نواز حکومت کامیاب، غربت آدھی رہ گئی: معتبر غیر ملکی میڈیا


\"\"

بین الاقوامی میڈیا میں وال سٹریٹ جرنل اور بلومبرگ کو معتبر معاشی تجزیہ کار سمجھا جاتا ہے اور ان کے تجزیات کو اہم قرار دیا جاتا ہے۔ یکے بعد دیگرے دونوں معتبر اداروں نے پاکستان میں تیزی سے غربت کے خاتمے کے دعوے شائع ہوئے ہیں۔ اگر یہ دعوے یا سروے وغیرہ کسی پاکستانی ادارے کے ہوتے تو اس بات پر اتفاق کر لیا جاتا کہ یہ رپورٹ ضرور پیسے دے کر بنوائی گئی ہے مگر ان دونوں اداروں کی ساکھ کو خریدنا مشکل ہے اس لئے ان کی رپورٹوں کو وزن دینا پڑے گا۔

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ دلچسپ ہے۔ اس میں نیسلے پاکستان کے سی ای او برونو اولیر ہوئیک کا قول دیا گیا ہے کہ ’’پاکستان ایک ہاٹ زون میں داخل ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صارفین کی جانب سے طلب اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ جلد ہی قابو سے باہر ہوجائے گی۔ نیسلے کی سیل پچھلے پانچ سال میں دوگنی ہو کر ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے‘‘۔

اسی رپورٹ میں پچھلے سال آفتاب ایسوسی ایٹ فرم کی ایک غیر شائع شدہ ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں قریب 38 فیصد آبادی مڈل کلاس پر مشتمل ہے جب کہ اپر کلاس یا امرا کی تعداد چار فیصد کے قریب ہے۔ یہ مل کر کل آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد بن جاتے ہیں، یعنی جرمنی یا ترکی کی آبادی سے بھی زیادہ۔ اس ریسرچ کے مطابق ایسے مڈل کلاس قرار دیے جانے والے گھرانوں کے پاس عموماً موٹر سائیکل، کلر ٹی وی، فریج، واشنگ مشین ہوگی اور کم از کم گھر کے ایک فرد نے سولہ سال کی تعلیم مکمل کر رکھی ہوگی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسے گھرانے جن کے پاس موٹر سائیکل ہے ان کی تعداد 2014 میں 34 فی صد تک پہنچ گئی ہے جب کہ یہی تعداد 1991 میں محض 4 فی صد تھی۔ اسی عرصے میں واشنگ مشین رکھنے والے گھرانوں کی تعداد 13 فی صد سے بڑھ کر 47 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار بین الاقوامی سرمایہ داروں کے لئے کشش کا باعث بن رہے ہیں۔

\"\"

وال سٹریٹ جرنل کے اس مضمون میں ورلڈ بینک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2002 سے 2014 کے دوران پاکستان میں غربت میں حیرت انگیز طور پر کمی واقع ہوئی ہے اور غربت کی شرح آدھی ہو کر کل آبادی کی 29 فی صد تک آگئی ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کے بعد اب بلومبرگ میں بھی ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کے مصنف جارج میسن یونیورسٹی کے ٹائلر کاون ہیں جو کہ بلومبرگ ویو اور نیویارک ٹائمز میں معیشت پر لکھتے ہیں۔ ممتاز جریدے اکانومسٹ کے ایک سروے میں ان کو گزشتہ دہائی کے ذی اثر ترین معیشت دانوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ہر سال میں ایک ایسی معیشت کا انتخاب کرتا ہوں جسے اتنی قدر نہیں دی جا رہی ہے جتنی کہ وہ درحقیقت رکھتی ہے، اور ایک ایسی معیشت منتخب کرتا ہوں جسے اس کی حقیقی قدر سے کہیں زیادہ اہمیت دی جا رہی ہو۔ پاکستان کی ساکھ کچھ اتنی اچھی نہیں سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان کے بیشتر اشاریے مثبت ہیں۔ مثلاً سٹاک مارکیٹ کی قدر میں پچھلے برس 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جی ڈی پی میں اضافہ چار فیصد کی رینج میں رہا ہے اور اس وقت پانچ فیصد تک ہو سکتا ہے۔ سنہ 2002 سے اب تک غربت آدھی رہ گئی ہے۔ پچھلے تین برس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد میں دو تہائی کمی ہوئی ہے۔ 1991 میں 13 فیصد پاکستانی گھرانوں کے پاس واشنگ مشین تھی اور اب 47 فیصد کے پاس ہے۔ ملک میں انفلیشن کا مسئلہ نہیں ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ ہاں مسائل بھی پریشان کن ہیں۔ معیار تعلیم گھٹیا ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور ٹیکسٹائل پر ان کا بہت زیادہ انحصار ہے۔ لیکن ایسے ہر مسئلے کا حل موجود ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک کے مزید ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

وال سٹریٹ جرنل اور بلومبرگ کے ان مضامین کے مطابق تو غربت میں اتنی تیزی سے کمی ہو رہی ہے کہ موجودہ حکومت کی حمایت میں بھی پچھلے انتخابات کی نسبت زیادہ اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے اور ہم عام پاکستانیوں کے لئے خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ملک غربت کی دلدل سے تیزی سے نجات پا رہا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments