بانو قدسیہ اور اشفاق احمد پر تنقید!


آج سے دس سال پہلے بھی یہی کہا کرتا تھا کہ اگر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نے خلق خدا کو گمراہ کیا بھی ہے تو انتہائی خلوص سے کیا ہے۔ اس تبصرے کے پس پردہ کچھ خیالات ہیں جو پیش کر نے کی اجازت چاہوں گا۔

گذارش ہے کہ آج ہم جمہوریت ٗ  انسانی مساوات و حقوق وغیرہ کے داعی اور مبلغ ہیں۔ ہم تہہ دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہ نظریات انسانی دانش کا نچوڑ ہیں اور انسانی فلاح کے لیے بہترین حل ہیں۔ ہو سکتا ہے پوسٹ ماڈرنزم کل اس قابل ہو جائے کہ ہمارے ان خیالات و نظریات کی دھجیاں اڑا کے رکھ دے اور ہمیں اس دور کا اشفاق احمد اور بانو قدسیہ قرار دے دے۔ اس صورت میں ہمارا ایک ہی مطالبہ ہو گا کہ ہماری فکر پر تنقید کیجئے لیکن ہماری نیت پر شک نہ کریں۔ پوسٹ ماڈرنزم والے یہ ثابت کرنے میں نہ لگ جائیں کہ ہم نے اس فکر کی ترویج کسی سازش کے تحت کی۔

کسی حد تک عشق ایک نفسیاتی عارضہ ثابت ہو چکا ہے ۔ کل اگر یہ عارضہ نفسیاتی عارضوں کے ڈی ایس ایم کا حصہ بن جاتا ہے تو مستقبل کے آدمی سے ہماری استدعا ہو گی کہ عشق پر انتہائی خلوص سے لکھے لیکن ماضی میں لکھے  ناول شاعری اور ڈراموں کو کسی سازش کو حصہ قرار نہ دے اور تین چار ہزار سالہ تاریخ میں آئے ہزاروں مصنفین کو سازشی نہ کہے۔

اشفاق صاحب کہا کرتے تھے کہ وہ مسلمان بادشاہوں کے پرستار ہیں اور ملوکیت کو ہی حل سمجھتے ہیں۔ اب یہ ایک نظریہ ہے اور اس پر کھل کر عقلی بنیادوں پر تنقید واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تنقید کا انداز یہ ہو جائے جیسے اشفاق احمد کسی سازش اور مذموم مقصد کے تحت یہ کہہ رہے ہیں تو  یہ مناسب رویہ نہیں ہوگا۔ ان کو نظریہ رکھنے کا مکمل حق ہے اور مجھے اس پر تنقید کرنے کا۔

ایک دفعہ خان صاحب کے گھر گئے ہوئے تھے۔ میرے ساتھ ایک صاحب تھے جو سخت گیر قسم کے تصوف مخالف تھے۔ بات کرنے کے سلیقے سے ناواقف تھے اور ادب پڑھنے کے حوالے سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ میڈیا کی وجہ سے یہ جانتے تھے کہ اشفاق صاحب تصوف اور بابوں وغیرہ کے قائل ہیں ۔ ان معلومات کے ساتھ ہمارے سامنے انہوں نے خان صاحب پر چڑھائی کر دی۔ خان صاحب جو بات کرتے وہ انتہائی بد تمیزی سے درمیان میں بات کاٹ کر روایتی دلیل بہ مبنی غصہ دے دیتے۔ اس ساری گفتگو میں دو باتیں قابل غور تھیں۔ ایک یہ کہ اشفاق صاحب نے ساری باتوں کا جواب تحمل سے دیا۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ انہوں نے مکمل اہمیت اور توجہ دی۔ کسی جگہ ایسا نہیں لگا کہ میاں جاؤ ۔۔تم کیا جانو ۔۔ کہ دانش اور دانشوری ہوتی کیا ہے یا تمھیں کیا معلوم تم کس سے مخاطب ہو۔\"\"

پاکستان بننے کے بعد کی نسل ایک بے یقینی کی کیفیت میں رہی۔ احساس تحفظ  \’پکی نوکری\’ سے جڑ گیا۔ اس نسل میں سیلف میڈ طبقہ بہت سخت گیر والدین ثابت ہوا۔ اس پورے ماحول کو جاننا از حد ضروری ہے۔ اشفاق صاحب پر تنقید کرنے سے پہلے یہ جاننا بھی لازم ٹھہرتا ہے کہ ان کے ایک فیصلے نے ان کو امارت اور خوشحالی سے غربت اور بدحالی کی جانب دھکیلا۔ اس کے بعد زندہ رہنے کی تگ و دو پوری ایک داستان ہے۔ ماحول ایک خاص قسم کا نفسیاتی جبر پیدا کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ دانش اس جبر کو توڑ سکے  بلکہ دانش  توزندگی کے تسلسل پر زیادہ دلائل اکٹھی کرتی ہے۔زیادہ تر تو یہ دیکھا گیا کہ ایسے جبر کو کسی عام آدمی کے نعرے نے  توڑا۔ فیض صاحب پر سرکار کے قرب اور بیٹیوں کی سفارش کروانے کے حوالے سے تنقید ہوئی تو عجیب سا لگا۔ ہم ایسی تنقید صرف اس صورت میں ہی کر سکتے ہیں جب  ہم اپنی ذات کو باہر نکال دیں۔ اگر ہم اپنی ذات اور زندگی میں سمجھوتوں کو سامنے لائیں تو شاید ہی ہم کسی کردار کو اپنے تخیل کے مطابق ہیرو بننے پر مجبور کریں۔

خان صاحب کبھی کسی دفتر کے چکر پہ چکر لگا رہے ہیں کبھی کسی افسر کے کمرے کے باہر گھنٹوں بیٹھے ہیں ۔ ہاتھ میں کسی کی نوکری کی عرضی ہے یا کسی بیوہ کو گھر دلانے کی درخواست،  کسی غریب کی بچی کے داخلہ کا مسئلہ ہے یا  کسی بیوہ کی پینشن کے حصول کا معاملہ۔۔

ہر کمزور فکر یا یوں کہیے جسے ہم کمزور فکر کہتے ہیں کے پس پردہ ضروری نہیں کہ اچھی نیت ہی ہو۔ بد نیتی پر مبنی کارروائیاں بھی ہوتی ہیں ۔ لیکن ایسے تمام میکنزم باعث تکریم ٹھہرتے ہیں چاہے وہ خفیہ ایجینسیز کے دنیا بھر میں میڈیا سیلز ہوں یا کارپوریٹ سیکٹر کے منافع کی غرض سے مقاصد ۔ بددیانتی پر مبنی فکر کی ترویج کے شواہد ادیب برادری میں بہت کم ہیں ۔

بدنیتی پر مبنی فکر کی ترویج ایک انتہائی حساس اور گھناؤنا الزام ہے۔ ایسا الزام لگاتے وقت احتیاطا ایک ہزار دفعہ سوچنا چاہیے۔

خان صاحب کے ہاں تصوف کے سوتے گڈریا سے جا ملتے ہیں۔یہ کوئی بعد کی انقلابی تبدیلی نہیں ہے۔ البتہ اس میں وقت کے ساتھ اضافہ
ضرور ہوا۔ ایک محبت سو افسانے وغیرہ کے حوالے سے تارڑ صاحب ٗ اشفاق صاحب کو محبت کا ماسٹر ادیب کہتے ہیں۔ اس تنقید میں بھی وزن ہے کہ اشفاق صاحب نے کہانی پر توجہ نہیں دی ۔ لیکن اسی تنقید کا ایک جواب بھی ہے۔ اشفاق صاحب محفل کے آدمی تھے۔ بقول تارڑ صاحب کہ اشفاق صاحب کے گھرانے میں ابتدا سے یہ وصف آرہا ہے کہ یہ خاندان غضب کا داستان گو تھا۔ تارڑ صاحب کی ساس نے انہیں بتایا  (جو دور پار سے اشفاق صاحب کی رشتہ دار بھی تھیں) کہ ان کو بات کرنے کا ڈھنگ آتا تھا۔ اشفاق صاحب کیونکہ پڑھ لکھ گئے تو ان کی یہ صلاحیت کہیں نکھر کر سامنے آئی۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ محفل کا آدمی کچھ زیادہ لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ پطرس بخاری ایک مثال ہیں کہ جن کی وجہ سے نہ جانے کتنے دانشوروں اور ادیبوں کو تحریک ملی لیکن خود انہوں نے کچھ زیادہ نہیں لکھا۔ اشفاق صاحب نے تو محفل کا آدمی ہوتے ہوئے بھی کہیں زیادہ لکھا۔

ایک تنقید یہ بھی سننے میں آئی کہ بانو قدسیہ اگر اشفاق احمد کی بیوی نہ ہوتی تو نوبل انعام یافتہ ہوتیں۔ ایسی تنقید پر انسان کیا کہے؟

اشفاق صاحب کی بانو آپا کی خاطر قربانیوں کا سلسلہ کہیں وسیع ہے۔ زندگی کی آسائشوں کو چھوڑنا۔ خاندان سے باغی ہو کر شادی کرنا۔ ممتاز مفتی اور احمد بشیر نکاح کے وقت ڈنڈے لیکر کھڑے تھے کہ کہیں ان کے خاندان کی جانب سے حملہ نہ ہو جائے۔ اس کے بعد زندگی رواں رکھنے کی تگ و دو۔ وہ صرف اپنے فیصلے پر ڈٹے ہی نہیں رہے بلکہ کبھی ماتھے پر تیوری تک نہیں چڑھائی۔

آخری چند روپے ہوں اور اشفاق صاحب ان روپوں سے کاغذ خریدتے ہیں کہ داستان گو رسالہ کی اشاعت نہ رکے۔ سائیکل پر لادے کاغذ کو لارہے ہیں۔ بارش کی وجہ سے جگہ جگہ کیچڑ ہے۔ سائیکل ڈگمگاتی ہے اور سارا کاغذ آنکھوں کے سامنے کیچڑ میں مل رہا ہے۔ ہوا تیز ہے ۔اشفاق صاحب سائیکل پھینک کر اکا دکا کاغذ بچانے کی کوشش میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ (بعد میں ان کے پوتے اصرار کر کے پوچھتے تھے بابا وہ آپ کیسے کاغذ کو بچانے کے لیےکیسے بھاگتے تھے۔ خان صاحب پوتوں کے اصرار پر عملی مظاہرہ کرتے اور اکڑوں بیٹھ کر فرش پر ادھر ادھر جھپٹنے کی حرکت کرتے۔ خان صاحب اور ان کے پوتے ہنس ہنس کر دہرے ہو جاتے۔ بانو آپا اشفاق صاحب کو ڈانٹتی کہ آپ کیا ماضی کی تلخ البم کو نکال کر بچوں کو سناتے رہتے ہیں۔ شاید بانو آپا اس لیے کہتیں کہ وہ اس  دور کے کرب سے واقف تھیں)\"\"

پبلشنگ ادارہ کھولتے ہیں تو علی پور کا ایلی شائع کرنے کی خواہش میں قرضوں میں جکڑے جاتے ہیں الغرض فلم بنانے سمیت جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں ناکامی ہوتی ہے۔ لیکن ان تمام ناکامیوں کے باوجود اشفاق احمد اشفاق احمد رہتے ہیں۔ نہ گھر تلخی نہ باہر۔

خان صاحب کے گھر والوں نے  برسوں بعد میں آنا جانا شروع کیا تو بانو آپا کو تنقید کا نشانہ اٹھتے بیٹھے بناتی رہتیں۔۔اوہو بانو تمھارے گھر میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے بس صرف یہ دو موڑھے ہی ہیں اوہو۔۔لیکن خان صاحب بانو آپا کا حوصلہ بڑھاتے اور کام کی طرف توجہ دلاتے رہتے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ایک جوڑے نے نصف صدی ساتھ گزاری۔

ایک نے کہا خان صاحب دیوتا ہے۔

دوسرے نے کہا بانو مجھ سے زیادہ محنتی اور قابل مصنفہ ہیں۔

پچاس برسوں میں کوئی ایک تنقید کا فقرہ  کسی جانب سے نہیں آیا۔ میں نے خود خان صاحب کو بانو آپا کی آمد پر ایسے کھڑے ہوتے دیکھا جیسے اچانک کسی بڑے آدمی کے آنے پر آپ ٹھٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف بانو آپا کو تقریب کے اختتام پر دروازے کے پاس کھڑے دیکھا کہ خان صاحب جو دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہیں وہ دروازے سے گزریں تو وہ بھی ان کے پیچھے دروازے سے گزریں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تعظیم اور محبت کے تجربے سے ہم اس قدر نا آشنا ہو چکے ہیں کہ ایسی کوئی مثال بھی ہمیں ڈرامہ لگتی ہے اور تعظیم و محبت کے پیکر ڈرامے باز۔ لیکن اگر اشفاق احمد اور بانو قدسیہ  واقعی ڈرامے باز تھے تو پچاس برسوں پر محیط اس بے مثال اور ہر نقص سے پاک اداکاری پر ان کو دنیا کا سب بڑا ایوارڈ ملنا چاہیے۔  \"\"

 سوشل میڈیا پر اشفاق صاحب کے تارڑ صاحب کو کہے ایک فقرے کو رنجش نما رنگ میں پیش کیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ فکری ہم آہنگ محفل کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ تارڑ صاحب مکمل طور پر ایک اور فکر کے آدمی ہیں۔ تو اس لیے ایسا قرب جو اشفاق صاحب کا اپنے فکری ہم آہنگ دوستوں کی جانب تھا وہ تو تارڑ صاحب کے لیے ممکن نہیں ہے  اور نہ ہی تارڑ صاحب کے لیے ممکن ہے کہ وہ خان صاحب کی ہر وقت محفل کا حصہ رہیں۔ اس لیے ایک خاص قسم کی دوری تو ہے لیکن اس دوری میں بھی احترام اور محبت کہیں زخمی نہیں ہوتے ۔

فقرہ یہ تھا کہ اشفاق احمد نے تارڑ صاحب کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور ایک دفعہ تارڑ صاحب ادب پر بات کرنا چاہ رہے تھے کہ اشفاق صاحب نے کہا ۔۔یہ دیکھئے بانو نے کیا عمدہ کباب بنائے ہیں۔

اب اصل واقعہ پڑھ لیجئے کہ ان کانوں نے کم از کم پانچ دفعہ تارڑصاحب کی زبانی سنا ہے۔

تارڑ صاحب نے انٹرویو دیا اور باتوں باتو ں میں کہا کہ کوئی شریف آدمی ادیب نہیں ہو سکتا،

دوسرے دن اخبار نے ان کے انٹرویو کی بڑی سرخی یہ جمائی کہ ۔۔ کوئی شریف آدمی ادیب نہیں ہو سکتا: مستنصر حسین تارڑ

اس دن اشفاق صاحب کا فون آیا اور وہ جیسے مزے لینے کے انداز میں بات کرتے تھے کہنے لگے ۔۔ ایہہ تارڑ توں کی لکھیا اے؟ کہ کوئی شریف آدمی ادیب نہیں ہو سکتا۔ تارڑ صاحب نے کہا جی بالکل ایسے ہی کہا ہے۔

 اشفاق صاحب نے کہا کہ تارڑ تم یہ سمجھتے ہو کہ میں شریف آدمی نہیں ہوں؟

تارڑ صاحب کہنے لگے ، خان صاحب آپ مجھے یہ بتائیے کہ کیا آپ ادیب ہیں؟

اشفاق صاحب نے کہا ۔۔ہاں

تارڑ صاحب نے فورا کہا ،  سر پھر آپ شریف آدمی نہیں ہیں۔

کچھ دنوں بعد  تارڑ صاحب کے گھر اشفاق صاحب کنبے کے ساتھ کھانے پر مدعو تھے۔ کھانا کھانے کے دوران خان صاحب نے چھیڑتے ہوئے تارڑ صاحب کی بیوی کو کہا کہ میمونہ اپنے شوہر کو سمجھاؤ جو کہتا ہے کہ میں شریف آدمی نہیں ہوں۔

تارڑ صاحب فورا بولے ، خان صاحب میں آپ کی تحریروں میں سے وہ ٹکڑے آپ کی فیملی کے سامنے پیش کروں جو ثابت کرتے ہیں کہ آپ شریف آدمی نہیں ہیں۔

خان صاحب  جہاندید ہ آدمی تھے۔ فورا بات پلٹتے ہوئے کہا کہ میمونہ یہ کباب بہت خستہ ہیں یہ کیسے بنائے ہیں۔

تو یہ اتنا سا واقعہ تھا۔

اس سے پہلے کہ \”شریف آدمی\” کو سوشل میڈیا کوئی اور رنگ پہنا دے ۔وضاحت کرتا چلوں کہ اسی انٹرویو میں تارڑ صاحب نے کہا تھا کہ \"\"ایک ادیب کے پاس طوائف سے ولی ہونے تک کا علم ضروری ہے (سوشل میڈیا کی مزید وضاحت کے لیے۔۔علم کہا ہے تجربہ نہیں)

خان صاحب اپنا مذاق اڑانا جانتے تھے اور یہی ان کے بڑے پن کی علامت ہے ۔ مذاق وہ اس رنگ سے اڑاتے تھے کہ یار لوگ اس کا کچھ سے کچھ مطلب نکال لیتے۔ ایک انٹرویو میں نعیم بخاری نے بانو آپا سے ان کی پسندیدہ تحریر پوچھی تو جیسا کہ ہم توقع رکھ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ کوئی خاص نہیں۔۔اب یہ بھی عجز ہے

لیکن جب اشفاق صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے فورا کہا ۔۔ تقریبا سب ہی۔۔میں تو اپنا لکھا جو صفحہ کھولتا اس میں عجب خوشبو آتی ہے ۔ اور اس کے بعد ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔ اب یہ بھی ملامتی عجز ہے۔ اشفاق صاحب اپنی ذات پر طنز کرتے رہتے تھے ،  اسی انٹرویو میں انہوں نے بانو قدسیہ کے ساتھ زمانہ طالبعلمی کو یاد کرتے ہوئے کہا ۔۔ کہ بانو کو اردو نہیں آتی تھی ۔ ہمدردی لفظ نہیں لکھ سکتی تھی ۔ اور ہم تو سب جانتے ہی تھے ہم تو پڑھے لکھے آدمی تھے ۔ میری کتابیں آچکی تھیں۔۔خان صاحب کا یہ بہت ہی خوبصورت انداز تھا جس کو کئی دفعہ وہ اس قدر سنجیدہ  طور بیان کرتے کہ ان کے بارے میں اچھی بھلی گمراہی پھیل جاتی تھی۔

تارڑ صاحب نے خوب کہا تھا کہ یشار کمال نے جو ادیب کے اوصاف گنوائے ہیں ان پر اشفاق احمد ہی پورا اترتے ہیں۔ جو کپاس کی فصل پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو کسانوں کے ساتھ کپاس بوتے اور چنتے پھرتے ہیں۔ کبھی کسی ترکھان کے شاگرد بنتے ہیں تو کبھی ڈھول بجانے کے لیے ڈھول والے کو استاد مانتے ہوئے ڈھول سیکھتے ہیں،  کبھی کسی کبابیے کے ہاں کباب بنانا سیکھ رہے ہیں تو کبھی تھر میں صحرا نشینوں سے مل رہے ہیں۔

اشفاق احمد خان صرف زاویہ نہیں ہیں۔ اشفاق احمد خان پون صدی پر پھیلی ایک شخصیت کا نام ہے۔ ان پر کی گئی بھونڈی تنقید والی پوسٹوں کو فارورڈ کرنےسے پہلے ان کو پڑھ لیجئے۔ اور جب رفاقت کی نصف صدی گواہ ہے تو جی کڑا کے مان لیجئے کہ بانو آپا ٗ  خان صاحب کی محبت میں واقعی مبتلا تھیں اور اشفاق احمد نے بانو سے دل کی گہرائیوں سے عشق کیا ہے!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments