بانو قدسیہ … اشرف المخلوقات


\"\"وہ لاہور میں 1992 کی ایک شام تھی جب عائشہ صدیقہ نے اپنی امی جمیلہ ہاشمی کی یاد میں ایک ایک عجیب تقریب رکھی تھی، جس میں سندھی ادیبوں کو مدعو کیا گیا تھا اور انہیں اپنی تخلیقات پڑھنے کی دعوت دی گئی تھی. میں، عبدالقادر جونیجو اور حسن درس.

عائشہ صدیقہ ابھی آتشِ نمرود میں اتری نہیں تھی مگر اس کی تپش پر ہاتھ سینکتی ضرور تھی. سول سروسز کی زنجیروں کے بیچ ایک مضطرب روح کی طرح دکھتی تھی. حیدرآباد آئی اور مجھے میری کسی بھی سندھی کہانی کا اردو ترجمہ پڑھنے کی دعوت دے گئی. ضیاء تو ختم ہو چکا تھا مگر اس کا آسیب ابھی ماحول میں سرسراتا پھرتا تھا. میرے اندر کی سندھی کہانیکار بھی ایک مضطرب باغی کی طرح اُن دنوں آتشِ نمرود میں کوُد پڑنے کو تیار رہتی تھی. دشتِ سوُس کے باغی منصور حلاج کی مصنفہ جمیلہ ہاشمی کی یاد میں سجے اُس اسٹیج پر سندھ کے حوالے سے میں نے کہانی کی صورت ایک طویل نوحہ پڑھا تھا، جو اپنے اندر مزاحمت کا رنگ لیے ہوئے تھا. ہال تالیوں اور واہ واہ سے گونجتا رہا. سندھ سے فاصلے پر رہتے مصطفیٰ قریشی اور روبینہ قریشی روتے رہے، مگر اگلی صف میں بیٹھی بانو قدسیہ جو میری توجہ کا مرکز تھیں، چپ بیٹھی رہیں. نہ داد نہ تحسین. دل تھا کہ بانو قدسیہ کی داد کے لیے مچلا جا رہا تھا.

مجھ میں ہمیشہ سے ایک خرابی رہی ہے. بہت ہی کم شخصیات مجھے متاثر کرتی ہیں. میں ایک اچھی مداح کبھی بھی نہیں بن پائی. مگر بانو قدسیہ کا معاملہ میرے لیے یوں تھا کہ میں خود ابھی ٹیلی ویژن ڈرامہ لکھنے کے قابل بھی نہ ہوئی تھی، جب ان کے لکھے ہوئے طویل دورانیے کے کھیل محمد نثار حسین کی ہدایات کے ساتھ پی ٹی وی کی اسکرین پر آتے تھے. میرا دماغ ابھی عورت کا دل بنا نہیں تھا جب ان ڈراموں میں عورت کی روح کے نہاں خانوں میں چھپے وہ معاملات اپنی گہرائیوں کے ساتھ ان کے قلم سے اسکرین پر اتر آتے تھے، جن سے خود عورت بھی بے خبر تھی اور جنہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے میں اس کیفیت سے گزری جس نے مجھے کردار کی گہرائی میں اترنا سکھا دیا. طویل دورانیے کے ان ڈراموں میں ان کی توجہ کی طالب عورت وہ کچھ بول رہی ہوتی تھی جو کہ ایک عورت خود بھی اپنے بارے میں نہیں جانتی. اس کی خواہشات اور حسرتوں کی نفسیاتی پرکھ سے لے کر اس کی محرومیوں کے الاؤ کی تپش اور اس کی ذات کے اندر کے تمام تر اضطراب کے اظہار سے گزر کر وہ اسے سمجھوتے کی اس چھت تلے لا کھڑا کرتی تھیں جہاں کندن بن چکی عورت اپنے پروں میں اپنے بچوں اور رشتوں ناتوں کو سمیٹ کر محبت کی چادر بُننے بیٹھ جاتی تھی. جسے وہ خود نہیں اوڑھتی تھی. وہ اوڑھتے تھے، جن کی محبت میں وہ مبتلا ہوتی تھی. جن سے وہ توجہ کی طالب ہوتی تھی. اور خود ویسی ہی پھڑپھڑاتی اور بے توجہ رہ جاتی تھی کہانی کے اختتام تک پہنچتے پہنچے ……. مگر خود آگہی کے ساتھ.

ان ڈراموں میں وہ یہ بتاتی تھیں کہ عورت مجبور و بے بس مرد اور سماج کے ہاتھوں نہیں، بلکہ اپنی محبت اور مامتا کے ہاتھوں مجبور ہے. یہ بے بسی اس پر مسلط کردہ نہیں بلکہ وہ خود اسے اپنے لیے چُنتی ہے، کیونکہ وہ محبت کیے بغیر رہ نہیں سکتی. یہی محبت اسے قربانی پر آمادہ کرتی ہے. وہ عورت کو بغاوت پر نہیں اکساتی تھیں بلکہ اسے خود آگہی دیتے ہوئے چھوڑ دیتی تھیں. مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری بڑی بڑی ڈرامہ آرٹسٹ بانو قدسیہ کی عورت کے کردار ڈوب کر ادا کرتے ہوئے اداکاری کے جوہر دکھانے کی بلندی پر پہنچیں.\"\"

اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کے وہ طویل دورانیے کے کھیل جو محمد نثار حسین کی ہدایات میں بنتے تھے، ان میں کردار روح کی گفتگو کرتے تھے اور دیکھنے اور سننے والے کی روح میں اترتے تھے.

گو کہ اس زمانے میں بھی ان پر لیفٹسٹ اور لبرل یہ اعتراض کرتا تھا کہ ضیاء کی آمریت میں یہ سمجھوتے اور معافی کی بات دراصل سرکار کی تعبیداری کی ترغیب دینے کے لیے کرتے ہیں. کیونکہ اسلام ضیاء کا ہتھیار ہے اس لیے وہ اس ہتھیار پر رنگ و روغن کرتے ہیں.

ایک سندھی اور پھر ایک سندھی نوجوان لکھاری ذہنی طور پر اس زمانے میں احتجاج، اختلاف اور مزاحمت سے دور رہے، یہ ممکن نہیں تھا. سو میری مٹی بھی اسی سے گندھی تھی. مگر طویل دورانیے کے ان کھیلوں میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا معافی و درگزر کا فلسفہ اور اس میں روحانیت اور انسانی نفس کا امتزاج میرے دماغ کو دل بناتا چلا گیا.

یہی دل تھا جو لاہور کے اسٹیج پر اپنی کہانی پڑھتے ہوئے بانو قدسیہ سے داد چاہتا تھا گو کہ میں تب بھی اس بات کی دعویدار تھی کہ داد و تحسین میری کمزوری نہیں۔

اسٹیج سے اتری. ان کے ارد گرد منڈلاتی رہی مگر وہ چپ. نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا. ایک بریگیڈیئر صاحب قریب آئے. اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ بی بی سنبھال کے …. لاہور شہر وچ ہی نہ گولی لگ جائے تینوں. یہ بریگیڈیئر صاحب کے داد دینے کا انداز تھا. مگر دل اس سے بھی خوش نہ ہوا.

اس شام کے ڈنر کا اہتمام عائشہ صدیقہ نے اپنے گھر پر کیا تھا. نامور ادیبوں اور شاعروں کا ایک ہجوم جمع تھا. میری شناخت اس ہجوم میں سندھی کہانی کار سے زیادہ ایک باغی اور احتجاج رقم کرتے اردو ڈرامہ نگار کے طور پر شناسائی کا سبب تھی، جس کے کریڈٹ پر جنگل، آسمان تک دیوار اور تپش وغیرہ تھے. باغی کی گردن میں اکڑ بھی ہوتی ہے جو شاید انجانے میں میری گردن میں بھی موجود ہوگی. ڈنر کی اس محفل میں اچانک الگ تھلگ بیٹھی بانو قدسیہ نے مجھے آواز دی.

بچے ادھر آ …..

ایک نرم اور میٹھی آواز. مڑ کر دیکھا تو ہاتھ میری جانب بڑھائے مجھے بلا رہی تھیں، بچے ادھر آ ….

میں قریب گئی. اچانک میرا ہاتھ تھام لیا. ادھر میرے پاس بیٹھ. چھوٹی سی جگہ پر میں ان کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی. انہوں نے میرا وہی ہاتھ اب دونوں ہاتھوں کے بیچ تھام لیا. یہ محض الفاظ نہیں ہیں….بانو قدسیہ کے ہاتھوں کے اس لمس کا احساس برسوں میرے اندر موجود رہا. لمس کے اس تجربے کو میں زندگی میں کئی بار کئی لوگوں کے ساتھ شیئر کرتی رہی ہوں.

وہ دھیمی آواز میں مجھ سے یوں مخاطب تھیں کہ بس میں ہی سن رہی تھی. نظریں میری فہمیدہ ریاض اور انتظار حسین صاحب پر ٹھہری تھیں جو اونچی آواز میں رام پور کے متعلق باتیں کر رہے تھے اور شاید میری کہانی کی وجہ سے مجھ سے کچھ کھچے ہوئے بھی تھے.

دیکھ بچے …..تعریف انسان کو کھا جاتی ہے… اس پر کان مت دھر …..آگے بڑھ جا…تعریف کرنے والے تجھے گھیر لیں گے …. راہ میں روک لیں گے …. آگے جا نہیں سکے گی تو ….

اور جو بھی لکھ ماں بن کے لکھ … ادیب کا عورت ہونا بڑی نعمت ہے …..کرداروں کی ماں بن کے لکھ …. قاتل کے کردار کو بھی ماں بن کر لکھ اور مقتول کے کردار کو بھی ماں بن کے لکھ…. تجھ پے آپ ہی معاملات کھلتے چلے جائیں گے …. کہ قاتل کیسے قاتل بنتا ہے اور مقتول کیوں مقتول بنتا ہے…..تصویر کے دونوں رُخ دیکھا کر اور جو تصویر لکھ اس کے دونوں رُخ نگاہ میں رکھ کر لکھ.

بولتی جا رہی تھیں اور میرا ہاتھ ان کے دو ہاتھوں کے بیچ بے دم ہوا رکھا تھا.

کہنے لگیں …… جب اشفاق صاحب کے ساتھ میں نے زندگی شروع کی تو وہ خود بھی بہت خوبصورت تھے اور خوبصورتی کے شوقین بھی تھے… اِدھر اُدھر بھی دیکھتے تھے ….. بڑا دل دکھتا تھا میرا….بڑی تلخی بھرتی جاتی تھی میرے اندر …. اشفاق صاحب کی خرابیاں ڈھونڈ ڈھونڈ نکالتی تھی میں …..پھر وقت گزرا …. بیٹا جوان ہوا …. اس کی شادی ہوئی …. بہو کو اس سے کچھ شکایات ہوئیں … بہو سچ ہی کہتی تھی مگر میں بیٹے کی خرابیوں پر پردہ ڈال دیتی تھی …. ایک دن میں نے اپنے آپ کو پکڑ لیا …. خود سے کہا …. دیکھا قدسیہ …. وہ پرایا بیٹا تھا، تو ان میں سے عیب نکالنا کتنا آسان تھا ….. یہ تیرا اپنا بیٹا ہے ….. اس کے عیبوں پر توُ پردہ ڈالتی ہے ….. کتنی دوغلی ہے توُ …..

کرداروں کو بھی ایسے انصاف کی ضرورت ہوتی ہے بچے ….. اور وہ انصاف صرف ماں کر سکتی ہے ……..

بانو قدسیہ کی آواز قطرہ قطرہ میرے دل کی رگوں میں اتر رہی تھی. گو کہ اس بات کے پرَت گزرتے وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ کھلتے رہے مجھ پر …..

میرے لیے یہ ملاقات بہت ہی ادھوری تھی اور میرا دل بھرا نہیں تھا. اگلی رات میں اور عائشہ صدیقہ داستان سرائے کے اس کمرے میں اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کے ساتھ بیٹھے تھے جس کے زمین سے چھت تک لگے شیلف کتابوں سے بھرے ہوئے تھے. سفید شفاف چاندنی کی فرشی نشست. کونے میں رکھی ایک اسٹڈی ٹیبل اور کرسی. اشفاق صاحب اس کرسی پر بیٹھے تھے اور میں اور عائشہ صدیقہ چاندنی پر بانو قدسیہ کے ساتھ.

گفتگو ادب سے آپ ہی آپ تصوف کی طرف مڑ گئی. اشفاق صاحب کو ان دنوں بابوں کی صحبت میسر تھی اور وہ ان کے حوالے دیتے ہوئے بات کر رہے تھے.

میرے لیے اس موضوع پر گفتگو کرنا اس لیے ممکن تھا کہ میرا جنم اور پرورش ہی بابوں کے ہاتھوں میں ہوئی تھی، جو خود بڑے عاشقِ رسولﷺ تھے اور جن کے سفرِ عشق کا مرکز ہی مدینہ منورہ تھا.

میں بھی اشفاق صاحب کو متاثر کرنا چاہ رہی تھی. سو اپنے بابا اور اماں اور قریبی بابوں کا زکر چھیڑ دیا. بات بابوں سے ہوتی ہوئی عشقِ رسولﷺ اور مدینہ منورہ کی طرف مڑ گئی.

یہ تمام گفتگو میرے اور اشفاق صاحب کے بیچ ہو رہی تھی. میرے قریب ہی بیٹھی بانو قدسیہ چپ تھیں. جیسے جیسے گفتگو کا موضوع بابوں سے ہٹ کر مدینہ منورہ اور عشقِ رسولﷺ کی طرف مڑتا گیا وہ جیسے بے چین سی ہونے لگیں. رہ رہ کر ہلکی سی جھرجھری ان کے وجود می‍ں ابھرتی اور میں چونک کر پریشان ہو کر انہیں دیکھتی. آنکھیں ان کی نم ہوتی گئیں. میں چاہ رہی تھی کہ بانو قدسیہ بھی بولیں. اس لیے براہِ راست انہیں مخاطب کرتی تو وہ نم آنکھیں یا تو جھکا دیتی تھیں یا بولنے کو ہونٹ کھولتیں مگر آواز ساتھ نہ دیتی اور آنکھیں اور بھی بھر آتیں. دو گھنٹوں کی ملاقات میں وہ اسی کیفیت میں چپ رہیں. اٹھتے وقت عائشہ صدیقہ کو گلے لگا کر کہا کہ تیری ماں نے تو دشتِ سوس لکھ کر خود کو بخشوا لیا.

میں شاید اشفاق صاحب کو تو متاثر کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی! انہوں نے تعریف بھی بہت کی میری کہ کُڑی کیا لکھتی ہے توُ! خوش رہ اور خوب کھل کے لکھ. وغیرہ وغیرہ. مگر بانو قدسیہ متاثر نہیں ہوئیں. صرف ایک ڈرامے حوّا کی بیٹی کے ایک سین کی تعریف کی جو ڈرامہ تھا ہی چار قسطوں کا. بانو قدسیہ کے منہ سے تعریف کی حسرت  اور اشفاق صاحب کی تعریف اپنی جگہ، مگر میں بانو قدسیہ کے عجیب سے سحر میں گرفتار اور ان کے ہاتھوں کا لمس اپنے ساتھ لیے حیدرآباد لوٹ آئی.

میرے والد سراپا عشقِ رسولﷺ تھے. انگریزی ادب، تصوف اور اسلامی تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے. مولویوں اور فتوے دینے والوں سے خود بھی دور رہتے تھے اور مجھے بھی دور رہنے کی تلقین کرتے تھے.

لاہور سے واپس آئی. بابا مدینے سے آئے ہوئے تھے. لاہور کی باتیں کرتے ہوئے میں نے اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ سے ملاقات کا ذکر کیا. دونوں کو انہوں نے پڑھا نہیں تھا مگر اشفاق صاحب کا نام سن رکھا تھا. میں نے مختصراً بانو قدسیہ کا تعارف کروانے کے بعد انہیں اپنا شوقِ ملاقات بھی بتایا اور اس ملاقات میں بانو قدسیہ کی خاموشی اور نم ہوتی آنکھوں کا زکر بھی.  اس مختصر گفتگو میں بابا کی آنکھیں ایکدم سے نم ہو گئیں. چہرہ سُرخ ہو گیا اور بھر آئی ہوئی آواز میں بولے …..تم عاشقِ رسولﷺ سے مل کر آئی ہو لڑکی…..یہ عاشقِ رسولﷺ ہونے کی نشانی ہے کہ اس کی آنکھوں میں آپﷺ کے ذکر پر ہی آنسو آ جاتے ہیں اور وہ بات نہیں کر پاتا. تم نے ان کے ہاتھوں کا جو لمس محسوس کیا ہے وہ اسی وجہ سے ہے……..

بس یہ ہماری برسوں پہلے کی ملاقات تھی اور برسوں ایک اور ملاقات کی حسرت ہی رہی. برسوں بعد ایک دن اچانک ایک فون آیا. میں بانو قدسیہ بول رہی ہوں.

….. فون تو انہوں نے کسی کام سے کیا تھا ….. مگر کہا یہ کہ …. یہ کام میں صرف تمہیں ہی کہہ سکتی ہوں ….

آواز میں اُسی نرمی کے ساتھ اب کے ہلکی سی اداسی بھی تھی. فون کے دوسری طرف وہ کہہ رہی تھیں ……بیٹا یہ کام تمہیں ہی اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ میری بات کوئی اور سمجھ نہ پائے گا ….تم میری طرح ماں بھی ہو اور لکھنے والی بھی……

وہ کام کوشش کے باوجود ہو نہ سکا …. جس کی انہوں نے سفارش کی تھی اسے آخر میں، میں بس اتنا ہی کہہ پائی کہ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ میں بانو آپا کو خوش نہیں کر سکی.

ہماری دوسری ملاقات 17 اکتوبر 2012 کو ہوئی تھی. بہت مشکل ہو چکا تھا ان تک پہنچنا. پتہ چلا کہ ملتی نہیں ہیں. انکار کر دیتی ہیں. صحت بھی ٹھیک نہیں ہے. بلآخر صدیقہ بیگم جو کہ ان کی سمدھن بھی لگتی ہیں کی وساطت سے ملاقات ممکن ہوئی. صدیقہ آپا خود پہلے جا کر ان کے پاس بیٹھ گئیں تاکہ ملاقات کے لیے انہیں ذہنی طور پر تیار کر سکیں. میں اور بشریٰ اعجاز داستان سرائے پہنچے. اندر داخل ہوئے. سائیں سائیں کرتا بڑا سا گھر. سنسان کمروں سے گزرتے ہوئے ہم بانو قدسیہ کے کمرے تک پہنچے. ان سنسان پڑے کمروں کی ویرانی کو بشریٰ اعجاز مڑ مڑ کر دیکھتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں ….. کہ ہائے ان کمروں میں کیسے کیسے لوگ آ کر بیٹھے اور کیسی کیسی محفلیں سجائیں اشفاق صاحب نے!

بانو قدسیہ کے کمرے میں پہنچے. کونے میں دیوار سے لگی رکھی کرسی پر شال میں لپٹی بیٹھی تھیں.

میں ان کے ساتھ لگی رکھی کرسی پر بیٹھ گئی. بیٹھتے ہی میں نے ان کا ہاتھ چوم لیا. پھر پوچھا …. آپ مجھے جانتی ہیں؟

مسکرا دیں ….. میرا ہاتھ اپنے رخسار کے ساتھ لگا لیا…. کیسے نہیں جانتی تمہیں! ….. نورالہدیٰ ہو …..

ساتھ ہی انہوں نے میری تھوڑی سی تعریف کردی. اس تعریف نے تصدیق کر دی کہ وہ مجھے اچھی طرح جانتی ہیں.

میں نے پوچھا آپ کو ہماری پہلی ملاقات یاد ہے. انہیں وہ یاد تھی.

میں نے غلطی سے اپنے اندر دبی برسوں پرانی بات کہہ دی کہ میرے والد نے آپ کے لیے کہا تھا کہ آپ عاشقِ رسولﷺ ہیں…..

میری بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ پوری جان سے لرز اٹھیں. ایکدم سے چہرہ دیوار کی طرف موڑ کر جیسے خود کو دیوار میں چھپا لیا. ساتھ ساتھ کہتی جاتی تھیں ….. نہ نہ …… توبہ توبہ ….. اللہ معاف کرے ….. نہ نہ ……

صدیقہ آپا نے مجھے گھوُر کر دیکھا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا. کچھ دیر کے بعد سنبھل کر انہوں نے میری جانب رُخ موڑا. سُرخ ہو رہی تھیں. میرا ہاتھ دوبارہ سے تھام لیا. میں نے بات بدلنے کو پوچھا دل چاہتا ہے لکھنے کو؟

بولیں ….. کام ختم ہو چکا ہے …. اب بس سامان باندھے انتظار میں بیٹھی ہوں کہ کب وہ مجھے بلاتا ہے ……

ایک عجیب سی جھجک محسوس ہو رہی تھی اب ان سے بات کرتے ہوئے. کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں!

کسی بات پر انہوں نے کہا کہ زندگی کا معاملہ جس شخص کی وجہ سے چل رہا تھا وہ بھی نہیں رہا…. سوچتی ہوں مگر لکھنے کو دل بھی نہیں چاہتا.

پھر اچانک انہوں نے خود ہی دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دیے ….. اللہ تمہیں دین اور دنیا میں سرخرو کرے ……

ساتھ ہی مجھے پیار کیا.

صدیقہ آپا نے طے شدہ پندرہ منٹ کے اختتام کا اعلان کیا اور میں اٹھ کھڑی ہوئی.

اس کے بعد 2014 کے آخری دنوں میں، میں نے انہیں الحمرا کی عالمی اردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے دوران ہال میں سب سے اوپر کی آخری نشست پر تنہا بیٹھے دیکھا. قریب ہی ان کی مددگار عورت بھی کھڑی تھی. گم سم سی. ارد گرد کی خبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر سی دکھ رہی تھیں. ان کی مددگار عورت نے پچھلے دروازے سے انہیں لا کر بٹھا دیا تھا. تقریب کے اختتام پر باہر نکلتے لوگ انہیں جھک جھک کر سلام کر رہے تھے. وہ گردن کو ہلکا سا ہلا کر جواب دے رہی تھیں. کوئی پوچھتا کہ مجھے پہچانتی ہیں؟ تو گردن ہلا کر ہاں بھی کہہ دیتیں.

میں بس قریب کھڑی انہیں دیکھتی رہی. نہ ملی. نہ کچھ کہا. نہ پوچھا کہ مجھے جانتی ہیں؟ ……جیسے وہ ٹھہرا ہوا خاموش سمندر ہوں اور کنارے پر کھڑی میں!

بانو قدسیہ سے میری آخری ملاقات 2015 میں عالمی اردو کانفرنس کے ایک سیشن میں ہوئی. پتہ چلا کہ وہ اس سیشن کی صدارت کر رہی ہیں مگر پہنچیں سیشن کے اختتام پر. وہیل چیئر پر دو مددگار عورتوں کے ساتھ. اصغر ندیم نے وہیل چیئر سمیت انہیں اسٹیج پر بلوا لیا. انہوں نے اسی پر بیٹھے بیٹھے صدارتی تقریر کی ……. کہنے لگیں ….دلوں کو کشادہ کرو ….. محبت کرو…..  خواہشات کو رشتوں پر ترجیح نہ دو …..یہ رشتے بڑی قربانیوں کے ساتھ بنتے ہیں …. انہیں ضائع مت کرو ….. مجھے دیکھو

… اشفاق احمد کے بعد میں بلکل تنہا ہوں! … اللہ سب بچیوں کو اشفاق احمد جیسا زندگی کا ساتھی دے …..ویسی محبت دے جیسی مجھے اشفاق احمد سے ملی …. بس یہی کہنا ہے مجھے …….

میں اسٹیج پر چلی گئی. اب کی بار ہاتھ چوم کر پھر پوچھا کہ آپ مجھے جانتی ہیں؟

فوراً میرا ہاتھ تھام کر بولیں …. ہاں نورالہدیٰ شاہ ہو…….تمہیں کیسے نہیں پہچانوں گی!

ساتھ ہی خود ہی ہاتھ اٹھا دیے اور وہی دعا دی کہ اللہ تمہیں دین اور دنیا میں سرخرو کرے.

انہیں اسٹیج سے نیچے اتارا گیا تو یہ دیکھ کر دل کو عجیب سی خوشی محسوس ہوئی کہ بہت سارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے گھیر لیا انہیں. ان کے ساتھ سیلفیاں بنائیں. گروپ فوٹو بنائے. انہیں جھک جھک کر سلام کیا. بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی مگر وہ پرسکون ہوئی وہیل چیئر پر بیٹھی رہیں. بڑی مشکل سے انہیں اس بھیڑ میں سے منتظمین نے نکالا. میں پیچھے کھڑی رہ گئی تھی اور انہیں زندگی کے اسٹیج سے اتر کر، مداحوں کی بھیڑ سے نکل کر، اعترافِ فن کے آخری دروازے سے نکل کر میری حدِ نگاہ سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوتا دیکھتی رہی.

الوداع بانو قدسیہ

میں بس اتنا کہوں گی ….. بہت کم انسانوں کو روح ملتی ہے. جسم سب کو ملتے ہیں. جسم گِدھ ہے. اس سے بھی اوپر اٹھ جائے تو راجہ گدھ ہے مگر روح اشرف المخلوقات ہے. وہ اشرف المخلوقات میں سے تھیں.

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments