احساس جمال …. آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں


\"\"پچھلے دنوں ایک پروفیسر اور اردو کی افسانہ نگار نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک احساس جمال کیا شے ہے۔حالانکہ میں نے اس وقت برہمی سے اس سوال کا جواب دیا کیونکہ شاید جس فضا میں انہوں نے یہ سوال کیا تھا ، وہ پہلے سے خاصی گرم تھی۔مگر بعد میں اس بات پر میں نے غور بھی کیا کہ واقعی، پوری سنجیدگی سے کوئی شخص پوچھ بیٹھے کہ تصنیف حیدر! تمہارا احساس جمال ہے کیا چیز؟ کیا محض بدن کی خوبصورتی، خوبصورتی ہے؟ تمہاری وال پر خوبصورت پرندوں، چرندوں، درختوں کی تصویریں تو موجود نہیں ہوتیں، تو کیا ان کے بدن اس لائق نہیں کہ تم انہیں دیکھو یا تمہارا احساس جمال کچھ اس قسم کا محدود دائرہ ہے، جس میں سوائے عورت کے اور کوئی دوسری شے اپنے پورے بدن کے ساتھ موجود نہ ہو۔آسمان و زمین، نقش و نگار، بیل بوٹے، عمارتیں، کتابیں الغرض بہت سی ایسی قدرتی اور مصنوعی چیزیں ہیں، جن کی خوبصورتی کو تمہارے احساس جمال کے گراموفون پر کلاسیکی طرز کی موسیقی کے ریکارڈ کی طرح بٹھادیا جائے۔سوال یہ ہے کہ صرف عورت ہی کیوں اور اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ بھی برہنہ کیوں؟
اگر ایسا ہے تو مجھے یہ سوچنے میں اور ماننے میں پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ میرا احساس جمال بہت سمٹا سمٹایا ہے اوربرف کی کسی چھوٹی سی اینٹ کی طرح سکڑ کر رہ گیا ہے، جبکہ اسے پانی کی طرح فراواں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ اب تک ماضی کی تمام دنیائوں میں یہی اس کی پہچان رہی ہے۔احساس جمال تو ایک تغیر پذیر شے ہے، جو زندگی کی طرح کبھی جمتی اور کبھی پگھلتی رہتی ہے۔جن صاحبہ نے مجھ سے یہ سوال کیا، میں انہیں کیسے بتاتا کہ لفظوں کی وہ دیسی اور بدیسی شراب جس کو میں اپنے حافظے اور بیان دونوں کی صراحی میں اتارنا چاہتا ہوں یا اتارتا ہوں۔ پھلوں کی قاشوں کی طرح میری زبان پر گھلتے ہیں، ان کا رس داڑھوں اور بانچھوں کی اوپری اور اندرونی پرتوں میں جذب ہوتا ہے، تالو سے زبان مس ہوکر اس پانی کو اپنی مٹھی میں لینے کی کوشش کرتی ہے، مگر یہ شغل کچھ روز جاری رہتا ہے، اور کبھی کبھار شاید دو دن سے بھی کم۔ اس کے بعد ایک نئی شراب اور کچھ نئی قاشیں اس کی جگہ لے لیتی ہیں۔تب میں ان لفظوں کو جنہیں بھول چکا ہوں یا تو یاد بھی نہیں کرتایا پھر اتنی کراہت سےدیکھتا ہوں کہ جیسے وہ دبی کچلی اور بے رس قاشوں کی لاشیں ہوں، جن کو انگلیوں سے چھوتے ہی بھی میرا جی متلاتا ہے۔تو کہنا یہ ہے کہ جب لفظ ، جو کہ احساس جمال کی اس وضاحت کا سب سے بڑا آلہ ہے، \"\"اس کی حالت اس تغیر پسند عمل میں اتنی بے جان اور ایسی بے روح ہوسکتی ہے تو پھر دوسرےمعاملات کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔احساس جمال دراصل زندگی کا دوسرا نام ہے، یا پھر بہت آسان لفظوں میں اسے ہر پل بدلتی اور آگے بڑھتی ہوئی، تجربہ کرتی ہوئی، نت نئے رنگوں سے الجھتی ہوئی جیون دھارا کی طرح دیکھنا چاہیے۔ویسے تو مرا ہوا شخص بھی کسی کسی کے احساس جمال کی نمائندگی کرتا ہے، مگر مرے ہوئے شخص کا دماغ اس لذت سے خالی ہوتا ہے۔اب ایسی کوئی بات جو مستقل ہے ہی نہیں، اس کی لاکھ تعریفیں تراش لی جائیں، اس کے بارے میں ہزاروں باتیں بنائی جائیں کہ صاحب انسان کی سائیکی اور اس کے ماحول اور اس کی پرورش یا فلانا ڈھمکاں کا انسان کے احساس جمال سے بڑا تعلق ہے، میں ان سب باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔عصمت چغتائی نے ٹیڑھی لکیر کے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ نفسیات کا علم بتاتا ہے کہ ایک پارسا جنسی مریض ہوسکتا ہے اور ایک آوارہ بدچلن انسان صحت مند ہوسکتا ہے۔احساس جمال تو میرے خیال میں مزید الجھی ہوئی چیز ہے، یہاں گنجائشوں کی ایک بہت بڑی دنیا ہے اور اس دنیا میں آباد ہے، ایک ہی پہلو سے ایک ہی چیز کے پسند آنے یا نہ آنے کا وہ امکان، جس کو بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔
خوبصورت کیا چیز ہے اور کیا چیز نہیں ہے۔اس پر غور کیجیے تو یہ جملہ بہت عمومی ہے مگر میرے خیال میں اس کا تعلق ہمارے سمجھنے ، سمجھ لینے یا کسی چیز کو سمجھنے کے شوق سے ہے۔کچھ موضوعات ایسے ہیں، جن پر سوچیے تو ان کی چیزیں سمجھ میں آنے لگیں تو دلچسپ لگتی ہیں، پسند آتی ہیں، مبہم اور مہیب سائے اچھے لگنے لگتے ہیں، پرتیں کھلنے لگتی ہیں، پکسلز سمٹنے لگتی ہیں مگر کچھ ایسے سبجیکٹ بھی ہیں ، جن کے نا سمجھ میں آنے پر ان کی خوبصورتی زیادہ بہتر طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ممکن ہے کہ یہ معاملہ تھوڑا سا مبہم ہو، مگر یہ ہے تو اسی طرح۔ اسے سمجھانے کے لیے اس سے آسان الفاظ میں نہیں ڈھونڈ سکتا۔کیونکہ میرے پاس اپنے احساس جمال کی کوئی وضاحت نہیں سوائے اس کے کہ وہ بہت پیچیدہ سی چیز ہے، جسے اب تک میں خود سمجھ نہیں سکا اور جس قدر سمجھ میں آیا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ اس کے لیے ایک زندگی تو بہرحال کم ہی پڑے گی۔\"\"
میں یہاں دو باتوں کا ذکر اور کرنا چاہوں گا۔اول تو یہ کہ عورت کا بدن میرے لیے ایک ایسا موضوع ہے، جسے اب تک میری تخلیقی دنیا نے گہری دلچسپی کے ساتھ ہی دیکھا ہے۔مجھے عورت کا بدن نہ صرف پسند ہے، بلکہ اس کی مختلف تراش خراش، اس کے سخت اور ڈھیلے ، چکنے اور کھردرے تمام قسم کے بدنی حصوں کا گواہ بننا پسند کرتا ہوں۔یہ عورت کا بدن ہی ہے، جو میرے سائے کا راستہ بھی روک سکتا ہے اور میرے خواب کا دامن بھی پکڑ سکتا ہے۔مجھے اس نظارے سے کبھی الجھن نہیں ہوتی، کوئی شرم نہیں آتی، کوئی وسوسہ دل میں نہیں امڈتا۔یہ طے ہے کہ میں کسی ننگی عورت کو اگر وہ زندہ اور گرم حالت میں بھی میرے نزدیک موجود ہے تو اپنی جنسی خواہش کے ابال سے پریشان ہوکر گھٹنوں کے نیچے دابنے کی کوشش نہیں کروں گا کیونکہ میرا دماغ مکمل طور سے خوبصورتی اور جبر میں فرق کرنا جانتا ہے۔میں اس نکتے سے آگاہ ہوں کہ خوبصورتی ، کوئی ایسا گھول نہیں، جسے پی کر ہوس کے پیٹ کا ہاضمہ ہمیشہ کے لیے درست کرلیا جائے۔میں انسانی مرضی کا احترام کرنے والا ایک شخص ہوں، اس لیے جانتا ہوں کہ اشتہار میں اپنی مرضی سے اپنا بدن دکھانے والی عورت کو دیکھ کر اس کی تعریف کرنے اور پھٹی ہوئی ساڑی میں موجود کسی مجبور عورت کی چکنی پنڈلیوں کو گھورنے میں کیا فرق ہے۔اس لیے مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ عورت ہی روشن دماغ معاشرے میں ننگی کیوں ہے؟ میں اس منفی رجحان کی تربیت کبھی اپنے دماغ میں نہ کرپایا کہ عورت کو ننگا کہنے والے، اس ایک لفظ کا سہارا لے کر آخر کون سے تقدس کے زینے پر اسے بٹھانا چاہتے ہیں۔کاروباری معاشرہ ، جس میں جبر شامل نہ ہو یعنی وہ سرمایہ دارانہ دنیا جس میں لکھنے والے ہاتھوں سے لے کر دیکھنے والی آنکھوں تک ہر شے کی ایک قیمت ہوتی ہے اور تمام \"\"چیزیں اپنی قیمت خود طے کرتی ہیں، وہاں عورت کو مکمل طور پرآزاد ہوکر اپنے سینے کی نمائش کرنے کا مول لگانے کی آزادی ہے۔کیونکہ ہم ہر اس چیز کو فروخت کرنے کے لیے میرے نزدیک مکمل طور پر آزاد ہیں، جس سے اپنی زندگی کو بہتر طور پر گزار سکیں۔ان چیزوں سے معاشرے میں گندگی و نجاست پھیلانے کی سازش کا الزام لگانے والے لوگ، دراصل ان سماجی اجارہ داروں کی طرح ہیں، جو اپنی اور اپنے جیسے خالی پیٹ لوگوں کے ہوکے کو دور کرنے کے لیے بستی کے سارے ہوٹلوں پر تالا لگانے کا مشورہ بھی دیں اور اگر کوئی ان کی بات نہ مانے تو اسے برا بھلا کہیں، گالیاں دیں اور موقع ملے تو زد و کوب بھی کریں۔
معاشرہ اگر اپنی جنسی ضرورتوں اور ندیدگی کے لیے بدن بیچنے والوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کوئی نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم اپنے معاشروں میں بقول حفصہ نور عورتوں اور لڑکیوں کی قبروں کی بھی کئی روز تک حفاظت کرتے ہیں۔اس لیے اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ ہم عورت یا مرد کی عریانیت کو مسئلہ بنائیں، اپنے احساس جمال پر سوال قائم کریں یا پھر خود سے یہ پوچھنے کی ہمت کرسکیں کہ آرٹ کی پھیلائی ہوئی بے پردگی سے ہمیں فی الوالوقع کس لیے خوف آتا ہے؟
تو کیا یہ سب بہت پیچیدہ ہو گیا۔۔۔ آئیے غلام ہمدانی مصحفی کا ایک شعر پڑھتے ہیں
آستیں اس نے جو کنہی تک چڑھائی وقت صبح
آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments