راجہ گدھ میں نے نہیں لکھا: بانو قدسیہ کی یادیں


\"\" بہت دنوں کی بات ہے ایک جملہ سنا۔ لکھاری کا نام یاد نہیں، شاعر کو اس کی شاعری میں ملو۔ اگر اس ملنے کو ملاقات کہتے ہیں تو بانو قدسیہ آپا سے میری شناسائی 1997سے ہے۔ طبیعت میں چونکہ سستی ہے لہذا خواہش کے باوجود ملنے کا وقت نہ نکال پایا۔ اسی انتظارمیں اشفاق احمد صاحب چلے گئے۔ دل نے لاکھ ملامت کی مگر مجال ہے کہ ہم اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہوئے ہوں۔
افسانوں، ڈراموں، اور راجہ گدھ کے ذریعے آپاکا حال احوال پہنچتا رہا۔ خدا کا کرنا 2016 میں ممتاز روحانی شخصیت سید سرفراز اے شاہ صاحب کے حوالے سے ڈاکومنٹری کے سلسلے میں بانو آپا کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ دل کے تار تو پہلے سے ہی ملے ہوئے تھے۔ بزرگوں اور بابوں کی باتیں شروع ہوئیں۔ بانو آپاپر بظاہر اشفاق احمد صاحب کا رنگ نمایاں ہے تاہم لاہور کی نامور ہستی ”پیر فضل شاہ المعروف نور والے©“ بہت پہلے ان کو اپنی بیٹی قرار دے چکی تھے۔ بیٹی اور باپ کے راز ونیاز میں کائنات کے اسرار پر گفتگو ہوتی تھی۔
پیر فضل شاہ صاحب لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے۔ اس کے باوجود اشفاق احمد جیسے نابغہ روزگار بھی ان کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ ان کی اکثر تحریروں میں بھی پیر فضل شاہ سے ملنے والے فیض کا رنگ جھلکتا تھا۔ ”منچلے کا سودا“ ڈرامے میں بھی چھٹی پر مہر لگانے والے بزرگ ایک لفظ پڑھنا نہیں جانتے لیکن فیض اور بے خودی کا دروازہ ان کی جانب سے مہر لگنے کے بعد ہی کھلتا ہے۔ وہ جسے مرشد بنانے کے لئے ارشاد (خیام سرحدی) سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار تھے، مرشد سے ملاقات کے بعد آج وہی ڈاکیہ (فردوس جمال )ان کے پیچھے چلتے ہوئے ان کی عظمت کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔
بات چلتے چلتے اشفاق صاحب کی طرف مڑگئی، مگر بانو آپا سے جڑی ہوئی ساری باتیں ہی اشفاق احمد صاحب کی طرف چلی جاتی ہیں۔ وہ ان کی زندگی کا صدر مقام تھے۔ مجھے یاد ہے گفتگو کے دوران میں نے بے لاگ اپنے دل کی بات کہہ دی جس کا انہوں نے برا بھی منایااور پرزور انداز میں میری تصحیح کی کوشش بھی کی۔ میں نے کہا تھا ”آپا مجھے آپ اشفاق احمد صاحب سے بڑی لکھاری معلوم ہوتی ہیں“۔ اشفاق احمد صاحب کی نسبت آپا کی تحریر میں نسبت عام آدمی کی زبان استعمال ہوتی ہے۔ ان کی نسبت تحریر میں تصوف کے پرپیچ گلیوں کا تذکرہ بھی کم ہے۔ وہ دل پر چوٹ مارنے والی بات نہایت سلیس زبان میں کرتی ہیں۔ میں غلط ہوسکتا ہوں لیکن میرے نزدیک یہ باتیں انہیں اشفاق صاحب سے زیادہ قدآور لکھاری بناتی ہیں۔ تاہم وہ اپنی بات پر ڈٹی رہیں۔
\"\"میرے لئے یہ بات بھی حیران کن ہے کہ گھر کا چولھا چوکا کرنے والی عام سی خاتون راجہ گدھ جیسا ناول کیسے لکھ سکتی ہے۔ اشفاق صاحب نے تو صحرا صحرا کی خاک چھانی، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا، اگر وہ راجہ گدھ ناول لکھتے تو شاید اچنبھے کی بات نہ ہوتی۔ یہ بات میں نے تب بھی بانو آپا سے پوچھی تھی جب 1997میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ تب وہ ناول کے ذریعے مجھ سے بات کررہی تھیں، اس بارے میں خاموش رہیں، جواب نہیں دیا۔ 2016میں جب میں نے اس بات کا پھر سے تذکرہ چھیڑا تو ان کے جواب نے میرے پاو¿ں تلے زمین ہی نکال دی۔ کہنے لگیں ”راجہ گدھ میں نے نہیں لکھا“۔ تو پھر کس نے لکھا ہے؟
میں نے سمجھا شاید نسیان کا حملہ ہوا ہے، بڑھاپے میں یادداشت ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ کہنے لگیں ہمارے گھر کے لان میں ایک درخت ہے، میں اکثر اس کی چھاو¿ں میں بیٹھتی تھی، ایک دن اس کے نیچے بیٹھے میں نے سنا کوئی میرے کان میں بار بار ”راجہ گدھ“ کہہ رہا ہے۔ میں وہاں سے اٹھ کر چھت پر گئی تو وہاں کچھ ورق پڑے تھے اس پر لکھا ہوا تھا ”راجہ گدھ“۔ میں قلم لے کر بیٹھ گئی، پھر اگلے دو تین ہفتوں میں راجہ گدھ مجھ پر اترتا گیا اور میں لکھتی رہی۔
ان سے ملاقات کے وقت بھی وہ کافی بیمار تھیں، تاہم ان کے اندر دکھ، افسوس، شکست جیسی کسی کیفیت کے آثار نہیں تھے۔ مطمئن تھیں، راضی برضا۔ اگر کچھ تھا تو وہ اپنے محبوب اشفاق احمد کی یاد تھی۔ جو انہوں نے اپنے ارگرد ہر طرف بسا رکھی تھی۔ ماڈل ٹاؤن کی داستان سرائے سے دونوں داستان گو آج اٹھ گئے ہیں۔ اجڑے دیار کی یاد میں اب صرف سرائے باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments