تیسری دنیا کی طاقت…


\"Mobeen\"

آصف درانی صاحب سے میرا پہلا اور آخری اختلاف تھرڈ ورلڈ یعنی تیسری دنیا پر ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے جدید دور میں تیسری دنیا کا کوئی وجود نہیں ۔ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ خبر ٹیکنالوجی کی مدد سے بجلی جیسی رفتار کی حامل ہوچکی اور وہ دن گئے جب دیگر ملکوں کی خبریں صرف وہی دیا کرتے تھے جو وہاں سے ہوکر آتے تھے اب انٹرنیٹ نے تمام فاصلے مٹا دیئے ہیں۔

لیکن میرا ان سے بصد احترام اصولی اختلاف تھا کہ تھرڈ ورلڈ اسے کہا ہی اسی لئے جاتا ہے کہ ان میں ترقی یافتہ ممالک والی سوچ، طاقت اور انرجی نہیں ہوتی۔ اور جب ایسا کچھ نہیں ہوتا تو ٹیکنالوجی سے فائدہ کون کافر اٹھائے ؟

ہم نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش بھی کی مگر تیسری دنیا کی طاقت آڑے آگئی !!

ہوا یو ں کہ ڈاکٹر اشرف چوہان ان دنوں پنجاب کے ایم پی اے ہوا کرتے تھے ، ان کی طرف سے سجائی گئی ایک محفل میں جہاں لندن کے سبھی بزنس مین اور کمیونٹی لیڈر موجود تھے اور یہ محفل پاکستان سے آئے ان کے چند سینئر بیوروکریٹ دوستوں کے اعزاز میں تھی یہی ٹاپک چھڑ گیا کہ پاکستان ترقی کیوں نہیں کررہا ؟

اپنی باری آنے پر میں نے حسب معمول خرابی کا سب سے بڑا ذمہ دار بیوروکریٹس کو ٹھہرایا اور مثالیں بھی پیش کیں کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ایک لاکھ سے زائد بیوروکریٹس اس ملک کی ترقی معکوس کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ہر آنے والے وقت میں قوم کو گمراہ کیا ۔ سازشیں کر کے کبھی جمہوریت کو ذلیل کروایا اور کبھی افواج پاکستان کو عوام کی نظروں سے گرانے کی کوشش کی۔

مرکز اور صوبوں کے ملا کر سو سے زائد محکمے تو بنا لئے ۔ بجٹ بھی طے کر لئے ۔ لیکن کارکردگی صفر، سارا سال ٹی اے ڈی اے کی دوڑ میں رہتے ہیں سیکریٹری اپنے ایڈیشنل سیکریٹری کی، ایڈیشنل جوائینٹ سیکریٹری کی وہی جوائینٹ سیکریٹری اپنے ڈپٹی سیکریٹری کی اور ڈپٹی سیکریٹری سیکشن آفیسر کی آڑ لے کر نہ صرف عوام بلکہ حکومتوں کو بے وقوف بنارہے ہیں۔

چالیس چالیس سال ملکی خزانہ تنخواہ کے نام پر بے دردی سے لوٹتے ہیں اور اثرورسوخ استعمال کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد پھر سے تین چار سال کی ایکسٹینشن لینا کسی بھی بڑے بیوروکریٹ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

حکومت کی ڈور کہاں سے ہلانی ہے ان سے زیادہ کسے پتہ، میں نے لندن کی سڑکوں پر سیاستدانوں کو بسوں اور ٹرینوں پر سفر کرتے دیکھا انہی سڑکوں پر پاکستانی بیوروکریٹس کو گردن اکڑائے اپنی بگڑی اولاد کے ساتھ مہنگی سے مہنگی گاڑی میں پھرتے دیکھا….

مجھے آج بھی یاد ہے میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ پانچ چھ بزنس مین نما کمیونٹی لیڈر مجھے بولنے سے روکنے لگے….

لیکن ان میں نہ تو میزبان شامل تھے اور ناہی درانی صاحب !

یہ وہ لوگ تھے جو لندن سے پاکستان جاتے وقت ایئرپورٹ سے لیکر وطن میں قیام، کام اورجم خانے کی محفلوں سمیت تمام امور میں پاکستانی بیوروکریٹس سے پروٹوکول لیتے تھے….
اور….

تمام مہمان بیوروکریٹ مسکرا رہے تھے کہ انکی ڈھال بننے والے صرف وطن عزیز میں ہی نہیں اوورسیز بھی پائے جاتے ہیں !

مبین چوہدری
Latest posts by مبین چوہدری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments