آگے سفرنامہ ہے


 \"\"مانچسٹر میں یہ میرا پہلا ہفتہ تھا۔ برٹش کونسل کی نمائیندہ ٹریسا ہین مَر کا دیا ہوا خط اور بینک ڈرافٹ لے کر میں یونیورسٹی کیفے ٹیریا کے بالمقابل واقع نیٹ ویسٹ بینک کی عمارت میں داخل ہوا اور قطار میں شامل ہو گیا۔ ڈرافٹ 800 پاﺅنڈ کا تھا جس میں خوش آمدید، فوری ضرورت، گرم کپڑوں اور کتابوں کے الاﺅنس شامل تھے۔ اس کے بعد ایک سال تک مجھے چار سو آٹھ پاﺅنڈ ماہانہ ملنا تھے۔ اپنی باری آنے پر میں نے کھڑکی کے پیچھے بیٹھی ہوئی خاتون کو بتایا کہ میں ایک غیر ملکی طالب علم تھا اور اکاﺅنٹ کھولنا چاہتا تھا۔ میرے کاغذات اور پاسپورٹ دیکھ کے اُس نے خوش مزاجی سے کہا: ”کوئی مسئلہ نہیں“، اور دراز سے ایک فارم نکالا۔ میں نے ہاتھ بڑھایا کہ اُس سے یہ فارم لے کے پُر کروں۔ اُس نے کہا کہ میرے لئے یہ کام وہ کرے گی اور کاﺅنٹرسے اُٹھ کے ملحقہ دروازے سے مرکزی عمارت میں آ گئی۔ ہم ایک طرف رکھی ہوئی میز کے گِرد بیٹھ گئے۔

”میرا نام وینڈی ہے۔ آپ سے مل کے خوشی ہوئی،“ اُس نے اپنا تعارف کرایا۔ مجھے یہ نام اس لئے یاد رہ گیا کہ بعد میں اس نام کی دو خواتین سے دوستی ہوئی، جو میری رفقائے کار تھیں اور ان میں سے ایک کے ساتھ قریبی خاندانی مراسم آج بھی قائم ہیں۔ فارم بھرتے ہوئے وینڈی نے میرا درمیانہ نام پوچھا ۔

”سلطان،“ میں نے بتایا۔

”گریٹ،“ اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

”تو یہ ٹیپو سلطان سے واقف ہے،“ میں نے سوچا اور خوش ہو گیا۔ لیکن پھر کئی معمولی سوالات کے بعد بھی جب اُس نے ”گریٹ“ کہا تو میں نے جانا کہ یہ اُس کا تکیہ کلام تھا۔ کاغذی کاروائی مکمل ہونے پہ اُس نے نوید سنائی کہ کام ہو گیا تھا اورمجھے چیک بُک وغیرہ میرے دئیے ہوئے پتے پہ مل جائیں گی۔ پھر اُس نے کہا:

”میں آپ کے لئے اور کیا کر سکتی ہوں؟“

” مجھے پری سنکٹ سینٹر جانا ہے۔ یہ کہاں ہے؟“ میں نے استفسار کیا۔

”بہت نزدیک ہے۔ سڑک کے دوسری طرف۔ یہاں سے دکھائی دے سکتا ہے۔ ٹھہریں، میں دکھاتی ہوں۔“ باہر بارش ہو رہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ مجھے بینک کے دروازے ہی سے راستہ سمجھا دے گی، میں نے چھتری کھولی۔ لیکن وہ باہر آ گئی ۔ میں نے اخلاقاً چھتری کی پناہ پیش کی جو اُس نے بخوشی قبول کر لی۔ فٹ پاتھ پہ آ کے اُس نے بازو سے اشارہ کرتے ہوئے نشاندہی کی:

”وہ ۔۔۔ ریمپ دیکھ رہے ہیں آپ؟ بس جہاں یہ ختم ہوتا ہے، پری سنکٹ سینٹر شروع ہو جاتا ہے۔“

میرا شکریہ وصول کر کے وہ اپنی ڈیوٹی پہ واپس چلی گئی ۔

ہم اتنے گمنام ہوتے نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں کہ ہیں۔ آپ معمول کی معقول زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، کوئی نوٹِس نہیں لیتا لیکن جہاں آپ سے ذرا سی بھی ’غیر معمولی‘ حرکت ہوئی،آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ آپ کو تو سارا شہر جانتا ہے۔ مذکورہ واقعے کے کچھ عرصہ بعد، اپنے جیسے ایک پاکستانی اوورسیز پختہ (mature) طالب علم سے ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔ فی ا لوقت ہم اُسے ایک فرضی نام، نذیر، دے دیتے ہیں۔ بے تکلفی بڑھی تو ایک دن نذیرنے کہا:

”سناﺅ وہ چھتری والی خاتون کا کیا حال ہے؟“

”کون چھتری والی؟“ میں نے تعجب سے پوچھا۔

”جناب اب اتنے بھی انجان نہ بنیں۔“

”بھئی کچھ اتا پتا بتاﺅ تو پتا چلے۔“

”وہ ۔ ۔ ۔ کیفے ٹیریا کے سامنے، بینک کے قریب۔ ۔۔ یاد آیا؟“

”اوہ۔“ بینک کے ذکر پہ مجھے واقعی یاد آ گیا۔ ” وہ تو بینک کی اہل کار تھی جس نے میرا اکاﺅنٹ کھولا تھا اور مجھے پری سنکٹ سینٹر کا راستہ بتانے باہر آئی تھی۔“

”وہ اپنی ڈیوٹی چھوڑ کے باہر کیسے آ سکتی تھی؟“

”وہ اپنی ڈیوٹی ہی دے رہی تھی۔ دیکھو، اس نوع کی پبلک خدمت انجام دینے والے، ایک جگہ بیٹھے بیٹھے، نیکسٹ پلیز (next please) ، نیکسٹ پلیزکہتے کہتے عاجز آ جاتے ہیں۔ میں نے اکاﺅنٹ کھولنے کا کہا تو وہ اپنی نشست سے اُٹھ کے مرکزی عمارت میں آ گئی۔ میں نے سینٹر کا راستہ پوچھا تو سمجھانے کی بجائے دکھانے آگئی۔ ایک اکاﺅنٹ ہولڈر کی مدد کرنے کے بہانے اُسے تازہ ہوا کھانے کا موقع مل گیا۔“

”بارش میں، “ اُس نے لقمہ دیا۔

”تمہیں اب تک یہ تو پتا چل چکا ہو گا کہ مانچسٹر میں تازہ ہوا بالعموم بارش کے ساتھ ہی ملتی ہے۔“ میں نے یہاں کے موسم کے خلاف بھڑاس نکالی۔

”لیکن اُس کا انداز بڑا بے تکلفانہ تھا۔ اور ایک درمیانے سائز کی چھتری کے نیچے دو افراد ہوں تو ان کے درمیان زیادہ سے زیادہ کتنا فاصلہ ہو سکتا ہے؟ مجھے تو یہ بڑا رومینٹک سین لگا۔“ نذیر نے منظر کشی کی جس میں مجھے تھوڑی سی کِردار کُشی بھی نظر آئی۔

”ٹھہرو، تم تو مجھے اُس وقت جانتے ہی نہ تھے، یہ سب کچھ تمہیں کس نے بتایا؟ “ میں نے سوال کیا۔

”ہاں، میں تمہیں اُس وقت نہیں جانتا تھا۔ لیکن تمہاری اور اُس خاتون کی شکلیں یاد رہ گئیں۔ جب تم سے تعارف ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ تو وہی چھتری والے موصوف ہیں،“ اُس نے وضاحت کی۔

”تم کیفے ٹیریا کے اندر بیٹھے تھے نا؟“ میں نے پوچھا۔

”ہاں، تمہیں کیسے معلوم ہوا؟“ اُس نے قدرے حیرت کا اظہار کیا۔

”بارش اور برف باری کا منظرگرم کمرے کی کھڑکی سے ہی اچھا لگتا ہے۔“

”تو اُس کے بعد اُس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی؟“

”نہیں۔“

”غور کرو۔ دوبارہ بینک ہی میں، کیفے ٹیریا میں، بس میں، کہیں تو؟“

”نہیں بھئی ایسا کچھ نہیں ہوا۔“

”ہوا نہیں تو ہو تو سکتا تھا۔ ذراسوچو۔ ایک سفر نامے کا کیسا شاندار آغاز ہو سکتا ہے یہ۔“

”مجھے سفر نامہ لکھنے کا خیال نہیں آیا کبھی۔ برطانیہ میں لاکھوں پاکستانی اورہندوستانی رہتے ہیں۔ ان کے لئے اور ان کے جاننے والے ہم وطنوں کے لئے یہاں کی زندگی کا کونسا پہلو نیا ہو گا۔ ان کے لئے کہانیاں نہیں بنائی جا سکتیں۔“

”بنائی جا سکتی ہیں، جیسے فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ بس تم ایک ڈائری رکھو اور ملاقات میں آنے والی خواتین پہ نظر ۔تمہاری کلاس میں مختلف ملکوں اور قوموں کی خواتین ہیں ۔۔۔“

”مرد بھی ہیں،“ میں نے اضافہ کیا۔

 میرے الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے اُس نے بات جاری رکھی: ”بس، ٹرین ،تھیٹر یا لائبریری میں، اگر تمہارے ساتھ کوئی مرد بیٹھا ہو تو اُس کی جنس تبدیل کر دو، خاتون بیٹھی ہو تو اُس کی عمر میں تخفیف اور حُسن میں اضافہ کرو۔ پھر اُس سے گفتگو کا آغاز کرو، نہیں، اُس سے گفتگو کا آغاز کراﺅ ۔۔۔ “

”یار نذیر ، تم تو بڑے تجربہ کار قاری ہو بھئی۔ تم لکھنا کیوں نہیں شروع کر دیتے؟“

”کوشش کی، کئی بار، لیکن اِس میں جو محنت پڑتی ہے وہ اپنے سے نہیں ہو تی۔“

”ہاں، یہ کام محنت طلب تو ہے۔ ویسے اب اگرکبھی مجھے کسی یورپی خاتون کے ساتھ دیکھنے کے بعد کسی نے پوچھا کہ آگے کیا ہوا تو میں بڑا اچھا جواب دے سکتا ہوں، “ میں نے کہا۔

”کیا؟“

”آگے سفر نامہ ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments