادیب اب پاپولر ہو گا کیونکہ یہ عہد ہی انٹر نیٹ کا ہے لیکن ذاتی مشاہدے اور تجربے کو بنیاد بنا کر تخلیق کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔

سوال :۔ اشفا ق احمد کے بعد کی زندگی کیسی ہے؟

بانو قدسیہ :۔ اشفاق صاحب کے بعد تنہائی محسوس کرتی ہوں۔ اب کوئی ایسا انسان نہیں جس سے اپنے دل کی بات کہہ سکوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments