صوفی غلام مصطفیٰ تبسم: چند یادیں


سکول کے زمانے میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب کے نام سے شناسائی ہوئی۔ ان کی بچوں کے لیے لکھی نظمیں پڑھنے کا موقع ملا اور ان سے محظوظ ہوئے۔ میں آٹھویں جماعت میں تھا جب 1965 کی جنگ کا آغاز ہوا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے جنگی ترانے سن کر خون میں حرارت بڑھ جاتی اور پاک فوج کے ساتھ محبت کا جذبہ فزوں تر ہو جاتا۔ ایک دن ریڈیو پاکستان سے سارا دن یہ اعلان نشر ہوتا رہا کہ آج شام ملکہ ترنم نور جہاں صوٖفی غلام مصطفیٰ تبسم کا لکھا ہوا گیت گائیں گی۔ شام کے وقت ریڈیو کے پنجابی پروگرام میں ملکہ ترنم کی آواز میں یہ گیت نشر ہوا: وے میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں۔ اس کے دو تین دن بعد ملکہ ترنم ہی کی آواز میں صوفی صاحب کا ایک اور گیت نشر ہوا: میرا ماہی چھیل چھبیلا، کرنیل نی جرنیل نی۔ جنگ کے دوران ہی صوفی صاحب کا لکھا ہوا وہ گیت نشر ہوا جو ملکہ ترنم کے گائے ہوئے گیتوں میں تاثیر اور دلکشی کے اعتبار سے یقیناً بہت اعلیٰ مقام کا حامل ہے۔ اس گیت کو سن کر آج بھی دل کا عجب حال ہوتا ہے: ایہہ پتر ہٹاں تے نئی وکدے، توں لبھ دی پھریں بزار کڑے۔

میرے اوپراس گیت کے زیادہ اثرانداز ہونے کا سبب بچپن کی ایک احمقانہ بات کی یاد ہے۔ میرے اباجان کے نانا جان اس وقت حیات تھے، ہم انہیں میاں کہا کرتے تھے دادی جان ان کی واحد اولاد تھیں۔ اس لیے پاکستان بننے کے بعد وہ ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔ میں پہلی جماعت میں تھا جب ان کا انتقال ہوا۔ ایک دن میں ان کے ساتھ ضد کر رہا تھا کہ وہ مجھے گھر سے باہر لے کر چلیں۔ میرا چھوٹا بھائی بیمار تھا۔ وہ مجھے سمجھا رہے تھے کہ اسے بخار ہے اس لیے وہ مجھے گھر سے باہر نہیں لےجا سکتے۔ تب میری زبان سے نکلا اس کی خیر ہے، اگر اسے کچھ ہو گیا تو ہم بازار سے اور لے آئیں گے۔ میری یہ بات سن کر میاں رونے لگے اور کہا اگر بیٹے بازار سے ملتے ہوتے تو میں لے نہ آتا۔ اس پر دادی جان نے کہا کہ وہ تو بچہ ہے، آپ نے خواہ مخواہ رونا شروع کر دیا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ اس وقت دادی جان کے دل پر کیا بیتی ہو گی۔ چنانچہ جب کبھی اس گیت کی آواز کانوں میں پڑتی ہے تو مجھے اپنی احمقانہ بات بھی یاد آ جاتی ہے۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو متعدد بار محفلوں میں صوفی صاحب کو سننے کا موقع میسر آیا، دو مواقع بالخصوص مجھے یاد ہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں سال سوم کا طالب علم تھا۔ ان دنوں پاک ایران دوستی کا بہت چرچا تھا۔ لاہور میں خانہ فرہنگ ایران بہت فعال تھا۔ اس کی انچارج مادام مریم بہنام لاہور کے ثقافتی حلقوں میں بہت مقبول اور سرگرم تھیں۔ اس برس شاہ ایران نے بادشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منانے کا اعلان کیا۔ گورنمنٹ کالج کے رسالہ راوی نے خصوصی شمارہ بزبان فارسی شائع کیا۔ ڈاکٹر محمد اجمل صاحب کالج کے پرنسپل تھے۔ ان کے فارسی کے دو تین اشعار بھی راوی میں چھپے تھے۔ رسالے کی تقریب اجرا صوٖفی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ مہمان خصوصی مادام مریم بہنام تھیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر اجمل صاحب نے اپنے اشعار سنانے سے پہلے کہا یہ صوفی صاحب کی شاگردی کا فیض ہے کہ میں نے یہ فارسی اشعار کہے ہیں۔ جب مادام بہنام خطاب کرنے سٹیج پر آئیں تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ کوئی شخص کسی بھی عمر کا کیوں نہ ہو، وہ صوفی صاحب کا شاگرد ضرور ہوتا ہے۔

بلاشبہ صوفی صاحب کو استاذ الاساتذہ کا مرتبہ حاصل تھا۔

دوسرا موقع جو یاد آ رہا ہے وہ سنہ 1976 کا ہے۔ پاکستان نیشنل سنٹر الفلاح میں علامہ اقبال پر منعقد ہونے والی ایک تقریب کی صوفی صاحب صدارت فرما رہے تھے۔ ان دنوں یہ مسئلہ بحث و تمحیص کا موضوع بنا ہوا تھا کہ علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے۔ صحیح تاریخ کے تعین کے لیے حکومت پاکستان نے ایک کمیٹی مقرر کی ہوئی تھی۔ پروفیسر محمد عثمان اس کمیٹی کے رکن تھے۔ اس اجلاس میں انہوں نے کمیٹی کی روداد بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں بہت کد و کاوش سے کام لیا ہے، مختلف مقامات پر موجود ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، سیالکوٹ جا کر علامہ کے خاندان کی بڑی بوڑھیوں سے بھی دریافت کیا ہے۔

جب صوفی صاحب صدارتی خطاب کے لیے اسٹیج پر تشریف لائے تو انہوں نے پروفیسر عثمان کی خاندان کی بڑی بوڑھیوں سے بھی دریافت کرنے والی بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں جب بھی اپنی والدہ سے اپنی تاریخ پیدائش پوچھتا ہوں تو وہ کبھی پانچ سال ادھر ہوتی ہے اور کبھی کبھی پانچ سال ادھر۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ صوفی صاحب کی اس بات نے پروفیسر صاحب کی ساری تاریخی تحقیق پر پانی پھیر دیا ہے۔ پھر انہوں نے ایک اور بہت دلچسپ نکتہ بیان کیا جو ہمارے طالب علموں کے امتحانی رویے کی بہت عمدہ اور درست عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ وہ ایم اے، اردو، فارسی، سی ایس ایس، پی سی ایس سمیت بہت سے امتحانات کے بہت طویل عرصہ تک ممتحن رہے ہیں۔ ان کا تجربہ یہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر پر کوئی بھی سوال پوچھا جائے، جواب ہمیشہ سیالکوٹ سے شروع ہو گا۔

دوران تدریس میں جب بھی اپنے سٹوڈنٹس کے امتحانی پرچوں کی مارکنگ کرتا تو مجھے صوفی صاحب کی یہ بات بہت یاد آتی اور اسٹوڈنٹس کو سنایا بھی کرتا تھا۔ کیا اساتذہ تھے جن کی کہی ہوئی عام سی بات بھی حکمت و تجربے سے مملو ہوتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments