راجہ گدھ سے علی پور کا ایلی تک


\"\"

میں اس دور اور ماحول میں بڑا ہوا ہوں جہاں اردو ادب سے وابستگی دور دور سے بھی مجھے چھو کر نہیں گذری۔ حالانکہ اکثر سنتا رہا ہوں کہ میرا تعلق جس خاندان سے ہے اس میں نامور شعرا، ادیب اور لکھاری جنم لے چکے ہیں۔ ان کی اکثریت وفات پاچکی ہے اور جو حیات ہیں وہ آج بھی کسی نہ کسی طرح اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ مگر میری ان سے ملاقات رسماً ہی رہی تھی۔ نہ کبھی ان سے ادب کے بارے میں کوئی سوال کیا نہ ہی کبھی سوال کرنے کا خیال ذہن کو چھو کر گذرا۔ کیونکہ میری مادری زبان سندھی ہے اس لیے سندھی گفتگو میں فراوانی حاصل ہے۔ تعلیمی لحاظ سے میں کبھی ذہین شاگرد نہیں تصور کیا گیا اور نتیجتاً مجھے گزارے لائق ہی سندھی لکھنا آتی ہے۔ اردو کو اڑدو اور انگلش کو ہنگلش تک ہی سمجھا ۔ کسی بھی قسم کی کتاب، شعر اور ادب کا نام سن کر ہی طبیعت بگڑنے لگتی۔

ایک سال پہلے مزاج میں انقلابی تبدیلی نے جنم لیا۔ نجانے کیوں۔ کیسے مگر ایک کھچاؤ ضرور پیدا ہوا۔ یہ کھچاؤ ایک طلب کی صورت اختیار کرگیا۔ مگر طلب کس شے کی تھی اس سے میں خود انجان رہا۔ کچھ عرصے کے بعد میری ملاقات میری استاد سے ہوئی جنہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اردو ادب کی کتابوں کا مطالعہ کروں۔ بات میرے لیے کوفت انگیز تھی مگر مجبوراً چند ایک کتابیں لا کر گھر میں پٹخ دیں۔ کئی دن گذر گئے۔ یہ کتابیں میز کی زینت بنی رہیں۔ جس کے بعد انہوں نے الماری میں قیام کیا اور آہستہ آہستہ ان کے اوپر غبار جمتا رہا۔

جیسے میرے پاس کئی سوالوں کے جواب ابھی موجود نہیں ہیں اسی طرح میرے پاس اس سوال کا جواب بھی موجود نہیں ہے کہ میں نے کیوں الماری کھول کر اس میں سے راجہ گدھ نکال کر پڑھنا شروع کی۔ بہرحال جب چند صفحوں کا مطالعہ کیا تو کئی ایسے الفاظ سامنے آئے جن کی آواز سے میری سماعت انجان تھی۔ نتیجتاً لغت بھی لانی پڑی اور یوں آہستہ آہستہ میں نے اپنی پہلی کتاب ختم کی۔

راجہ گدھ سے پہلے میں نے ایک رائے اردو ناولوں کے لیے قائم کر رکھی تھی۔ اس رائے کے مطابق اردو ناولوں کی کہانی لڑکے لڑکی کے رومانس۔ چند مجبور عورتوں کے گھریلو مسائل ۔ ان کے دکھ درد۔ شوہر کے ظلم و ستم کی داستان وغیرہ وغیرہ کے گرد گھومتی ہوگی۔ جب راجہ گدھ ختم ہوا تو دس منٹ تک میں خاموش رہا میرے سامنے میری رائے کی دھجیاں ہوا میں اڑ رہی تھیں۔ میں خود اپنے سامنے کھڑا ہو کر خود کا منہ چڑا چڑا کر مذاق اڑا رہا تھا۔ میرا عکس مجھے بیوقوف بیوقوف کہہ رہا تھا۔ کئی ’میں‘ مجھے بہت ساری گڈمڈ آوازوں میں بیوقوف کہتے۔ کوئی کہتا آدھی زندگی برباد کرنے کے بعد آئے ہو۔ کوئی کہتا ہو نا احمق۔ کوئی ایک ٹانگ کھینچتا تو کوئی بازو سے۔ دس منٹ کے بعد یہ سب لوگ چلے گئے۔ کمرے میں ہم دونوں موجود تھے میں اور راجہ گدھ۔ احساس ندامت کے ساتھ ساتھ میرے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ایک خلا جو زندگی میں تھا وہ کتاب نے پر کردیا جس کے بعد میں نے کئی کتابیں پڑھیں جن کی وجہ سے زندگی کو دیکھنے کا ایک الگ ہی زاویہ بنتا رہا۔

چند لمحے پہلے میں نے ممتازمفتی کی ’علی پور کا ایلی‘ پڑھ کر ختم کی ہے۔ اس کتاب کو ختم کرنے کے بعد بھی میرے سامنے کئی ’میں‘ بیٹھے ہیں۔ مگر آج یہ نسبتاً خاموش ہیں۔ ’علی پور کا ایلی‘ بھی مجھے میری استاد نے دیا تھا۔ 933 صفحوں کا یہ ناول پڑھتے ہوئے یوں لگتا تھا کہ یہ ناول ایک دریا ہے جس میں میری ذات بہتی چلی جاتی ہے۔ کبھی میں علی پور چلا جاتا تو کبھی لاہور پہنچ جاتا کبھی شہزاد بن جاتا تو کبھی سادی اور کبھی ایلی کو اپنے سامنے دیکھتا۔ کتاب ختم ہوچکی ہے مگر کردار ہمیشہ کے لیے زندہ رہ گئے ہیں۔ شاید ’علی پور کا ایلی‘ نے میرے تصور کے بہت سارے ’مجھ‘ کو اس لیے خاموش کرا دیا ہے کہ ممتاز مفتی نے کتاب لکھی ہی اس طرح ہے کہ کتاب ختم ہونے کے بعد اس کے سارے کردار آپ کے ساتھ رہتے ہیں اور یہی کردار آپ کے اندر موجود کبھی نہ پوچھے گئے سوالوں کے جواب ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments