کیا کشمیر کا مسئلہ وعظ و تلقین سے حل ہو گا؟


\"\"

یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

نیلام گھر میں یہ شعر پہلی مرتبہ سنا، طارق عزیز بہت جوش سے اسے پڑھتے، نعرے لگواتے، قوم کا خون گرماتے اور ایک گھنٹے کا پروگرام ختم ہو جاتا۔ ہم لوگ صبح سکول جاتے اسمبلی ہوتی، وہاں پہلے لب پہ دعا آتی، پھر ترانہ ہوتا اس کے بعد چھوٹی موٹی بزم ادب ہوتی، وہاں بھی یہی شعر چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے مکے بنا کر پڑھے جاتے۔ کافروں کی نفرت سے رواں رواں لرز اٹھتا اور تھوڑی دیر میں کلاس ورک کرنے بیٹھ جاتے۔ یہ سب ان دنوں کی باتیں ہیں جب کشمیر کیا پوری دنیا خوب صورت نظر آتی تھی۔ آنکھ کے کیمرے کا لینز چھوٹا تھا اور بہت سے منظر فٹ نہ ہو سکنے کی وجہ سے بہت بڑے دکھائی دیتے۔

تو ہم لوگ پرجوش اس لیے ہو جاتے کہ ہمیں یقین ہوتا تھا۔ ہمارا یقین تھا کہ پاکستان کا حصول صرف ایک نعرے کی مدد سے ممکن ہوا اور وہ نعرہ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ اللہ تھا۔ اس بارے میں کوئی دوسری رائے رکھنے والا اول تو ہمارے سامنے ہوتا ہی نہیں تھا۔ اگر کبھی کہیں سے کوئی سرحد پار فلم یا ڈرامہ ایسا کوئی منظر دکھائی دیتا، جو سوچوں کا ساتھ نہ دیتا، تو ہم بہت آرام سے اسے دشمن کا پروپیگنڈا سمجھ کر مسترد کر دیتے تھے۔

پھر ہم لوگ تھوڑے بڑے ہوئے تو مقابلے ہوا کرتے تھے، سکولوں کی سطح پر، تقریری مقابلے سمجھ لیجیے۔ وہاں ہم لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر اور چہرے کو لال کر کے بہت سے شعر پڑھا کرتے جن میں نیل کے ساحل، کاشغر کی خاک، دین مسلسل، خودی کی بلندی، انسان کی عظمت، حریت فکر، انتھک جدوجہد، کشتیاں جلانا، حق کی فتح ہونا اور نہ جانے کیا کیا ہوا کرتا تھا۔ یہ دن بھی گذر گئے۔

پڑھنے کا شوق ہوا تو اشتیاق احمد سے شروع کیا۔ تعلیم و تربیت، نونہال یہ سب بھی گھر میں آتا تھا۔ بعد میں پھول آنا شروع ہو گیا۔ اس دوران یوں ہوا کہ احساس ہونا شروع ہو گیا، وہ یہ کہ بھئی یہ کہانیاں نری کہانیاں نہیں ہیں، یہ کھیل کھیل میں کوئی نہ کوئی سبق دیا جا رہا ہے۔ عمر بہت کم تھی، لیکن جہاں کہیں کسی کہانی میں ایسی بو پائی جاتی، اسے وہیں چھوڑ اگلا صفحہ پلٹ لیا جاتا۔ تعلیم و تربیت بند ہوا یا ہمارے یہاں شاید نہ ملتا ہو، پھول اور نونہال رہ گئے۔ دونوں ماشاللہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے کہ قوم کے معمار نیک پاک راست گو اور خوش چلن ہوں۔ واحد رسالہ آنکھ مچولی تھا جس میں یہ نصیحت بازی کچھ کم تھی، وہ چلتا رہا، باقی سب بند ہو گئے۔

پھر طارق اسمعیل ساگر اور مظہر کلیم کا دور آیا۔ عمران سیریز میں چوں کہ اصلاحی مقاصد بہرحال کوئی نہیں تھے یا محسوس نہیں ہوتے تھے، تو وہ ٹکا کر پڑھیں۔ طارق اسمعیل ساگر کے بھی پندرہ بیس ناول پڑھنے کے بعد احساس ہونا شروع ہو گیا کہ استاد یہاں بھی وہی سب کچھ ہے جس سے پیچھا چھڑا کر نکلے تھے۔ پھر آخر میں اردو ڈائجسٹ بچا، خدا نے اس نعمت کو بھی جلدی ختم کروا دیا۔
تو اس پورے سفر میں ایک چیز دل چسپ رہی۔ سرکاری مضامین کبھی بھول کر بھی نہیں دیکھے، نہ تصویریں دیکھیں۔ پھول میں کسی نہ تقریب کے قصے ہوتے تھے، ایڈیٹر بھائی جان نے یہ کیا وہ ادھر گئے، بچوں نے یہ کہا اور ایک نصیحت بھرا انجام ہوتا تھا۔ نونہال میں بھی اسی طرح کوئی نہ کوئی تقریب کا ذکر ہوتا تھا اور محترم برکاتی صاحب یا حکیم صاحب بچوں کو نصیحت کر رہے ہوتے تھے، وہ بھی تمام صفحات ضائع جاتے۔ تعلیم و تربیت میں اکثر کسی سکول کی سرگرمی کا احوال ہوتا تھا، وہ بھی بھرتی لگتی تھی۔ اردو ڈائجسٹ کا اداریہ اور وہ شروع میں بہت سی تصاویر والے پروگرام، وہ بھی کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہی معاملہ فتح و شکست اور لڑنے بھڑنے والی کہانیوں کا تھا۔ یہ سب کیوں تھا؟

اس کے برعکس سب رنگ شروع سے آخر تک پورا چاٹا جاتا تھا، سسپنس، جاسوسی، سرگزشت، شعاع، پاکیزہ اور خواتین ڈائجسٹ کے شروع اور آخر کے صفحات وہ بھی سب پورے پڑھے جاتے، آنکھ مچولی بھی مکمل، عمران سیزیز بھی پہلے صفحے سے آخر تک مکمل کی جاتی تھی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟

اس سب کی وجہ شاید یہ تھی کہ بچوں کے ادب اور نوجوانوں کے ادب میں جس جس نے جہاں جہاں اصلاحی مقاصد، وعظ و نصیحت یا کوئی بھی ایسا کام شروع کرنے کی کوشش کی، اس سب سے دل اچاٹ ہوتا گیا۔ اور یہ فطری عمل ہے۔ کہانی یا تو ہوتی ہے، یا نہیں ہوتی۔ کہانی اس لیے نہیں ہوتی کہ اس سے کوئی نتیجہ نکلے یا قوم کے بچے اس سے کوئی نیک اثر لیں۔ وہ تو بس ہوتی ہے اور اگر اسے پڑھ کر اچھا لگے تو وہ شاندار کہانی کہلاتی ہے۔

ہم نے کشمیر کا مسئلہ اسی طرح حل کیا ہے۔ بچپن سے پانچ فروری کو ایک ہی طرح کے مخصوص ڈرامے دکھائے جاتے، خبروں میں وہی دو تین چہرے ہوتے، حکومت کوئی بھی ہو، وہی سٹیریو ٹائپ بیانات ہوتے، چند جلسوں کا احوال، چند ریلیوں کی جھلک، چند مولانا، چند وکیل، چند رکن کشمیر کمیٹی کے اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ وغیرہ کہہ کہلوا کر مکو ٹھپ دیا جاتا۔ تو ہوا یہ کہ ایک ہی طرح کی چیزیں دکھا دکھا کر بچوں کو اس مسئلے سے بھی جذباتی طور پر دور کر دیا گیا۔ وہ بچے پھر بڑے تو ہونے تھے۔

اب یہ نسل جانتی ہے کہ اصولی طور پر کشمیر کا الحاق ہمارے ساتھ ہونا تھا۔ باقاعدہ دکھ میں مبتلا ہوتی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم ہوتا ہے۔ انہیں بھائی سمجھتی ہے، اپنے جیسے انسان سمجھتی ہے۔ لیکن، یہ جانتی ہے کہ یہ مسئلہ مستقل طور پر ایوان اقتدار کے سرد خانوں میں دفن رہتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر اسے نکالا جاتا ہے، جھاڑا پونچھا، ورق لگا کر پیش کیا، ضرورت ختم ہوئی تو پھر جا کر وہیں کسی طاق میں دھر دیا۔

وہ لوگ کیا چاہتے ہیں، ان کے دکھ درد کیا ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں، وہ کس لیڈر کو اپنا مخلص سمجھتے ہیں، وہ اس کیس کو چلانا کس طرح چاہتے ہیں، پاکستان یا بھارت کے لیے موجودہ سٹریٹیجیک حالات میں کشمیر کی اہمیت کیا ہے، یہ سب باتیں اگر کسی چینل یا اخبار میں آتی بھی ہیں تو لوگ باگ سرسری نظر ڈال کر ہٹ جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے دونوں حکومتوں کا موقف کیا ہو گا۔ اس بیچ نقصان کشمیر کا ہو رہا ہے، کشمیریوں کا ہو رہا ہے۔

ڈرامے، فلمیں، گانے، کہانیاں، افسانے، ناول، شاعری، بیانات۔ متنازعہ زمینوں کے مسائل یوں حل ہونا مشکل ہے۔ ورنہ کم از کم محمود درویش اپنی زندگی میں آزادی دیکھ جاتے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments