کتاب بینی، ایک معدوم ہوتی روایت


\"\"

بچپن کی یادوں میں ایک بہت ہی مسحور کرد ینے والی یادوں میں سے کتاب کا تحفے میں ملنا تھا۔ اس وقت اتنا جو ش و خروش ہوتا تھا کہ ساری رات جاگ کر وہ کتاب مکمل کرنا چاہتے تھے۔ پھر اگلے تحفے کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اور پھر اپنے ہم جماعتوں کو شوق سے وہ کتاب دکھائی جاتی تھی اور پڑھنے کے لیے مسعتار بھی دی جاتی تھی۔

وقت نے کروٹ لی اور آج کل کے بہترین تحفے کچھ سائنسی آلات ہیں۔ ہماری نو جوان نسل کے پاس مہنگا سے مہنگا موبائل لیپ ٹاپ یا پھر گیجٹ نظر آجاتا ہے مگر شاید کسی کے ہاتھوں میں کوئی کتاب نظر آئے۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ایک دور تھا جب لاہور کے چائے خانوں میں باغات میں اور ایوانوں میں ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ جہاں بڑے بڑئے دانشور اور صحافی، سکالرز ہوتے تھے لوگ ان کی باتوں سے مخطوظ ہوتے تھے، ساتھ ہی کسی نئی کتاب کی رونمائی ہوتی تھی اور نئے ادیب کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اورکتب پر تبصرہ، تجزیہ اور آراء کا اظہار کیا جاتا تھا۔ عوام الناس میں بھی کتب بینی کا رجحان زیادہ تھا۔ جیسا کہ ولیئم سو مرسٹ نے کیا ہے کہ ” زندگی کی بدصورتیوں سے پناہ لینے کا طریقہ کتب بینی کی عادت ہے“۔ کتب بینی آپ کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آپ کی ذہنی صلاحتیوں کو سنوار کر اس قابل بناتی ہے کہ آپ دنیا کو تسخیر کر سکیں۔ سویڈن، فن لینڈ۔ ناروے۔ آئس لینڈ۔ ڈنمارک اور سوئزر لینڈ میں شرح خواندگی زہاد ہ ہونے کے باعث کتب بینی کا ذوق و شوق پایا جاتا ہے۔ آپ کو ٹرینوں، بسوں اور فٹ پاتھ پر بس کا انتظار کرتے ہوئے لوگ مطالعہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج کل کی نسل کے ایک اشار ے پر دنیا بھر کی تمام معلومات تو حاصل ہو سکتی ہے جو اپنی صبح آغاز فیس بک اور واٹس ایپ کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ مگر ان میں مطالعہ کا رجحان بہت کم رہ گیا ہے۔ جیسے جیسے دو رِ جدید کی ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں شامل ہو رہی ہے کتاب کہیں دور فضا میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ ترقی کرنا ہر دور کا تقاضا رہا ہے۔ ہماری نئی نسل کو بھی نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنا چاہیے لیکن کتب بینی جیسی خوبصورت عادت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ڈھلتی ہوئی شام، کھلی فضا چائے کا کپ اور ایک اچھی کتاب کا ساتھ اس سے بڑھ کر خود کو کیا تحفہ دے سکتے ہیں۔ وقت کا اس سے اچھا مصرف کیا ہوسکتا ہے۔ کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ کا ایک تعلق بن جاتا ہے۔ ان کا بار بار مطالعہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ تنہائی کی بہترین ساتھی اور دوست کتاب ہوتی ہے۔

مطالعہ کے کم ہونے کی ایک بڑی وجہ افراط ِ زر ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں پر لوگ انتہائی مشکل سے اپنی زندگی کا پہیہ چلا رہے ہیں وہاں پر کتابیں خریدنے ایک مہنگا مشغلہ ہے۔ بہتر سے بہترین کی جستجو میں کتب بینی جیسا شوق پسِ پشت چلا گیا ہے۔

دوسری بڑی وجہ زندگی گزارنے کے اطوار بدل گئے ہیں۔ اس بھاگم دوڑ والی زندگی میں جہاں رات سے صبح اور صبح سے رات تک صر ف اور صرف آسائشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے گھروں میں کتب کی موجودگی ایک معمہ بن گئی ہے۔

متوسط طبقے کا ایک گھر جہاں پر بس ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ ہے۔ زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ نصابی کتب پڑھنا اور پھر اچھی ڈگری کاحصول پھر ایک اچھے ادارے میں ملازمت رہ گیا ہے۔ ایسے میں طلبا ء کا اپنی نصابی کتب سے ہٹ کر کچھ اور پڑھنے کی طرف کم ہی دھیان جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر کے بزرگ غیر نصابی کتب پڑھنے کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ وقت کا ضیاع ہے۔

ایک اور بڑی وجہ جس ے ہر عمر کے افراد متا ثر ہوئے اور روزمرہ زندگی کا ہر شعبہ بھی اس کا اثر لیے بغیر نہیں رہا۔ وہ ہے معلومات کا آسان حصول، معلومات حاصل کرنے میں جدید سائنسی آلات اور انٹرنیٹ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مگر معلومات کا حصول تو بڑھ گیا ہے مگر دانش کم ہو کر رہ گئی ہے۔ آب لوگ اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا۔ نیٹ سرچنگ اور پیغامات کی وصولی پر خرچ کرتے ہیں۔

کسی بھی ملک، قوم کے بہترین اثاثے اس کے کتب خانے ہوتے ہیں۔ کسی کتب خانے کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں کے عوام اور با لخصوص نوجوان نسل کا رجحان کس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کچھ ہی سال پہلے کی بات ہے کہ جامعات کے لئے کتب خانے یا عوامی کتب خانوں میں لوگوں کی دلچسپی کی تمام کتب موجود ہوتی تھیں۔ باقاعدگی سے ہر عمر کے لوگ کتب خانوں کے مستقل، عارضی رکن تھے۔ پچھلے کچھ سالوں سے کتب خانوں کے مدراجات میں بہت کم پیسہ خرچ کیا جاتاہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کا رجوع کم ہوتا چلا گیا۔ اور کتب خانے بھی زبوں حالی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

شاہد خان جو کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں استاد ہیں ا ن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے۔ اسی طرح مطالعہ /کتب بینی بھی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں مطالع کا گہرا شوق پایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ بجلی نہ ہونے کے باعث شمع دان یا سٹریٹ لائٹ میں پڑھا کرتے تھے۔ نجیب احمد جو کہ نیشنل یونیورسٹی میں جدید لسانیات کے طالب علم ہیں۔ ان کے مطابق برقی آلات ہی کو مودرِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ سکول اور جامعات میں ایسے مقابلے منعقد کرنے چاہیں۔ جس میں کتب بینی کو فروغ دیا جاسکے۔ ساتھ ساتھ طلباء کی تحریر ی رجحان کو فروغ دینا چاہیے۔

اس مد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کا کردار قابل تحسین ہے۔ جنہوں نے بُک کلب متعارف کروائے ہیں۔ جس سے نہ صرف لوگو ں کے درمیان مطالعہ کے رجحان میں تیز ی آئی ہے۔ بلکہ مرتی ہوئی روایت کو جیسے نئی سانسیں ملی ہیں۔

کتب بینی کو فروغ دینے کے لئے ایسے اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں ایسا ماحول بنانا چاہیے جس سے بچوں میں مطالعے کے رجحان میں اضافہ ہو۔ ماں باپ کو خود مطالعہ کرکے مثال قائم کرنی چاہیے۔ اپنے حلقہ احباب میں اچھی کتب کا ذکر /مطالعہ /تبصرہ / تجزیہ کر کے شوق کو اُبھارنا چاہیے۔ دلکش طریقے سے مناسب روشنی اور ہوادار جگہ پر کتب پڑھنے اور رکھنے کی جگہ مختص کر نی چاہیے۔

جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے مقررہ وقت برقی آلات کے ساتھ گزاریں۔ اس کے ساتھ کتب بینی کے لئے بھی اقدامات مقررکیے جائیں۔ بچوں کو کتب تحائف کی صورت میں دینی چاہیے۔

بین الا قوامی کتب کا مہنگا ہونا بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ مگر اس کا حل اب مقامی اشاعت کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔ بہت سی کتب مقامی شائع بھی جا تی ہیں۔ جو کہ کم قیمت ہوتی ہیں۔
کتب بینی کو فروغ دینے کے لئے سکول لائیبریر ی ایک جامع کلید ی کردار ادا کر سکتی ہے۔ سکول اور کالجز میں وقتا ً فوقتاً کتب میلے منعقد کرنے چاہییں۔ جس میں طلبا ء کو رعائتی قیمت پر کتب دستیاب ہونی چایئے۔

نیز مقامی زبانوں اور ہماری قومی زبان میں ترجمے کو فروغ دینا چاہیے۔ دوسرے ملکوں /زبانوں کے ادب کو ہماری مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ہماری اردو زبان کو فروغ حاصل ہو گا بلکہ ہمار ی نئی نسل بھی مطالعہ اور اچھی کتب سے نظر نہیں چرا سکے گی۔

تحریر تحقیق : اسلم بھٹی / اے جنید

اسلم بھٹی
Latest posts by اسلم بھٹی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم بھٹی

اسلم بھٹی ایک کہنہ مشق صحافی اور مصنف ہیں۔ آپ کا سفر نامہ ’’دیار ِمحبت میں‘‘ چھپ چکا ہے۔ اس کے علاوہ کالم، مضامین، خاکے اور فیچر تواتر سے قومی اخبارات اور میگزین اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ آپ بہت سی تنظیموں کے متحرک رکن اور فلاحی اور سماجی کاموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔

aslam-bhatti has 38 posts and counting.See all posts by aslam-bhatti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments