جام ساقی سے ملاقات کا احوال


\"\"

کچھ دوستوں نے تقاضہ کیا ہے کہ مزاحمت کی علامت اور اپنے ذاتی دوست جام ساقی سے ملاقات کا حال بیان کروں۔ پہلی بات یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ جب ناواقف حالات میں جام سے میری ملاقات ہوئی تھی تو اس کے بارے میں سندھی قوم پرست ہونا مشہور تھا اور حسب معمول یہ بات پھیلائی گئی تھی کہ وہ ہندوستان کے ایماء پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

خیر ایک بار مجھے مزدوروں کے جلوس میں شرکت اور لاٹھی چارج کی وجہ سے بھاگ کر دولت گیٹ سے حرم گیٹ آتے ہوئے خفیہ والوں نے دھر لیا اور تھانے میں دھکا دے کر گرانے سے پہلے میری اس طرح دھلائی کی کہ دو بڑی لاٹھیاں میری کمر پر ٹوٹیں۔ میرے لمبے لمبے بال تھے جنہیں مٹھیوں میں جکڑ کر میانوالی سے تعلق رکھنے والے سپاہی مجھے اٹھا اٹھا کر زمین پر پٹختے تھے پھر ہر طرف سے چھوٹے ڈنڈے برستے دکھائی دیتے تھے۔ ظالم تھانے دار کہتا تھا،\”کہہ میں بھٹو دا ۔۔۔۔\”۔ میرا جواب ہوتا تھا،\”توں بھٹو دا ۔۔۔۔\”۔

یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ میری مار کھاتے ہوئے تصاویر اور روداد اخبارات میں چھپی تھی۔ جو ظاہر ہے میری نظر سے نہیں گذری تھی۔ جیل میں مجھے اور بہت سوں کو جن میں ضیاء کے دور میں کوڑے کھانے والا صحافی ناصر زیدی بھی تھا کوارنٹائن یعنی قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ پانچ چھ روز بعد میرے دوست کے بڑے بھائی جو مجسٹریٹ تھے مجھے ملنے آئے تھے۔ شام کو جیل کے ڈاکٹر نے مجھے جیل کے ہسپتال میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ میرے احتجاج کے باوجود اس حکم پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔

ہسپتال میں بیڈ خالی نہیں تھا اس لیے میرے لیے زمین پر گدا ڈال دیا گیا تھا۔ اگلے روز آٹھ نو برس کے ایک بچے کے ساتھ موٹے شیشوں کی عینک اور کھدر کی اٹنگی دھوتی اور شلوکا پہنے ایک مرد آیا تھا جس نے خود آخری بیڈ کے کنارے پر بیٹھ کر سامنے کھڑے ہوئے بچے کو بلند آواز میں ڈانٹ کر پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ میرے لیے یہ تو عجیب تھا ہی مگر مجھے اس مرد کا ستر کھل جانے کا مسلسل خدشہ تھا۔
بچے کو یاد کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ مرد میرے پاس آیا تھا اور بہت مہذب انداز میں میرے نزدیک پڑے ایک دو رسالوں اور چند کتابوں کو دیکھنے کی اجازت چاہی تھی۔ کسی کتاب پر لکھا میرا نام دیکھتے ہی اس نے \” کامریڈ\” کہہ کر مجھے اپنے مضبوط بازوؤں میں بھر کر اٹھا لیا تھا۔ یہ جام ساقی تھا جس نے اخبار میں میرا نام اور جو مجھ پر گذری اس کے بارے میں پڑھا تھا۔
ایک اور شخص تھا مولوی اسلم جس نے احمدی وزیرخزانہ ایم ایم احمد کو چھری ماری تھی۔ اسے جیل نے دینی کتابیں پڑھنے کے لیے دو کوٹھڑیاں دی ہوئی تھیں۔ مولوی بھی جام کا دوست تھا۔ ویسے سبھی اس کے دوست تھے۔ وہ بچہ جسے وہ پڑھا رہا تھا وہ ایک وارڈن کا بچہ تھا۔

جام ہر روز اپنی بیرک سے آتا تھا۔ گریجویٹ ہونے کی وجہ سے اسے بی کلاس مل سکتی تھی جو اس نے نہ لی تھی، اور اپنے حصے کی سگریٹ کی دو ڈبیاں لا کر مجھے دے دیا کرتا تھا۔ ہم مولوی اسلم کی کوٹھڑی میں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ اس نے مجھے کبھی سوشلزم یا کمیونزم کے چکر میں نہیں ڈالا تھا بس غیر منصفانہ سماج کو بدلنے کی جستجو کرنے کی بات ہوا کرتی تھی۔ یوں جام سے میرا کوئی نظریاتی تعلق نہیں تھا تبھی تازہ ترین ملاقات میں اس نے سب کے سامنے کہا کہ ڈاکٹر مرزا ہمارا دوست نہیں معشوق ہے۔
پھر بہت زمانہ بیت گیا۔ میں امام علی نازش والی کمیونسٹ پارٹی میں تھا کہ پتہ چلا پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے فرائض جام ساقی نے سنبھال لیے ہیں اور وہ لاہور میں عام جلسوں سے خطاب کرنے آ رہا ہے۔ ظاہر ہے جام میرا دوست تھا۔ اسے میں نے اپنے گھر ٹھہرایا اور بیشتر مقامات پر اپنی گاڑی میں لے کر گیا۔ بعد میں بھی وہ بھابی اور بچوں کے ہمراہ میرے ہاں مہمان ہوا تھا۔
پارٹی تقسیم ہو چکی تھی لیکن میں اس کے ساتھ ایک دوست کی طرح تھا۔ پھر میں روس چلا گیا۔ جام نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور وزیراعلیٰ کا مشیر مقرر ہوا تھا۔ یہ 1994 تھا، میں اپنی روسی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان آیا تھا۔ اسے میں نے کہا تھا کہ تمہیں اپنے وزیر دوست سے ملاتے ہیں۔ جام دفتر سے نکل کر سیڑھیاں پھلانگتا ہوا آیا تھا اور بہت زیادہ جھکنے کے بعد گلے لگا تھا۔ میری بیوی بہت متاثر ہوئی تھی کہ تمہارے وزیر بہت اچھے ہیں۔ اسے کیا معلوم کہ یہ میرا یار جام تھا۔
ایک بار آیا تو سنا جام ساقی کو فالج ہو گیا ہے۔ کہیں سے پتہ کر کے فون کیا۔ اس کی باتوں میں ربط نہیں تھا اور لگتا تھا کہ وہ یونہی کہہ رہا تھا کہ اس نے مجھے پہچان لیا ہے۔
اس بار اکادمی ادبیات کی کانفرنس میں کسی نے بتایا کہ جام تبلیغی جماعت میں شامل ہو گیا ہے۔ جام کے بیٹے سارنگ نے جام کی تصویر لگائی تو میں نے حال احوال جاننا چاہا۔ سارنگ کی بجائے بھابی اندرا نے جواب دیا اور کہا کہ اگر اس طرف آئیں تو ہمارے ہاں ضرور آئیں ۔
چنانچہ میں چلا گیا۔ پہلے اطلاع کر دی تھی۔ سارنگ نے \”جام ہاوس\” کا گیٹ کھولا تو دو بھونکتے ہوئے مگر بندھے چھوٹے کتوں سے واسطہ پڑا۔ تنگ سی راہداری سے ایک چھوٹے کمرے میں پہنچے جس میں مرض کی بو تھی۔ جام پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا ہے مگر بائیں جانب کے فالج سے جانبر ہو کر ہشاش بشاش ہے تاہم معذوری بہر طور معذوری ہوتی ہے۔ پرانی یادیں سنائیں اور بتایا کہ نذہت عباس اور احمد سلیم نے مل کر اس کے بارے میں کتاب مرتب کی ہے جو انگریزی میں لندن میں چھپ چکی ہے۔ یہاں اردو میں فکشن ہاؤس چھاپے گا۔ احمد سلیم نے میری کتاب کے ساتھ فکشن ہاؤس کے مالک کا سلوک سن کر مجھے فون پر بتایا تھا کہ وہ یہ کتاب اسے نہیں دیں گے۔ پھر جام ساقی نے اپنی پاٹ دار آواز میں پوچھا،\”ہماری خوفناک بھابی کا کیا حال ہے؟\” یعنی بھول چکا تھا کہ میرے ساتھ روسی خاتون تھی جس سے وہ ملا تھا۔ ظاہر ہے کہ خوفناک بھابی کے ہوتے ہوئے کوئی روسی دوست کیسے آ سکتی تھی۔
لگتا ہے جام ساقی کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں کیونکہ ابھی بچے برسر روزگار نہیں ہوئے۔ شکر ہے جام کا گھر اپنا ہے۔ میرے جیسے بھی تو ہیں جن کا ذاتی گھر ہے ہی نہیں۔ سارنگ باپ کو کامریڈ کہتا ہے چاہے پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر اس کی کامریڈشپ کو بہت زک ہی کیوں نہ پہنچی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments