گورے رنگ پہ نہ اتنا گمان کر۔۔۔ !


\"\"’’وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی۔ آسمانوں سے اونچی اڑان بھرنا چاہتی تھی۔ مگر اس کی خواہش میں ایک رکاوٹ تھی بلکہ یوں کہیں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ وہ جہاں جاتی ناکامی اس کی منتظر ہوتی اور یوں اپنی شخصیت سے اس کا اعتماد ختم ہو گیا۔ اسی لئے اس کے ابا بھی جلد سے جلد اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتے تھے مگر پھر اچانک ایک دن اسے کسی نے اس مسئلے کا حل بتایا۔ وہ شکر گزار نظروں سے دیکھتی رہ گئی۔ اور پھر ہوا یوں کہ تقریباً 6 ہفتوں کے مختصر عرصے میں وہ اس قدر \’\’گوری\’\’ ہوگئی کہ سفید فام بھی اس کے آگے مات کھا جائیں۔ بس پھر کیا تھا دنیا جہاں کی نعمتوں کے دروازے اس پر کھل گئے۔ ابا کو بھی شادی کی فکر سے نجات ملی۔‘‘

جی تو یہ تھا ایک ایسی کریم کا اشتہار جو راتوں رات آپ کی رنگت نکھار کر آپ کے تمام خوابوں کو پورا کرے اور یہ واحد اشتہار نہیں جس میں آپ کی اس قدر فکر کی گئی ہے بلکہ دن بھر ’رنگت گورا کرنے والی‘ کریموں کے ایسے ڈھیر سارے اشتہار ٹی وی پر آپ کے مستقبل کی آپ سے زیادہ فکر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور کم و بیش سب میں یہی ایک رٹی رٹائی دکھی کہانی بتائی جاتی ہے۔
گویا سانولی رنگت والے خواتین و حضرات دنیا میں کچھ کرنے کے اہل نہیں ہیں اور اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہیں تو بہتر یہی ہے کہ سب سے پہلے اپنا رنگ گورا کرنے کی فکر پالیں اور اس کے بعد عملی زندگی میں قدم اٹھائیں ورنہ ناکامی ان کا مقدر ہوگی۔ قصور تو ان اشتہاری کمپنیوں کا بھی اتنا نہیں۔ معاشرے کی اس دُکھتی رگ کو وہ بھی جان گئے ہیں۔ جہاں لوگوں میں خوبصورتی کا تصور محض \’گورا رنگ\’ ہے۔ ویسے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو براعظم افریقہ اس خوبصورتی سے محروم اور یورپ مالا مال نظر آئے گا۔

خوبصورتی کا یہ مخصوص تصور معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ ہر ایک اپنے قدرتی رنگ سے دو ہاتھ آگے نکلنے میں مصروف ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں کی اعلیٰ تعلیم بھی انہیں اس احساس کمتری سے دور نہیں رکھ پاتی۔

چند دنوں پہلے ہی ایک پی ایچ ڈی خاتون سے ملاقات ہوئی جو شدید پریشان تھیں کہ ان کی بیٹی ان کی طرح حسین نہیں ہے کیونکہ اس کا رنگ سانولا ہے اور اب بقیہ عمر انہیں لوگوں کے طعنے سننے میں گزارنی ہوگی۔ محترمہ بڑی پابندی سے اپنی بیٹی کو آلو میش کرکے کوئی ماسک بنا کر چہرے پر بھی ملا کرتی ہیں (ہمیں ان آلوؤں پر بڑا ترس آیا)۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ بیٹی کی عمر 6 ماہ ہے۔

ہماری ایک پڑوسن کا خیال ہے کہ ان کا شمار بمع اہل وعیال شدید کالوں میں ہوتا ہے۔ لہٰذا خاندان کی بقا کے لئے ان کا اولین فرض ہے کہ اپنے بھائیوں کی شادی کے لئے \’گوری چٹی\’ بیگمات کا ہی انتخاب کیا جائے تاکہ ان کی نسل کے گورا ہونے کے امکانات واضح ہو سکیں اور انہوں نے ایسا کیا بھی، یہ الگ بات ہے کہ اس خواہش کی تکمیل میں ان کے بھائیوں کی عمریں بہت آگے نکل گئیں۔ یہ واحد گھر نہیں، اکثر ماؤں کو چاند سی بہو کا دودھ سا سفید رنگ درکار ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ شادی کے بعد اسی چاند میں اہھیں گرہن نظر آنے لگتا ہے۔

ویسے کبھی کبھی تو گمان ہونے لگتا ہے کہ باراک اوبامہ، کوفی عنان، ول سمتھ، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، نیلسن منڈیلا، مائیکل جیکسن، مائیکل جورڈن، محمد علی کلے، اوپرا ونفری، سرینا ولیمز جیسے نہ جانے کتنے لوگ خواہ مخواہ ہی ان مقامات تک رسائی حاصل کر گئے۔ دراصل کامیابی کے راستے کو شاید ان کی جلد کی رنگت کا علم نہ ہوگا ورنہ ان کا یہاں تک پہنچنا ممکن نہ تھا۔ بہرحال صد شکر کہ ہم اس حساس معاملے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں میں بھی اس کی حساسیت اور اہمیت اجاگر کرنے میں کسی طور پیچھے نہیں۔

فکر نہ کریں اس معاملے کو تو دنیا کے نقشے پر ابھرے ترقی یافتہ ممالک بھی فی الحال نہیں بھگتا پائے، ہمارا نمبر تو پیچھے ہے۔ ورنہ مشیل اوبامہ کا گریجویشن کا مقالہ سیاہ فاموں کے ساتھ امتیازی سلوک کے موضوع پر نہ ہوتا اور اوبامہ کے صدر بننے پر میگزین کے کور پر First black president in white house نہ سجتا۔

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments