اجمل خٹک : تضادات سے بھری سحر انگیز شخصیت


\"\"

وہ چار آنے جیب میں لے کر اکوڑہ خٹک سے سیاسی سفر پر نکلے تو آدھی دنیا دیکھ ڈالی۔ انہوں نے اس دوران عام آدمی سے لے کر سربراہان مملکت، نامور سیاستدانوں، شہرہ آفاق ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں کیں اور ساٹھ سال کی سیاسی اور ادبی جدوجہد کے بعد جب دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو ان کی جیب میں چار آنے بھی نہیں تھے۔

ذوا لفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں لیاقت باغ راولپنڈی میں اپوزیشن کے جلسے پر حکومتی سرپرستی میں حملہ ہوا تو اس وقت اجمل خٹک نیشل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں جب ایک کارکن کو گولی لگی اور اس نے اجمل خٹک کی بانہوں میں زندگی کی بازی ہار دی تب وہ یہ کہہ کر کابل جلا وطن ہوگئے کہ یہ ملک اب مزید رہنے کے قابل نہیں رہا۔

اٹھارہ سال افغانستان میں رہ کر انہوں نے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے، داؤد خان کی حکومت، ثور انقلاب، سوویت یونین کی فوج کی افغانستان آمد اور اس کی پھر شکست و ریخت، پاکستان میں ستر کی دھائی میں پشتون نوجوانوں کی گوریلا جنگ ان سبھی کو انہوں نے نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ وہ ان میں اہم کردار کے طور پر بھی شامل رہے۔

\"\"

اس سے قبل اجمل خٹک مرحوم نے خدائی خدمت گار تحریک کے کارکن کے طور پر انیس سو بیالیس میں ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پھر جب انیس سو سینتالیس میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسی اجمل خٹک نے ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے پاکستان کی عظمت میں پشتو ترانے لکھے اور افغانستان کے خلاف پروپیگنڈہ پروگرام کے سکرپٹ لکھتے رہے۔

لیکن پھر ان کی شخصیت میں یکلخت ایسی تبدیلی آئی کہ پاکستان کے ترانے لکھنے والے اجمل خٹک پشتونستان کے ترانے لکھنے لگے۔ ریڈیو پاکستان پشاور پر افغانستان کے خلاف پروپیگنڈہ پروگرام کی سکرپٹ لکھنے والے اجمل خٹک پھر جلاوطنی کے دوران ریڈیو افغانستان پر پاکستان کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔

تضادات سے بھر پور اجمل خٹک کی شخصیت اتنی سحر انگیز بھی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ان کی تہہ در تہہ شخصیت کی جال میں ایسے الجھ جاتے کہ بہت دیر بعد آپ کو پتہ چل جاتا کہ آپ کسی شکاری کے دام میں پھنس چکے ہیں۔

ایک مسلمان پشتون گھرانے میں پرورش، خوشحال خان خٹک کا شاعرانہ رنگ، باچا خان کی سیاسی تربیت، مارکسسزم، جامعہ ملیہ دہلی کا ماحول، ترقی پسند ادب کی چھاپ ان کی شخصیت میں اس طرح رچ بس گئی تھی جس کا حتمی نتیجہ ایک متضاد شخصیت کی ہی تشکیل پر منتج ہوسکتا تھا۔

سیاسی جوڑ توڑ کے اتنے ماہر کہ سیاسی اتحاد بنانے کے لیے نکل پڑتے تو آگ اور پانی کو یک جان دو قالب کرلیتے۔ دو دشمنوں کو کھینچ کھینچ کر مذاکرات کی میز پر بٹھاتے اور چند گھنٹوں بعد دو دشمن سیاستدان دوستوں کی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مسکراتے ہوئے کمرے سے یوں نکلتے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور خود اجمل خٹک اپنے ہونٹوں پر ایسی طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے نمودار ہوتے کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ یہ سب تو میرا ہی کمال ہے۔

سیاسی کارکنوں کی محفل میں پیر پھیلاکر اپنے آدھے چہرے کو اپی سفید ٹوپی سے اس طرح چھپاتے کہ گویا وہ سو رہے ہیں اور محفل میں جاری بحث سے وہ بالکل لاتعلق ہیں لیکن جب اسی محفل میں ان کی ذات یا پالیسی کے حوالے سے کوئی بات کرتا تو وہ اپنی بائیں آنکھ کھول کر اس شخص کو کچھ اس طرح گھورتے کہ وہ پانی پانی ہوجاتا لیکن وہ کچھ کہے بغیر اپنی آنکھ دوبارہ بند کر لیتے۔

اجمل خٹک سماجی نفسیات اور ہپناٹزم کے ماہر تھے اسی لیے انہیں جوڑ توڑ، مذاکرات کی میز پر اپنے مخالف کو مشکل صورتحال سے دو چار کرنے، میل ملاپ میں لوگوں کو اپنی سحر میں گرفتار کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔

اجمل خٹک نے سینکڑوں سال سے جاری پشتو شاعری کی روایت کو توڑتے ہوئے اس میں طبقاتی، انقلابی اور مزاحمتی رنگ کچھ اس انداز سے شامل کیا کہ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’د غیرت چغہ‘ ( غیرت کی پکار) شائع ہوا تو اس نے پشتون نوجوانوں کے خون میں ایسی گرمی پیدا کردی کہ انہیں ایک آزاد پشتون وطن کی منزل بہت قریب نظر آنے لگی۔ ان کی’جنت‘ کے عنوان سے ایک نظم انقلابی نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی تھی۔ نثری ترجمہ: ( میں نے اپنےگریباں میں جھانک کر دیکھا، تو میرا دل آسمان کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا، میں نے اس کے چند الفاظ سنے، وہ کہہ رہا تھا، کہ اے لا مکان کے مالک، اپنے مکان میں اپنا اختیار جنت ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر اس پاگل پنے کے نام پر، اگر سولی ہے تو سولی اور اگر آگ ہے تو آگ جنت ہے۔ )

انہوں نے ان نوجوانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے طور خم کے راستے بہت جلد ’سرخ ڈولی‘ لے کر آئیں گے مگر جب وہ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو کی عام معافی کے اعلان سے استفادہ کرتے ہوئے ’خالی ہاتھ‘ واپس لوٹے تو ان کے کسی شاعر دوست نے ایک نظم لکھی جو بہت مشہور ہوئی تھی کہ’ تم نہ بہار اور نہ ہی پھول لا سکے، تم جھوٹے ہو۔ ‘

پانچ سال قبل جب میں نے ایک انٹرویو کے دوران اجمل خٹک کو ’سرخ ڈولی لانے‘ کا وعدہ یاد دلایا اور ان کے خلاف لکھی گئی نظم کا حوالہ دیا تو انہوں نے جواب میں محض اپنا ایک شعر سنایا کہ ’خٹک تادمِ مرگ بار بار تمہاری راہ تکتا رہا، تم آ بھی رہے تھے مگر راستے پُر پیچ نکلے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments