لارڈ میکالے: کچھ مزید خیالات


\"\"میکالے کی تعلیمی سفارشات پر بحث کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس پس منظر کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیا جائے جس میں اس پالیسی کا ظہور ہوا تھا۔ 1615 میں سر ٹامس رو برطانوی بادشاہ جیمز اول اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مشترکہ سفیر کی حیثیت سے برطانوی بادشاہ کا مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے نام مراسلہ لے کر ہندوستان وارد ہوا۔ وہ خود فارسی سے نابلد تھا اور اسے ایک مترجم کی تلاش تھی۔ تاہم ایسا مترجم ندارد تھا جو انگریزی سے فارسی میں ترجمہ کر سکے۔ اس کے علاوہ اسے ایک اور دقت کا سامنا تھا۔ خط میں برطانوی بادشاہ کا نام مغل شہنشاہ سے پہلے آتا تھا اس لیے اس کو خدشہ تھا کہ مترجم خط کا ترجمہ کرتے ہوئے مغل شہنشاہ کی خوشنودی کی خاطر اس ترتیب کو الٹ دے گا جو ٹامس مور کو قبول نہیں تھا۔ بڑی کد و کاوش کے بعد اسے ایک ایسا اطالوی ملا جو اگرچہ فارسی سے نابلد تھا مگر ترکی زبان جانتا تھا۔ ٹامس رو اس اطالوی سے ہسپانوی زبان میں بات کرتا تھا اور وہ اطالوی اس کا ترکی زبان میں ترجمہ کرتا تھا۔ سترھویں صدی کے نصف سے اٹھارویں صدی کے نصف تک کمپنی کے اہل کاروں کی تعداد دو ڈھائی سو تک محدود تھی۔ جب کمپنی نے 1765 میں مغل بادشاہ شاہ عالم سے پروانہ حاصل کیا جس میں اسے بنگال، بہار اور اوڑیسہ کی دیوانی کا اختیار تفویض کیا گیا تھا تو کمپنی کا کردار تبدیل ہونے لگا اور رفتہ رفتہ وہ ایک حکمران طبقے میں تبدیل ہو گئی۔

 دیوانی کا اختیار ملنے سے پہلے کمپنی کے ملازمین تجارتی کوٹھیوں میں قیام کرتے تھے اور عام ہندوستانیوں سے ان کا ربط ضبط نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔ اس وقت ان کی تمام تر سرگرمیوں کا مدار مغل دربار سے محصول میں مراعات کے لیے کسی نہ کسی فرمان کا حصول ہوتا تھا مگر اب حکمران کی حیثیت سے انہیں عام لوگوں کے معاملات سے بھی نمٹنا ہوتا تھا؛ لہٰذا کمپنی کے اہل کاروں کی تعداد کو بڑھانا ناگزیر تھا۔ مغل دربار سے معاملات کرتے ہوئے انہیں درباری زبان ہونے کے ناتے فارسی کی اہمیت کا احساس ہو چکا تھا۔ چنانچہ 1765ء میں وارن ہیسٹنگز نے آکسفرڈ یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر کی اسامی پیدا کرنے کی پرزور سفارش مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں 1780 میں اسی یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر کی مسند قائم کر دی گئی۔\"\"

 جب بنگال، بہار اور اڑیسہمیں کمپنی کی حکومت قائم ہو گئی تو ابتدا میں وارن ہیسٹنگز کا منصوبہ یہ تھا کہ ہندوستان پر ہندوستانی اصولوں بالخصوص قانون کے تحت حکمرانی کی جائے، یعنی ہندوؤں کے معاملات ان کے شاستروں کے مطابق نمٹائے جائیں اور مسلمانوں کے معاملات کا شریعت بلکہ فقہ حنفی کے مطابق تصفیہ کیا جائے۔ مگر انہیں بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ ہندو گیانیوں، پنڈتوں اور مسلمان مولویوں کی پیشہ ورانہ دیانت پر مکمل طور پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ بڑھتی ہوئی انتظامی اور حکومتی سرگرمیوں کے نتیجے میں یہ احساس بھی پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا کہ مقامی لوگوں پر ترجمان کی حیثیت سے انحصار کرنا خطرات سے خالی نہ تھا۔

 سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد کمپنی کے خیالات میں بنیادی تبدیلی واقع ہوئی اور اس نے مغل بادشاہ کے کارندے کے بجائے اپنی مستقل حکومت قائم کرنے کی سعی شروع کر دی۔ لارڈ ویلزلی نے 1800 ءمیں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا جہاں کمپنی کے افسروں کو یورپی تعلیم کے ساتھ مقامی زبانوں کی تعلیم دینا مقصود تھا۔ مقامی زبانوں کی تعلیم کے لیے اس میں سنسکرت، بنگالی، عربی، فارسی اور ہندوستانی کی تعلیم کے شعبے قائم کیے گئے۔ اس کالج نے انگریز افسروں کی تعلیم کی خاطر جو 88 کتابیں شائع کیں ان پر اٹھنے والے اخراجات کی ہندوستانی روپے میں کچھ تفصیل یہ ہے: فارسی کتب ( 110,000)، عربی کتب(52,000 ) سنسکرت (44,000 )\"\"

  فورٹ ولیم کالج کا تجربہ اس لیے کامیاب نہ ہو سکا کہ لارڈ ویلزلی نے اسے کمپنی کے کورٹ آف ڈائرکٹرز کی اجازت کے بغیر شروع کیا تھا، دوسرے بورڈ کو کتابوں کی اشاعت پر اٹھنے والے بھاری اخراجات پر اعتراض تھا۔ بورڈ کا یہ بھی خیال تھا کہ جو کتابیں شائع کی گئی ہیں وہ برطانوی افسران کی تعلیم کے لحاظ سے بالکل ناکارہ اور ردی ہیں۔

اس موقع پر دو گروہ سامنے آئے جنہیں مستشرقین اور انگریزی پسند کا نام دیا گیا۔ مستشرقین کا موقف تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے روایتی نظام ہائے تعلیم کو برقرار رکھا جائے۔ چنانچہ دہلی میں عربک کالج اور کلکتہ اور بنارس میں سنسکرت کالج قائم کیے گئے۔ دوسرا گروہ، جسے انگریزی پسند کا نام دیا گیا،اس رائے کا موید تھا کہ ہندوستان میں برطانوی طرز کا جدید نظام تعلیم متعارف کروایا جائے اور انہیں انگریزی زبان کے ساتھ جدید علوم کی تعلیم دی جائے۔

1832 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے امور پر غور کرنے کے لیے برطانوی دار العوام کی پارلیمانی کمیٹی میں ہندستان میں تعلیم اور ذریعہ تعلیم کے مسئلے پر جو بحث ہوئی،اس میں یہ نکات نکھر کر سامنے آئے:

1۔ ہندوستان کے باسی انگریزی زبان سیکھنے اور یورپی تعلیم حاصل کرنے کے بہت مشتاق ہیں۔

2۔ انگریز اس مستعدی کے ساتھ مقامی زبانیں نہیں سیکھ سکتے جس سرعت کے ساتھ مقامی باشندے انگریزی زبان سیکھنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔\"\"

3۔ برطانوی باشندوں کو ہندوستان میں بہت بھاری تنخواہیں ادا کرنا پڑتی ہیں جب کہ مقامی لوگ بہت کم تنخواہ پر کام کرنے پر آمادہ ہیں۔

4۔ ایک مستحکم حکومت قائم کے لیے لازم تھا کہ مقامی لوگوں کو محض ادنی درجے کی ملازمتیں دینے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان کا اعتماد اور تعاون حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ان کو اعلی درجہ کے مناصب پر بھی فائز کیا جائے۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس بحث میں انگریزی پسند طبقے کو برتری حاصل رہی۔ یہ بحث میکالے کی ہندوستان آمد سے قبل ہوئی تھی اور میکالے بھی انگریزی پسند طبقے کا حامی تھا۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں میکالے نے اپنی تعلیمی سفارشات پیش کیں۔

 گزشتہ قسط میں میکالے کی سفارشات پر رش بروک ولیمز کے اس اعتراض کا تذکرہ ہو ا تھا کہ” انگریزی دور میں ان قومی مدارس کی حوصلہ افزائی نہ ہوئی، مکاتب اور پاٹھ شالے بند ہو گئے اور ہندوستان جہالت کی تاریکیوں میں ڈوب گیا“۔

کیا یہ کہنا تاریخی طور پر درست ہو گا کہ میکالے کی سفارشات پر عمل درآمد سے پہلے ہندوستان علم کے نور سے جگمگا رہا تھا؟ اور اگر ہندوستان واقعتا علم کے نور سے منور تھا تو چند سو انگریز دس کروڑ سے زاید آبادی والے ملک پر کس طرح قابض ہو گئے۔ اس موقع پر درسی کتابوں کا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ ”انگریز تاجروں کے روپ میں ہندوستان آئے اور سازشوں کے ذریعے ملک پر قابض ہو گئے“۔ اس جملے کے مصنفین کو شاید اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کہیں زیادہ بے عزتی کی بات ہے کہ باقاعدہ فوجوں کے بجائے ایک تجارتی کمپنی کسی دوسرے ملک پر قبضہ کر لے۔

 البتہ ان مستشرقین کے فہم و فراست پر ضرور حیرت ہوتی ہے جو انیسویں صدی میں ہندوؤں کو سنسکرت زبان کی تعلیم دینا چاہتے تھے۔ سنسکرت تو صدیوں سے ایک مردہ زبان تھی۔ سنسکرت زبان کی اکیڈیمک ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ہندو دھرم اور فلسفے کی تحصیل کے لیے اس کا علم حاصل کرنا ناگزیر ہے، مگر جدید دور کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی افادیت مشکوک تھی۔ اسی بنا پر راجہ رام موہن رائے نے کلکتہ میں سنسکرت کالج کے قیام کی مخالفت کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ہندوستان کے نصابات تعلیم میں جدید علوم مثلاً ریاضی، کیمسٹری، اناٹومی وغیرہ کو شامل کیا جائے۔

\"\" رہ گیا مسلمانوں کا نظام تعلیم تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سات صدیوں سے زاید جاری اس نظام تعلیم نے کار سرکار چلانے والے منشی پیدا کرنے کے علاوہ کیا کارہائے نمایاں انجام دیے تھے؟ علمی ترقی میں کیا کردار ادا کیا تھا؟ مذہبی تصانیف کے میدان میں بھی ہندوستان میں کتنی ایسی کتب لکھی گئیں جنہیں باقی اسلامی دنیا میں شرف قبولیت حاصل ہوا ہو؟ اگر ہم طب کے میدان میں کوئی کارنامہ سرانجام دینے والے ہوتے تو شاہجہاں کو اپنی بیٹی کے علاج کے لیے انگریز ڈاکٹر سے رجوع نہ کرنا پڑتا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ نویں صدی سے پندرھویں صدی عیسوی کے نصف تک مسلمان علمی میدان میں یورپ سے آگے تھے لیکن اس ترقی میں ہندوستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہماری علمی پس ماندگی کا یہ عالم تھا کہ انیسویں صدی کے آخری برسوں میں بھی ہندوستان میں ”دور آخر کا عظیم ہیئت دان“ رسالہ در ابطال حرکت زمین لکھنے میں مصروف تھا۔ سات صدیوں سے زاید عرصہ پر محیط دورانیے میں دو چار ناموں کا شمار بہرحال مثتثنیات میں ہی ہو گا۔

 یہ درست ہے کہ انگریزوں کی آمد کے وقت ہندوستان ایک متمدن ملک تھا اور اس کی حالت افریقا والی نہ تھی۔ ہندوستان میں شہنشاہ بابر کا ورود 1525 ء میں ہوا تھا اور اورنگ زیب کی وفات ( 1707) تک مغلوں کے عروج کا زمانہ ہے۔ اورنگ زیب کے عہد میں مغل فوجی طاقت کا یہ عالم تھا کہ جب بنگال میں انگریزوں نے کچھ سرکشی دکھانے کی کوشش کی تو بنگال کے گورنر میر جملہ نے مرکز کی مدد کے بغیر ہی اس کی سرکوبی کر کے شہنشاہ معظم کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔ لیکن اس دور میں ہونے والی کسی بڑی علمی پیش رفت سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہندو ہوں یا مسلمان، دونوں کے ہاں تخلیقی فکر کے سوتے مدتوں سے خشک ہو چکے تھے اور بس پرکھوں کی کمائی پر گزارا ہو رہا تھا۔\"\"

 اس کے برعکس یہی وہ زمانہ تھا جب یورپ میں چھاپہ خانے کی ا یجاد نے ایک تعلیمی اور معاشرتی انقلاب برپا کر دیا تھا۔ سائنسی انقلاب کے نتیجے میں علم کی افزائش کی رفتار بہت تیز ہو گئی تھی۔ نت نئی ایجادات سامنے آ رہی تھیں، سائنسی تحقیق کے ادارے قائم ہو رہے تھے۔ چنانچہ یورپ میں ایک تیز رفتار ترقی کا عمل شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پس ماندہ یورپ باقی دنیا بالخصوص مسلم اور چینی تہذیبوں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ ان تہذیبوں کے ساتھ وہ معاملہ ہوا کہ

 یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد۔

 اس صورت حال میں مستشرقین کا قدیمی نظام تعلیم کو جاری رکھنے پر اصرار ہندوستان کو دور جدید میں داخل ہونے سے روکنے کی سعی ناروا کے سوا کچھ اور نہ تھا۔

 جہاں تک ہندوؤں کا تعلق ہے انہیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ سیاسی آقا تبدیل ہو چکے ہیں۔ وہ مغل دربار کی ملازمت کی خاطر فارسی زبان سیکھا کرتے تھے، اب وہ نئے آقاؤں کی زبان سیکھنے کے شائق تھے۔ مگر مشتشرقین انہیں سنسکرت پڑھانے پر مصر تھے۔ میکالے نے اپنی یادداشت میں سنسکرت کالج کے طلبہ کی ایک عرضداشت کا ذکر کیا ہے:

”گزشتہ سال سنسکرت کالج کے کئی سابق طلبہ نے کمیٹی کو ایک درخواست دی۔ اس میں بیان کیا گیا کہ انہوں نے کالج میں دس بارہ سال تعلیم حاصل کی۔۔۔ انہوں نے اسناد تکمیل بھی حاصل کیں۔ لیکن اس دماغ سوزی کا ثمر کیا ملا؟ان تمام اسناد فضیلت کے باوجود۔۔۔ انہیں ابنائے وطن نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔۔۔ اندریں حالات وہ مستدعی ہیں کہ کمیٹی ازراہ عنایت۔۔۔ حکومت کے زیر سایہ مناصب پر ان کی تقرریوں کی منظوری عطا کرے۔ انہوں نے مزید درخواست کی کہ بے شک یہ مناصب اعلیٰ سطح کے یا اونچی تنخواہ کے نہ ہوں لیکن ایسے ضرور ہوں جو ان کے لیے قوت لا یموت کا توشہ بہم پہنچا سکیں۔ ”ہمیں ایک شائستہ زندگی کے لیے وسائل درکار ہیں تاکہ ہم اصلاح و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں“۔\"\"

مسلمانوں کی روایتی تعلیم کا احوال ذرا عبدالمجید سالک کی زبانی سن لیجیے، اگرچہ یہ بہت بعد کی بات ہے، مگر اس ناگفتہ بہصورت حال کی عمدہ عکاسی کرتی ہے۔ تاجور نجیب آبادی کے خاکے میں لکھتے ہیں: ”نجیب آباد کے مولوی احسان للہ خان تاجور نے نو سال دیوبند کے دارالعلوم میں بسر کرکے علوم دینی میں فراغت تحصیل کی سند حاصل کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا علم و فضل حصول معاش میں معاون نہ ہو گا۔ کسی مسجد میں پیش امام بننا، ختم درود پڑھنا اور جنازے کی نمازیں پڑھانا نہ مولوی تاجور کے ذوق کو گوارا تھا نہ اس سے قوت لا یموت بآسانی میسر آ سکتی تھی۔ (یاران کہن، ص201)

 ہندوستان نے اگر جدید دور میں شامل ہونا تھا توجدید ریاستی اداروں کا قیام بھی ناگزیر تھا۔ اگر وارن ہیسٹنگز کے خیالات پر عمل جاری رہتا تو ہندو اور مسلمان دونوں پنڈتوں اور مولویوں کے چنگل میں گرفتار رہتے اور ہندوستان کبھی جدید دور میں داخل نہ ہو سکتا۔ بعینہ اس کے لیے جدید تعلیم لازم تھی۔ مستشرقین فارسی اور سنسکرت ادب کی حوصلہ افزائی ان کی محبت میں نہیں بلکہ وہ اہل ہند کو جدید علوم سے محروم رکھنا چاہتے تھے۔ اگر برنارڈ کوہن اور ایڈورد سعید کے مطالعات پر غور کیا جائے تو ان کے نزدیک یہ لوگ استعمار کے اعضا و جوارح کے طور پر کام کرتے تھے۔ دوسرے انہیں خدشہ تھا کہ اگر ہندوستانیوں کو جدید تعلیم دی گئی تو وہ بہت جلد دوسرے حقوق اور حکومت میں حصہ بھی طلب کرنا شروع کر دیں گے۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ ان کا یہ خدشہ بالکل بے بنیاد نہ تھا کیونکہ یہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہی تھا جس نے بہت جلد حقوق و مراعات کا اور آگے چل کر حق خود اختیاری اور پھر مکمل آزادی کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے حصول میں کامیاب بھی رہے تھے۔

علامہ شبیر بخاری صاحب نے شاید کسی قدر بھولپن کے ساتھ  1976 کی مشہور تصنیف برٹش امپیریل سنچری کے\"\" مصنف کا یہ قول بھی میکالے کی مذمت میں نقل کر دیا ہے: ”میکالے کی پالیسی قطعاً بے مروت تھی۔ اس نے ہندوستان میں محض شورش پیدا کرنے والا غیر مطمئن طبقہ پیدا کر دیا اور یہ لارڈ سالسبری کی تنقید کی صدائے بازگشت ہے کہ ”ہندوستان کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ تو بس یہی کچھ کر سکا کہ امن کے دنوں میں احتجاج کرتا رہے اور جنگ کے دنوں میں اس سے بغاوت کا خطرہ رہے “۔

اقبال کی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کا بہ زبان ابلیس آخری شعر ایسا لگتا ہے کہ مستشرقین کے خیالات و افکار کی ہی ترجمانی کر رہا ہے :

 مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments