سپریم کورٹ نے کہہ دیا : ’ایسے نہیں چلے گا‘


\"\" سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر بالآخر بول ٹیلی ویژن نے اقرار کیا ہے کہ وہ عامر لیاقت حسین کے پروگرام ’ایسا نہیں چلے گا‘ کی نشریات فوری طور پر بند کردے گا۔ تین رکنی بینچ نے بول نیوز کے ایگزیکٹو آفیسر عثمان شاہد کو متنبہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے فوری طور پر عدالت میں اس نفرت انگیز پروگرام کو بند کرنے کا اقرار نہ کیا تو بول ٹیل ویژن اور پروگرام کے میزبان عامر لیاقت حسین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔ اس طرح بول ٹی وی اور عامر لیاقت کو سندھ ہائی کورٹ سے جو چھوٹ ملی تھی، اب اس کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ۔پیمرا نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی قیادت میں سہ رکنی بینچ نے کی تھی۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔ عامر لیاقت پر یہ پابندی نفرت انگیز مواد نشر کرنے اور لوگوں پر کفر اور ملک دشمنی کے فتوے جاری کرنے پر عائد کی گئی ہے۔ پیمرا نے دو ہفتے قبل اس پروگرام کے مواد کے بارے میں موصول ہونے والی متعدد درخواستوں پر یہ فیصلہ کیا تھا۔ تاہم عامر لیاقت اور بول ٹی وی نے اس حکم کو تسلیم کرنے انکار کردیا تھا اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پروگرام نشر کیا تھا اور ایک درخواست دہندہ سماجی کارکن جبران ناصر کے خلاف پھر سے نفرت انگیز الزامات عائد کئے تھے۔

ابھی پیمرا اس بے قاعدگی پر بول ٹی وی کے خلاف پیمرا آرڈی ننس کے تحت کارروائی کا نوٹس تیار ہی کررہا تھا کہ بول نیوز نے سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ اس حکم میں پیمرا کو پابند کیا گیا کہ وہ بول یا عامر لیاقت کے خلاف کوئی کارروائی سندھ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔ اس دوران بے قاعدگی پر سندھ ہائی کورٹ نے پیمرا کے سربراہ ابصار عالم کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اب اس نوٹس کو بھی غیر مؤثر کر دیا ہے اور اس معاملہ کی مزید سماعت آئیندہ بدھ تک ملتوی کردی ہے۔ پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد کہا کہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ ملک میں نفرت پھیلانے والی باتیں کرنے کے بارے میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پیمرا آئیندہ بھی اس حوالے سے کسی بھی بے قاعدگی کا سخت نوٹس لے گی۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کو آئین ، قانون اور قومی ایکشن پلان کی کامیابی قرار دیا۔

ابصار عالم کی یہ باتیں پیمرا کے دائرہ اختیار اور ملک میں میڈیا نشریات پر ہونے والی بے قاعدگیوں کے حوالے سے درست ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا پیمرا کو کس حد تک ملک کے تیزی سے فروغ پاتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے مواد کو سنسر کرنے کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔ پیمرا حکومت اور مالکان کے درمیان الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے ایک انتظام کا نام ہے۔ اس ادارے کو خود مختار حیثیت حاصل ہے لیکن اس کے چیئر مین کا تقرر حکومت وقت کرتی ہے اور وہ بھی برسر اقتدار پارٹی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ ملک کے دیگر خود مختار اداروں کی طرح پیمرا کی خود مختاری بھی محدود اور دکھاوے کی حد تک ہے۔ اسی لئے موجودہ حکومت نے بھی اپنے ایک چہیتے صحافی کو اس اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے عامر لیاقت کے پروگرام ’ ایسے نہیں چلے گا‘ پر عبوری پابندی پر عمل کروا کے ایک مستحسن اقدام کیا ہے۔ اس پروگرام میں جس قسم کی گفتگو کی جاتی تھی اور لوگوں کے عقائد اور نظریات کے بارے میں جس طرح الزامات کی بوچھاڑ ہوتی تھی ، اسے کسی بھی مہذب معاشرے میں قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ عامر لیاقت جنوری میں لاپتہ کئے جانے والے بلاگرز پر الزامات کی عائد کرنے سے پہلے بھی مختلف لوگوں پر جن میں دوسرے چینلز پر ٹاک شو ز کرنے والے میزبان اور صحافی بھی شامل تھے، الزام تراشی کرنے اور پھبتیاں کسنے کا رویہ اختیار کرتے تھے۔ ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں پروگرام ’ ایسے نہیں چلے گا‘ کے میزبان نے تمام پیشہ وارانہ اور اخلاقی حدود کو پھلانگ لیا تھا۔ تاہم ملک میں چونکہ ہتک عزت کے حوالے سے قوانین کمزور ہیں اور عدالتیں اس حوالے سے کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہیں ،ا س لئے عامر لیاقت بے دھڑک اس طریقہ کار کو اپنی مقبولیت کا سبب بنانے کی کوشش کرتے رہے تھے۔

تاہم ایک ایسا ملک جہاں مذہب کے بارے میں لوگ بہت جلد اشتعال میں آجاتے ہیں اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ غلط الزامات کے نتیجے میں لوگوں کی جان لے لی گئی، بعض لوگوں کا نام لے کر ان پر اسلام اور ملک دشمنی کے الزام عائد کرنا، نہایت خطرناک اور افسوسناک فعل تھا۔ ملک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے قوم ایکشن پلان بنایا گیا ہے۔ حکومت اس منصوبہ کے تحت نفرت پھیلانے کے ہتھکنڈوں کی روک تھام کرنا چاہتی ہے۔ اس کا اطلاق عام طور سے مساجد اور جلسے جلوسوں میں کی جانے والی تقاریر پر ہوتا ہے۔ تاہم اگر ٹیلی ویژن پر کسی ٹاک شو کا میزبان بھی ویسا ہی لب و لہجہ اختیار کرے اور حب الوطنی یا مذہب دوستی کے نام پر دوسروں کے خلاف بے بنیاد اور اشتعال انگیز باتیں کرنا شروع کردے تو اس کا اثر کسی مسجد یا کسی ایک جلسہ میں کی گئی تقریر سے کہیں زیادہ ہو تا ہے۔ ٹیلی ویژن تک کروڑوں لوگوں کی رسائی ہوتی ہے ۔ پروگرام نشر ہونے کے بعد یہ یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہو تا ہے۔اس طرح کوئی ٹیلی ویژن پروگرام پروپیگنڈا کا مسلسل ذریعہ بنا رہتا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک میں نفرت پر قابو پانے اور اسے مذہب یا ملک کی محبت کے نام پر پھیلانے والوں کی گو شمالی کرنے کے نقطہ نظر سے بے حد اہم ہے۔ کسی بھی ملک کی عدالتیں اس قسم کی بے اعتدالی اور قانون شکنی کی اجازت نہیں دے سکتیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا پاکستان کا میڈیا باوسیلہ اور طاقت ور ہونے کے باوجود اس قدر کمزور اور کم حوصلہ ہے کہ اس کی بے قاعدگیوں پر کنٹرول کرنے کے لئے سرکاری ادارے کو با اختیار بنانا ضروری ہے۔ اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو ہی کسی ایک پروگرام کی غلط نشریات پر کنٹرول کرنے کے اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ملک میں آزادی اظہار کے حوالے سے بھی ایک سنگین اور سنجیدہ سوال سامنے لاتی ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی حق ، ذمہ داریاں پوری کئے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی اظہار کے حوالے سے بھی یہ اصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ صحافی اور میڈیا کے ادارے ملک کا باشعور طبقہ مشتمل ہوتے ہیں ، اس لئے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ اس حق کی حفاظت کے لئے اپنی صفوں میں ایسے عناصر کا سراغ لگانے اور ان سے نجات حاصل کرنے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں گے یا کوئی ایسا انتظام کریں گے کہ اس پیشہ کی حرمت اور تقدس پر بھی حرف نہ آئے۔ اور صحافی، مبصر اور تجزیہ نگار پوری آزادی اور حوصلے سے اپنی بے لاگ رائے کا اظہار بھی کرسکیں۔

دنیا کے بیشتر ملکوں میں یہ طریقہ کامیابی سے آزمایا جا چکا ہے۔ وہاں عدالتوں کو ٹیلی ویژن یا ریڈیو نشریات کے مواد کو کنٹرول کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی ایسے معاملات کا فیصلہ جج کرتے ہیں۔ یہ معاملہ اسی پیشہ سے متعلق لوگ خالص میرٹ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اگر غلطی سے کوئی لغزش ہوتی ہے تو متعلقہ شخص یا ادارہ معافی مانگ لیتا ہے اور نامکمل خبر کو اصل صورت میں نشر کردیتا ہے۔ اگر جان بوجھ کر کوئی اس قسم کی حرکت کرتا ہے تو اس کی سختی سے سرزنش کی ہوتی ہے اور صحافت کو کالی بھیڑوں سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

بول ٹی وی اور عامر لیاقت کے معاملہ میں پیمرا اور اس کی حکم عدولی پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی ہے۔ یہ فیصلہ اگرچہ نفرت کی روک تھام کے لئے حوصلہ افزا ہے لیکن ملک میں صحافتی اقدار و روایات کی کمزوری کی چغلی بھی کھاتا ہے۔ ملک کے تمام صحافیوں ، ان کے نمائیندوں اور میڈیا ہاؤسز کو کمرشل مفادات سے قطع نظر اس پہلو پر غور اور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ یا پھر پاکستان کے میڈیا اداروں اور صحافیوں کو حرف کی حرمت اور آزادی صحافت کی بات کرنا ترک کر دینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments