یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی ….


 \"naseerایک شادی کی تقریب تھی جس میں کچھ شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور بھی مدعو تھے۔ دانشور اس لیے لکھا ہے کہ ہمارے اکثر ادیب اور شاعر دانشور کا سابقہ یا لاحقہ ضرور لگانا پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ ایک عام آدمی بھی ان کی طرح بلکہ ان سے کہیں زیادہ دانش ور ہو سکتا ہے، جس طرح ایک دیہاتی زمیندار وکیلوں سے زیادہ زمینوں کے معاملات اور قوانین جانتا ہے۔ دراصل ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو یہ ہی نہیں معلوم کہ ترقی یافتہ ملکوں میں شاعر یا مصنف ہونا دانشور ہونے سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔ ویسے تو ادب و دانش میں عوام و خواص کی تخصیص ہی غلط ہے، سماج کے ہر طبقے کی اپنی اپنی دانش ہوتی ہے۔ عوامی دانش میں روحِ عصر ہوتی ہے جبکہ خواص کی دانش ڈرائنگ روم میں پڑی اسٹل لائف جیسی ہوتی ہے۔ خیر جب مقررہ وقت سے کئی گھنٹے بعد تک بھی بارات نہ پہنچی تو شادی ہال کے ایک الگ گوشے میں بیٹھے ہوئے ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے درمیان بحث مباحثہ شروع ہو گیا۔ اتفاق سے عین اسی دن ایک مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ کا جلسہ بھی تھا اور وہ بھی باراتیوں کی طرح کئی گھنٹے کی تاخیر کے باوجود جلسہ گاہ سے میلوں دور گاڑیوں کے قافلے میں چیونٹی کی رفتار سے جلسہ گاہ کی طرف رواں دواں تھے اور ان کے چہرے پر ذرا بھی تشویش کے آثار نہیں تھے کہ ان کے خطاب کرنے کا اعلان شدہ وقت کب کا گزر چکا ہے اور عوام ان کے انتظار میں نعرے لگا لگا کر گلے خشک اور خون پسینہ ایک کر چکے ہیں۔ وہ تو بس ایک عجیب شانِ لیڈری کے ساتھ کسی روبوٹ کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر استقبالی خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ لگتا تھا کہ انہیں جلسہ گاہ تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔

تقریب میں چونکہ ہر سیاسی جماعت اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے \” دانشور\” موجود تھے اس لیے میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ لیڈروں کو ہر حال میں وقت کی پابندی کرنی چاہیئے کیونکہ ان کا ایک اک عمل قابلِ تقلید مثال ہوتا ہے۔ لیڈر اگر چاہیں تو ایک دن میں پوری قوم کو وقت کا پابند بنا سکتے ہیں۔ اس پر ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک دانش ور فوراً بول اٹھے کہ وہ اتنے بڑے لیڈر ہیں اس طرح کی تاخیر معمولی بات ہے۔ آپ سیاسی مخالفت کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہیں۔ فلاں فلاں سیاسی جماعتوں کے لیڈر کب وقت پر پہنچتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سیاسی بات نہیں اور نہ یہ کسی خاص سیاسی لیڈر کی مخالفت ہے۔ یہ ہر لیڈر اور ہر شخص پر لاگو ہوتی ہے۔ لیڈروں کے لیڈر بانی ملک قائدِ اعظم محمد علی جناح وقت کے اتنے پابند تھے کہ ان کے کولیگز کہا کرتے تھے جناح صاحب کو آتا دیکھ کر ہم اپنی گھڑی کا ٹائم ٹھیک کر لیتے ہیں۔ پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن کی زندگی ہر چھوٹی سے بڑی بات تک وقت کی پابندی کا مجموعہ تھی۔ وہ لیٹ آنے والوں کے ساتھ ملاقات نہیں کرتے تھے چاہے وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوتی تھی۔ ایک بار جرمن چانسلر ایک جلسے میں مقررہ وقت سے چند منٹ لیٹ پہنچیں تو ان کو اپنا خطاب ملتوی کرنا پڑا اور ڈائس پر آ کر حاضرین اور منتظمین سے معذرت کرنی پڑی۔ یہ سب بھی تو لیڈر تھے۔ اس پر جواب ملا کہ آپ ان کی مثال نہ دیں ہم ابھی اتنے ترقی یافتہ نہیں ہوئے، ہمارے مسائل اور طرح کے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہماری اس ترقی یعنی کم از کم وقت کی پابندی کی راہ میں تو کوئی امر مانع نہیں۔ نہ سیاست نہ معیشت نہ ثقافت۔ نہ جمہوریت نہ مذہب۔ نہ امریکہ نہ ہنود و یہود نہ کوئی اورعالمی سامراجی قوت، یہ تو ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے کہ دیے گئے وقت اور کیے گئے عہد کی پابندی کریں۔ بلکہ ہمیں تو اس کا زیادہ پابند ہونا چاہیئے کہ یہ عین ہمارے مذہب اسلام کی روح کے مطابق ہے۔ اسلام کے تصورِ وقت اور اس کی اہمیت کا حوالہ دیا کہ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق وقت کو برا کہنا، اللہ تعالیٰ کو بد دعا دینے کے مترادف ہے۔ سورہ العصر کی پہلی آیت کا آغاز زمانے کی قَسم سے ہوتا ہے۔ زمانے میں خدا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ پابندی وقت کو معمولی بات اور وقت کو غیر اہم سمجھ کر بری طرح ضائع کرتے ہیں۔ جب کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ وقت زندگی ہے۔ وقت کائنات کا بہاو¿ ہے۔ وقت اور ہم لازم و ملزوم ہیں۔ وقت ہے تو ہم ہیں اور ہم ہیں تو وقت کا احساس بھی ہے۔ ہمارا دانشورانہ کردار اس سے بہتر کیا ہو گا کہ ہم وقت کی پابندی کریں۔ کئی قومیں پابندی وقت اپنا کر وقت سے آگے نکل گئی ہیں اور ہم ابھی تک وقت کے ساتھ چلنے سے بھی قاصر ہیں بلکہ وقت کا پہیہ الٹا گھما کر مزید پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں ایک ترقی یافتہ ملک کے ایک بہت بڑے ادارے میں کام کرتا تھا۔ میں نے کم و بیش پانچ سال کے عرصے میں ایک دن بھی دفتر میں کسی کو لیٹ آتے نہیں دیکھا۔ ایک بار میں دس منٹ کی تاخیر سے دفتر پہنچا تو سب نے مجھے یوں حیران کن نظروں سے دیکھا جیسے میں کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ کسی کے کچھ کہے بغیر میں اتنا شرمندہ ہوا کہ اس کے بعد ہمیشہ شیکسپیئر کے اس قول ’ وقت سے تین گھنٹے پہلے آنا ایک منٹ دیر سے آنے سے بہتر ہے‘ کے مصداق پانچ منٹ پہلے دفتر پہنچ جاتا تھا۔ یہ سن کر ایک دانشور صاحب گویا ہوئے کہ دیکھیں جی آپ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی عام دفتری باتوں اور مثالوں سے ہمارے ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات کا موازنہ و مواخذہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے اور ہمارے لیڈروں کے مسائل اور طرح کے ہیں۔ آپ کوئی بڑی بات کریں، کوئی سوشیو پولیٹیکل حل دیں، کوئی اکنامک ریفارم، کوئی ازم لائیں، کسی بڑے انقلاب، کسی بڑی تبدیلی کا عندیہ دیں، کوئی بڑی دانش کی بات کریں۔ عوامی جلسوں میں لیڈر اور شادیوں میں دلہا والے تو لیٹ ہو ہی جاتے ہیں، یہ ہماری ثقافتی پہچان اور سیاسی شان ہے، بقول شاعر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ….

مجھے سخت حیرت ہوئی کہ اتنے پڑھے لکھے لوگوں نے محض اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر وقت کو بھی سیاسی بنا دیا ہے اور اپنے سیاسی لیڈروں کی تاخیر کو تاخیر ماننے پر تیار نہیں، وہی میں نہ مانوں کی تکرار، وہی عمل سے تہی، روز کی سنی سنائی، رٹی رٹائی دانشوری۔ میں سوچنے لگا کہ بڑی بات کیا ہوتی ہے اور چھوٹی بات کیا ہوتی ہے۔ کیا دانش بھی چھوٹی بڑی ہوتی ہے؟ جب کہ نظریہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو عمل کے بغیر بے معنی ہو جاتا ہے۔ کیا انقلاب اور تبدیلیوں کے بھی درجے ہیں؟ کیا وقت کی سوئیاں سیاسی اشرافیہ اور عوام کے لیے الگ الگ چلتی ہیں؟ کیا وقت کی پابندی کے لیے بھی دانش کے کسی چھوٹے بڑے مقام پر ہونا ضروری ہے؟ کیا ہم ذہنی طور پر اتنے پست اور سیاسی طور پر اتنے غلام ہو چکے ہیں کہ اپنی اپنی پارٹی کے لیڈروں کو ہر ضابطہ اخلاق سے از خود بالا سمجھ لیتے ہیں؟ عوام اگر اصول، قانون اور پابندی اوقات کی بات کریں تو وہ چھوٹی بات ہے اور لیڈر اگر ہر قانون، اصول اور اخلاقیات کو پامال بھی کریں تو بڑی بات ہے۔ دراصل کسی بات میں پنہاں دانش اپنی اصلیت اور ماہیت میں یکساں ہوتی ہے۔ کوئی بات، کوئی دانش چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی۔ یہ ہم ہیں جو اسے چھوٹا یا بڑا بنا دیتے ہیں اور اپنی اپنی وابستگیوں کے مطابق اس کے غلط یا صحیح ہونے کا پیمانہ مقرر کر لیتے ہیں۔ حالانکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل پیرا ہو کر ہی بڑی دانش کی عملی شکل بنتی ہے اور کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments