انتہا پسند، لبرل فاشسٹ اور سیکولر ازم


 \"\"وسطی افریقہ کے ملک روانڈا میں توتسی اور ہوتو نام کے دو قبائل آباد ہیں۔ ہوتو اورتوتسی میں سیاسی بالادستی کی کشمکش عشروں پرانی ہے۔ قبیلے، عقیدے، زبان اور نسل کے گرد گھومنے والی سیاست تقسیم کرتی ہے اور اس کا ناگزیر نتیجہ جنگ و جدل ہوتا ہے۔ اٹھارہ برس قبل روانڈا میں ہونے والے ہولناک قتل عام کے دنوں کی بات ہے۔ ہوتو قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک دانشور صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے توتسی قبیلے میں کیڑے ڈال رہا تھا۔ دنیا میں کوئی ایسی برائی نہیں جو اس نے توتسی قبیلے سے منسوب نہیں کی اور تان یہاں توڑی کہ توتسی لوگوں نے روانڈا کو تباہ کر دیا ہے۔ سننے والے نے بات پا جانے کے انداز میں سر ہلایا اور کہا ہاں توتسی قبیلے نے اور خرگوشوں نے روانڈا کو تباہ کر دیا ہے۔ دانشور نے چونک کر کہا۔ خرگوش کہاں سے آ گئے اور انہوں نے کیا کیا ہے۔ جواب ملا ۔وہی جو توتسی قبیلے نے کیا ہے۔ یہ نیم سیاسی حکایت مجھے برادرم وصی شاہ کی بات سن کر یاد آئی کہ ہم مذہبی انتہا پسندوں اور لبرل انتہا پسندوں میں پس رہے ہیں۔ عرض کرنا چاہا کہ مذہبی انتہا پسندوں کو چھوڑیے وہ تو ہمیں چند در چند وجوہات کی بنا پر یوں بھی بہت اچھے لگتے ہیں ۔ اصل میں یہ کہیے کہ ہم توتسی قبیلے اور لبرل انتہا پسندوں کے گھیرے میں ہیں۔ کوئی پوچھے کہ یہاں توتسی قبیلہ کہاں سے آیا۔ تو جواب یہ ہے کہ صاحب اس ملک میں تو لبرل بھی نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا۔ یہاں تعلیم یافتہ شہری طبقے پر لبرل کا لیبل لگا کر اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں بدحالی اور قتل و غارت کی ساری ذمہ داری اس گروہ کو نہ اٹھانی پڑے جسے ہم چھاﺅں میں رکھنا چاہتے ہیں۔

سیاست کی لغت دو ٹوک نہیں ہوتی۔ اس لیے سیاسی رائے عامہ تشکیل دینے والوں کو ضرورت پیش آتی ہے کہ مجرد اصطلاحات کو عام فہم صورت بخشی جائے۔ ایسے معاشروں میں جہاں ریاست نظریاتی چولا پہن لیتی ہے، سیاسی مکالمہ زیادہ علامتی صورت اختیار کر لیتا ہے کیونکہ رائے کے اظہار پر پابندیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر معاشرے میں مقبولیت پسند سیاست دخل پا جائے تو بھی سیاسی اصطلاحات کا مفہوم گڈمڈ ہو جاتا ہے۔ آمریت کی مزاحمت کرنے والوں کو اپنی بات زیادہ احتیاط سے کرنا پڑتی ہے۔ ہم نے پاکستان میں نظریاتی ریاست، مقبولیت پسند سیاست اور طویل آمریتوں کے عذاب جھیلے ہیں۔ اس سے ہمارے سیاسی بیانیے پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں انتہا پسند، سیکولر اور لبرل کی اصطلاحات نہایت ڈھیلے ڈھالے انداز میں استعمال کی جاتی ہیں اور ان سے واضح ابلاغ کی بجائے گرد اڑانا مقصود ہوتا ہے۔

انتہا پسندی بذات خود کوئی سیاسی تصور نہیں بلکہ ایک نسبتی معیار ہے۔ اگر آپ مجھ سے کسی معاملے پر اختلاف کرتے ہیں اور ہم دونوں کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں تو آپ خیال کریں گے کہ کیسا انتہا پسند آدمی ہے۔ سامنے کی بات نہیں سمجھتا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اختلاف رائے انتہا پسندی کا پیمانہ نہیں۔ بانو قدسیہ نے اپنی کسی تحریر میں خواتین کے لباس کے تناظر میں انتہا پسندی کے رنگ گنائے ہیں۔ ڈبل نقاب اوڑھنے والی خاتون چادر پہننے والی کو بے پردہ سمجھتی ہے اور چادر اوڑھنے والی خاتون دوپٹہ گلے میں ڈالنے والی عورت کو بے حجاب سمجھتی ہے۔ دوپٹے کا اہتمام کرنے والی خاتون سمجھتی ہے کہ پتلون پہن کر شاپنگ کرنے والی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ اگر اس طور پر دیکھا جائے تو جو بھی ہم سے مختلف ہو، ہم اسے انتہا پسند قرار دے دیں۔ وہی مشتاق احمد یوسفی کے ”بشارت صاحب“ کے خسر کا قصہ کہ جو ہم سے ایک برس چھوٹا ہے وہ لمڈا کہلائے اور جو ایک سال بڑا ہے اس پر بوڑھے کی پھبتی چست کی جائے۔ نہیں بھائی۔ انتہا پسندی کی ایک سادہ تعریف موجود ہے۔ اجتماعی مکالمے میں جو فرد یا گروہ خود کو صحیح اور دوسروں کو گمراہ قرار دے کر اختلاف رائے کا راستہ روکے، وہ انتہا پسند ہے۔ سیاسی عمل میں جو فریق دلیل کا راستہ چھوڑ کر ہتھیا ر اٹھا لے، وہ انتہا پسند ہے۔

ہمارے ہاں سیکولر ازم تو ایسی گالی ہے کہ ایک دوست اخبار میں کسی عزیز پر سیکولر ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو دوسرے بھائی مدافعت میں لکھتے ہیں کہ نہیں جناب، آپ نے انہیں سیکولر قرار دے دیا۔ میں انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ تو نہایت دین دار اور شریف انسان ہیں۔ بالواسطہ مفہوم یہ کہ سیکولر ہونا تو گویا مذہب مخالف ہونے یا بدباطن ہونے کا اعلان ہے۔ نہیں بھائی، سیکولرازم کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ سیکولرازم تو ایک سیاسی نظام کا نام ہے جس میں سب عقائد کے یکساں احترام کی ضمانت دی جاتی ہے۔ سیکولر نظام میں کسی عقیدے کے ماننے والوں کو غلط یا صحیح قرار دیے بغیر سب شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے۔ سیکولر حکومت میں اجتماعی فراست کو بروئے کار لا کر تمام شہریوں کے معیار زندگی کی ضمانت دیتی ہے۔ سیکولرازم اور مذہب میں کوئی تصادم نہیں۔ سیکولرازم اور تھیوکریسی میں تصادم موجود ہے اور یہ تصادم عقیدے سے نہیں، سیاسی نقطہ نظر سے تعلق رکھتا ہے۔ سیکولر مکتب فکر کی رائے ہے کہ نظام حکومت میں کسی ایک عقیدے کو ترجیحی درجہ دینے سے فرقہ وارایت اور مذہبی امتیاز کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہتا۔

 لبرل کا خطاب بھی اپنے ہر مخالف کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ کسی کا لباس پسند نہیں آئے تو وہ لبرل۔ کسی کا رہن سہن ناپسندیدہ ہو تو اسے لبرل کے لقب سے متہم کر دیا جاتا ہے۔ اور جو ملک میں غالب سیاسی بیانیے کی مخالفت کرے وہ لبرل فاشسٹ۔ صاحب لبرل ازم لباس اور انسانوں کی دیگر شخصی ترجیحات سے مملو نہیں۔ لبرل ازم تو زندگی کے امکانات کی دریافت کے لیے درکار حوصلے کا نام ہے۔ اس کے ڈانڈے اٹھارہویں صدی کی روشن خیالی سے ملتے ہیں۔ اور اس کے تین بنیادی نکات ہیں، علم دوستی، استحصال کی بجائے پیداوار سے شغف اور دوسرے انسانوں کی تکلیف کا احساس۔ لبرل سوچ معاشرت کے کسی بندھے ٹکے سانچے کا اسیر ہونے کی بجائے انسانوں کے لیے آسانیاں ڈھونڈنے کا نام ہے۔ ہر عہد میں روایت سے ٹکرانے والے حریت پسند ہی حقیقی لبرل تھے اور انسانی تاریخ ان کی جرات اور عزیمت سے عبارت ہے۔ اور فاشسٹ لبرل کی اصطلاح تو ہم عصر امریکی قدامت پسند جونا گولڈ برگ کی دین ہے۔ 1969ءمیں پیدا ہونے والے گولڈ برگ نے 2008ءمیں ’لبرل فاشزم‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں مسولینی اور ہٹلر پر لبرل ہونے کا نام رکھ کر ہم عصر امریکی روشن خیالوں کی بھد اڑانا مقصود تھا۔ سبحان اللہ ! جارج بش اور ڈک چینی سے ایسا اختلاف اور ان کے فکری گرو گولڈ برگ سے شیفتگی۔ فسطائیت سے ٹکرانا ہی مقصود ہو تو ہمارے ہاں فسطائی سوچ کے نمونے بہت ہیں۔ فسطائیت کی پہچان کا حوصلہ تو پیدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments