مصوری اور ادب میں فحاشی کسے کہا جائے؟


\"\" ایک دو روز کے وقفے سے ہم سب پر دو مضامین آئے۔ ایک بھائی ظفر اللہ خان کا تھا، \”طوائف مائیں، فاحشہ بہنیں، رنڈی بیٹیاں\” اور ایک پاکستان میں نیوڈ مصوری کے بارے میں تھا۔ دونوں مضمون کافی زیادہ پڑھے گئے اور پڑھنے کے بعد دل والوں نے گالیوں بھرے کمنٹ بھی عطا کیے۔ جو ممکن ہوا اس کی صفائی کی گئی، باقی دوستوں کا تبصرہ رہنے دیا گیا کہ آئندہ کچھ لکھنے والے عبرت پکڑیں اور ایسے اپنی عزت چوک میں کھڑے ہو کر نہ اچھالیں۔

قصہ یہ ہے کہ یہ مضامین آئینہ ہیں۔ جنہوں نے وہاں دشنام طرازی کی، وہ بھائی یہاں پھر اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہی کچھ برا ہے تو بھئی نہ پڑھیے، لاحول کہہ کر گزر جائیں۔ لیکن نہیں، پوری طرح سمجھ کر پڑھیں گے، پھر جب اپنے موقف کے مطابق نہیں ہو گا تو لکھنے والے کے گھر تک گالی پہنچانا بھی گویا فرض ہے۔

ٹھیک ہے، یہ بہرحال کوئی نیا کام نہیں۔ گالی ہمیشہ تب دی جاتی ہے جب دلیل نہ رہے۔ اور دلیل بذات خود گالی بنتی ہے جب آپ اس سے اپنی مرضی کا نتیجہ نکالنا چاہیں لیکن معاملہ کسی کروٹ بٹھا نہ پا رہے ہوں، غصہ آئے اور وہ غصہ پھر جس مرضی لفظ میں بدل جائے۔

جب یہ سب ہوا تو سوچا کہ فن کار، جو خود نیوڈ تصاویر بناتے تھے، بے چارے اسے آرٹ کہتے اور سمجھتے تھے، جو لوگ ترقی پسند ادب کے فروغ میں رہتے تھے، وہ سب نہ جانے کیا کیا بھگتتے ہوں گے۔ تو کافی بھاگ دوڑ کے بعد کچھ چیزیں ایسی ملیں جس سے ان فن کاروں کے نظرئیے کو سمجھنے میں مدد ملی۔ ہمارے عبدالرحمن چغتائی جنہوں نے پی ٹی وی کا لوگو بنایا، ریڈیو پاکستان کو نشان بنا کر دیا، غالب\"\"

کو مصور کیا، علامہ اقبال کے اشعار مصور کر دئیے، مولانا رومی کے اشعار پر تصاویر بنائیں تو انہوں نے بھی غلطی سے نیوڈز بنائی تھیں۔ وہ وقت شاید کچھ بہتر تھا، یا شاید چغتائی صاحب کے تعلقات حلقہ مقتدر میں بہتر تھے، تو وہ فخریہ ان کا ذکر کرتے تھے بلکہ انہیں نہ سمجھنے والوں کو بدذوق بھی سمجھتے تھے۔ چغتائی صاحب مغربی مصوروں کی طرح ماڈلز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ سوائے ایک افریقی خاتون کی تصویر کے شاید ہی انہوں نے کسی خاتون کی تصویر بنانے کے لیے روائتی ماڈل کا سہارا لیا ہو۔

اسی طرح محمد حسن عسکری صاحب کا ایک مضمون تھا ادب اور فحش، دوستوں نے یاد کرایا، اس کتاب کا بندوبست کیا اور چند اقتباسات جو نفس مضمون کہے جا سکتے ہیں، وہ یہاں نقل ہوں گے۔

یہ مضمون ان بھائیوں کے لیے دوبارہ ایک موقع ہے جنہوں نے پچھلے مضمون پر آزادانہ اظہار رائے کیا، ان باکس میں تشریف لائے اور نوازا، سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی ۔۔۔

چغتائی صاحب کے اقتباسات دیکھیے؛

\”یہ وہی پیرس ہے جس کی آرٹ گیلری لوور میں لینارڈو کی مونا لیزا، روبنز کی موٹے موٹے جسموں والی عریاں تصویریں، ریمبراں کے شاہ کار، سیزاں کی غسل والیاں، ڈیگے کی ناچ والیاں، گوگین کی تھہیٹی کی رہنے والیاں، بھدی اور موٹی عورتیں اور پھر میڈگلینی کی لمبی لمبی گردنوں والی عورتیں دیواروں پر آویزاں ہیں۔ اور لوگ ان کو دیکھ کر، نقاد ان کے متعلق لکھ کر، اور شاعر نظمیں کہتے کہتے ابھی تک نہیں تھکے۔

یہاں ہزاروں تصویریں عریاں ہیں۔ اور لاکھوں انسان، مرد، عورتیں اور بچے روزانہ انہیں دیکھتے ہیں۔ اور انہیں ان کے خلاف کبھی زہر اگلنے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا ننگ فحاشی کے معیار پر پورا اترتا ہے یا وہ آرٹ کی نمائندگی کرتی ہیں؟

عریاں تصویریں بنانے میں مغربی آرٹسٹوں کو جو کمال حاصل ہوا، وہ مشرق کو نصیب نہیں ہوا۔ بدھ اور جین سے لے کر مغل، ایرانی، کانگڑہ اور دکن کے مصوروں نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے بہت سی ننگی تصویریں بنائی ہیں۔ بدھ کے مجسمے اکثر عریاں ملتے ہیں۔ داسیوں اور دیوتاؤں کے مجسمے بھی۔۔۔\”

\”ریمبراں کے موقلم (برش) کی ہلکی سی جنبش نے اس تصویر کو ننگ اور عریانی میں بھی ماں کی حیثیت سے دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کی ہر عریاں تصویر ایک مختلف جذبہ رکھتی ہے۔ اور اس جذبے کے زیر اثر اس کی اپنی شخصیت کا انکشاف ہوتا ہے۔

اسی طرح ہر جدید آرٹسٹ آنگرے ڈیگے، سیزاں، پکاسو، مڈگلینی، گوگین، رینائے وغیرہ، ہر ترجمان آرٹسٹ کا مقصد عریانی سے وہ نہیں ہوتا جس عریانی کا مقصد انسان کو غیر انسانیت کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ ان کو عورت کے ان جذبات اور تاثرات کی ترجمانی مقصود ہے جو اس کی خوب صورتی کو جاوید بناتے ہیں۔

ہر عورت ماں پہلے اور محبوبہ بعد میں ہے۔ یہ جرات آج بھی نہیں ہوتی کہ ہم ان تصویروں کے بنانے والوں کو اس بات سے داغ دار کریں اور ان پر بہتان لگائیں کہ انہوں نے فحاشی کے پھیلانے میں حصہ لیا ہے۔

دیکھا جائے تو ننگ دیکھنے کے لیے خود ستر کا جامہ پہننا پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ تعجب کی بات نہیں کہ جنسی بھوک کے مارے ہوؤں کو لباس میں بھی عریانی نظر آتی ہے۔ اکثر عورتیں، یہاں عورت سے مراد مغربی نہیں مشرقی عورت ہے، جسے اپنے ستر کا احساس ہمیشہ رہتا ہے، دیکھا جائے تو وہ اپنے لباس میں بھی بدن کے تناؤ اور خوب صورتی میں حیا محسوس کرتی ہیں۔ کیوں کہ اس کو دیکھنے والی نگاہیں اس کے اندرونی جذبات سے بھی باخبر ہیں۔ ہمارے ہاں جنسی لذتوں کا مظاہرہ کوئی نئی بات نہیں۔ پنڈت کوکا سے لے کر ایک بازاری کسبی تک نے اس لذت کا احساس دلایا ہے۔

مولانا روم، سعدی اور کالی داس نے بھی انسان کی اس کمزوری کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہر انسان کو ابھی اپنےآپ کو سمجھنے اور سیکھنے کے لیے بڑے اہم تجربات کی ضرورت ہے۔

ہمارے اندر آج جنسی ہیجان کا ایک سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ اکثر جنسی لذت کے امکانات سے بے خبر ہیں۔ اور بے خبری ہمیشہ جھنجھلاہٹ کا باعث ہوتی ہے، چاہے اس کی صورت نفرت پذیر ہو یا پسندیدہ۔ فحاشیات کا درجہ اتنا گرا ہوا نہیں جتنا ہماری موجودہ سوسائٹی محسوس کر رہی ہے۔ اور سمجھتی ہے کہ ان ترقی پسند مصنفین نے ان کی تہذیب کو کھوکھلا اور ننگا کر دیا ہے اور اخلاق کی جڑیں ہلا دی ہیں۔

وہ جو چھپ چھپ کر گناہ کرنے کے عادی ہیں۔ اور چھپ کر ایسا ادب پڑھنا پسند کرتے ہیں، وہ اخلاقا بودے اور ڈرپوک ہیں۔ ان کو چاہئیے وہ اپنی کمزوریوں کا اظہار برملا کریں۔ وہ اس ادب کو اس نقطہ نگاہ سے پڑھیں تاکہ ان کا اپنا عیب کوئی نئی صورت اختیار کر جائے۔ اور اس برگشتہ ذہنیت کا خاتمہ ہو جائے جس کی بنیاد پر ہم بجائے اپنے، دوسروں کو ذلیل سمجھنے لگتے ہیں۔

عریانی اور فحش نگاری ہر دور ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ موجودہ نظریوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ فرعون سے لے کر بدھ تک نے اپنے جسم کو نہیں ڈھانپا۔ اور ممکن ہے دونوں کا نظریہ اور کچھ ہو۔ مگر دونوں کے درمیان اتنا ہی بعد ہے جس قدر ان کی شخصیت نے اپنے آپ کو منانے میں عظمت اور اعتراف حاصل کیا ہے۔ میں آرٹسٹ ہوں میں نے کئی برہنہ تصویریں بنائی ہیں۔ ان میں جنسی لذتوں کا احساس بھی ہو گا۔ مگر میں نے دیکھا ہے۔ ان کو دیکھ کر کنواری لڑکی تو کیا بیاہی ہوئی عورت، پنڈت، ملاں کوئی بھی ہو ان سے نفرت کرتا ہوا نظر نہیں آیا۔

میرا نظریہ یہ ہے کہ عریاں ادب عریاں تصویر جذبات کو ضبط اور اخلاق سکھاتی ہے۔ اگر بنانے والے یا لکھنے والے کا صحیح مفہوم ننگ اور عریانی نہ ہو۔ \”

محمد حسن عسکری نے کیا وضاحت دی، ملاحظہ فرمائیے؛

\”یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مجسموں اور تصویروں میں جنسی اعضا اس وقت چھپائے جانے شروع ہوتے ہیں، جب زمانہ انحطاط پذیر اور انحطاط پسند ہوتا ہے، جب روحانی جذبے کی شدت باقی نہیں رہتی اور خیالات بھٹکنے لگتے ہیں۔ جب فن کار ڈرتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین کی توجہ اصلی چیز پر مرکوز نہیں رکھ سکے گا۔ پتے اس وقت ڈھکے جانے شروع ہوتے ہیں جب فن پارے کی وحدت قوم کی نظر میں باقی نہیں رہتی اور وہ اسے مختلف ٹکڑوں کا مجموعہ سمجھنے لگتی ہے۔ ان چیزوں سے قطع نظر، بعض دفعہ تھوڑا سا پردہ تصویر کو کہیں زیادہ فحش بنا دیتا ہے اور ذہن کو لامحالہ برے پہلوؤں کی طرف لے جاتا ہے، کیوں کہ اس میں وہی sneaking کی صفت پیدا ہو جاتی ہے\”

\”مجھے ایک اور سوال یاد آتا ہے۔ عریانی کے معذرت خواہوں کی طرف سے بعض دفعہ فحش اور غیر فحش کا فرق بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سفید رومال سے چہر ہ صاف کر کے کہا جاتا ہے کہ جنس کے ذکر میں لذت کا اظہار نہ ہونا چاہیے اور نہ ترغیب کا عنصر۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہے، کیوں کہ حقائق کو بھی اس سے اختلاف ہے، آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں ؟ جب ہم کسی پیڑ کو، کسی کردار کے چہرے کو، اس کے کپڑے کو، کسی سیاسی جلسے کو مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں اور تنقید اسے ایک اچھی صفت سمجھ سکتی ہے تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے ؟ دراصل اس اعتراض کی بنیاد وہ روایتی احساس ہے جو جسم کے بعض حصوں اور بعض جسمانی افعال سے جھجکتا ہے اور انھیں بنفسہ گندہ اور پلید سمجھتا ہے اور ان کے وجود کو ابدی لعنت کا داغ۔ یہی ذہنیت جو ایک طرف تو ادب اور آرٹ پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے لیکن دوسری طرف لاتعداد فحش کتابوں کو جنم دیتی ہے۔ لذت بجائے خود کسی فن پارے کو مردود نہیں بنا سکتی بلکہ اس کے مقبول یا مردود ہونے کا دارومدار ہے لذت کی قسم، اس کی سطح پر، فن کار کے مزاج اور نقطۂ نظر پر۔ کیا شیکسپیئر کی وینس اور ایڈونس، ٹیشئین کی برہنہ عورتیں، دودین کے دو مجسمے، “دائمی بہار” “بوسہ” اور “ہم آغوشی” لذت اور ترغیب سے بالکل خالی ہیں ؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے، کیا ہم انھیں فحش کہہ کر چھوڑسکتے ہیں ؟\”

\”اگر موجودہ ادب میں فحش موجود ہے تو اسے ہوّا بنانے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اگر آپ لوگوں کو فحش کی مضرتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں یہ سمجھنے کا موقع دیجیے کہ کیا چیز آرٹ ہے اور کیا نہیں ہے اور آرٹ کیوں فحش، اخلاقیات، سیاست اور اقتصادیات سے
بہتر اور بلند تر ہے۔ جو شخص آرٹ کے مزے سے واقف ہو جائے گا، اس کے لیے فحش اپنے آپ پھسپھسا ہو کر رہ جائے گا۔ کم سے کم اپنی ذہنی تندرستی کے دوران میں تو وہ فحش کو چھونا بھی نہیں چاہے گا۔ سب سے نفیس پہچان فحش اور آرٹ کی یہی ہے کہ فحش سے دوبارہ وہی لطف نہیں لے سکتے جو پہلی مرتبہ حاصل کیا تھا۔ آرٹ ہر مرتبہ نیا لطف دیتا ہے۔ اس توازن اور ارتفاع کی مثال کے طور پر مجھے فراق صاحب کا شعر یاد آتا ہے

ملے دیر تک ساتھ سو بھی چکے

بہت وقت ہے آؤ باتیں کریں ۔۔۔۔\”

نتیجہ ہم نے خود نکالنا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments