لبرل فاشسٹ کی تلاش


حامد میر نے 20 جنوری 2011 ءکے روزنامہ جنگ میں لکھا ۔

”لبرل فاشسٹ وہ شخص ہے جو پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے ڈرون حملوں کی حمایت کرتا ہے۔ 1973 ءکے آئین کی اسلامی دفعات کی مخالفت کرتا ہے۔ جس نے پرویز مشرف کے اقتدار کی حمایت کی اور اب زرداری صاحب کے اقتدار کی حمایت کرتا ہے۔ لبرل فاشسٹ اپنے مخالفین کو طالبان کا دوست قرار دیتا ہے۔ مذہبی شدت پسند اور لبرل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کیونکہ دونوں پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان میں سے ایک شراب پینے کے بعد جھوٹ بولتا ہے اور دوسرا نماز پڑھنے کے بعد جھوٹ بولتا ہے “۔

یاسر لطیف ہمدانی نے 31 جنوری 2011 ءکو ڈیلی ٹائمز میں لکھا ۔

”حمزہ علوی نے ایک دفعہ سیکولر اور لبرل عناصر کو پاکستان کے اصل نظریے کے سچے وارث قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے آج کے پاکستان میں ٹیلی ویژن میزبانوں از قسم کامران شاہد اور اوریا مقبول جان نے پاکستان کے حقیقی نظریے کے ان اصل وارثوں کو لبرل فاشسٹ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس لیے فاشسٹ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک ایسے جمہوری بندوبست کی وکالت کرتے ہیں جس میں ہر شہری کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مہذب جمہوری بندوبست کی اصطلاح مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے“۔
جب لوگ اجتماع ضدین(Oxymoron)پر مبنی کوئی اصطلاح ایجاد کرتے ہیں تو ان کی خوشی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ فاشسٹ کو فاشسٹ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب وہ حکومت میں نہیں ہوتا تو اپنی تنظیمی طاقت کے بل پر اپنی مرضی مسلط کرتا ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد ریاست کی قوت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فاشسٹ اپنے نقطہ نظر کو واحد درست رائے سمجھتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے نقطہ نظر کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ قوم پرستی کی آخری حد فاشزم ہے اور ایسا فاشزم اپنی نوعیت میں ہمہ جہت آمریت ہوتا ہے۔ عام طور پر ہمہ جہت آمریت کو دائیں بازو کی سیاست کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن حنا آرڈنٹ نے اپنی کتاب میں واضح کیا کہ سوویت یونین بھی ایک ہمہ جہت آمریت تھی۔
لبرل شخص راسیخ العقیدہ نہیں ہوتا بلکہ وہ راسخ العقیدگی اور کٹر پن کا نشانہ بننے والے افراد اور گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔ لبرل شخص خود تشکیکی میں یقین رکھتا ہے کیونکہ اپنے خیالات کو شک کی کٹھالی میں ڈالے بغیر نہ تو آزادانہ سوچ ممکن ہے اور نہ ہی مظلوموں کے لیے بے لوث آواز اٹھانا ممکن ہوتا ہے۔ لبرل ذہن ہنگامہ آرائی کی بجائے صلح جوئی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جب روشن خیال لوگوں کو عملی طور پر کوئی اقدام کرنا ہو تو عام طور پر ان میں حکمت عملی کا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ لبرل شخص معتدل ہوتا ہے ، فراخ دل ہوتا ہے اور اس کی رواداری کی بنیاد یہ ہے کہ وہ اپنی انا کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور …. زیادہ خطرناک بات یہ ہے …. کہ گروہ اور ریاست کی عصبیت کی حمایت بھی نہیں کرتا۔
لبرل شخص میں ایک ناقابل اصلاح رجحان یہ ہوتا ہے کہ وہ اختلافی امور میں درمیانی راستہ نکالتا ہے۔ جب دوگروہ ایک دوسرے کے ساتھ تصادم کے راستے پر چل نکلتے ہیں تو لبرل شخص درمیان میں کھڑا ہوتا ہے اور اسے دونوں طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ معاشرے میں جذباتی فضا پیدا ہو جائے تو لبرل شخص کی جان کوگہرے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تصادم کی صورت حال میں لبرل عام طور پر پسپائی اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ لبرل شخص دوسرے لبرل افراد کے ساتھ شناذونادر ہی اتفاق کرتا نظر آتا ہے۔ جان سٹیورٹ مل نے اس فلسفے کو یہاں تک بڑھا دیا کہ لبرل ازم خود ایک عقیدہ نظر آنے لگا ہے ۔
انتہا پسندی اپنے خیالات کے بارے میں کٹر پن سے پیدا ہوتی ہے۔ کٹر پن وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ہم پیچیدہ حقائق کو سادہ لوحی سے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ جب آپ کے اندر کسی رائے کے بارے میں جوش وجذبات ابلنے لگیں تو اپنے آپ کو تشدد کے راستے پر چلنے سے روکنا چاہیے۔ یہ وہی موقع ہوتا ہے جب دوسروں پر اپنی رائے ٹھونسنے والا فاشسٹ نمودار ہوتا ہے۔ اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے جوش و جذبے میں آئے ہوئے لوگ بڑے پروقار اور پرشکوہ نظر آتے ہیں۔ لبرل لوگ زیادہ متاثر کن نہیں ہوتے کیونکہ وہ اچھے بھلے نظریات میں کمزوریاں تلاش کر لیتے ہیں اور انہیں اقتدار کی علامتیں تراشنے کا شوق نہیں ہوتا۔ لبرل شخص وہ ہے جو ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے خالد خواجہ کو قتل کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لبرل شخص پاکستان میں احمدیوں سے نفرت نہیں کر سکتا چنانچہ لبرل شخص تنہا ہوتا ہے اور بے ضرر سا نظر آتا ہے۔ مسلمانوں میں ایمان اور یقین کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے حالانکہ لسانی طور پر یہ دو مختلف اصطلاحات ہیں۔ غلام پرویز نے 1960 ءمیں لغت القرآن لکھی تھی اور پرویز صاحب نے اس کتاب میں رائے دی کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں ہمیں ایمان اور یقین کو مترادف قرار دینے کی ہدایت دیتے ہیں۔

محترم خالد احمد نے روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے لیے یہ مضمون 6 فروری 2011 ء کو تحریر کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments