ریڈ وارنٹ الطاف حسین کی سیاست ختم نہیں کر سکتا


\"\" لگتا ہے موجودہ حکومت کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رہنما الطاف حسین کی سیاست ہمیشہ کےلئے دفن کرنے پریقین ہے۔ اسی لئے اب وزارت داخلہ نے متحدہ کے رہنما کی گرفتاری کےلئے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس وارنٹ کے تحت انٹرپول کے ذریعے اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس سے الطاف حسین کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد رینجرز کے ذریعے کراچی کے حالات کو بہتر بنانے اور ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کو تحلیل کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں۔ الطاف حسین اور ان کے ساتھی اگرچہ 2008 سے 2013 کے درمیان مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون کرتے رہے تھے اور دونوں پارٹیوں نے مل کر حکومت کی تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی مرکز میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سندھ میں بھی ایم کیو ایم کے ساتھ معاملات طے نہیں کر سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں سیاسی طور سے مستحکم ہونا چاہتی ہے۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے سے اختیار کے علاوہ وسائل بھی تقسیم کرنا پڑتے ہیں۔ اس طرح الطاف حسین سندھ کے شہری علاقوں میں مسلسل مقبول اور مستحکم ہو رہے تھے۔ تاہم الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف اقدامات صرف برسر اقتدار سیاسی پارٹیوں کی خواہش نہیں ہے بلکہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی الطاف حسین کی حرکتوں ، بے سروپا باتوں اور تقریروں سے عاجر آ کر ان کی سیاسی قوت کو توڑنا چاہتی تھی۔

گزشتہ اگست میں الطاف حسین نے ایک ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے اور اپنے حامیوں کو ایک میڈیا ہاؤس پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ یہ دونوں واقعات کراچی میں الطاف حسین کی سیاست اور تنظیمی قوت کےلئے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔ اگرچہ الطاف حسین نے حسب سابق معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس بار برسر اقتدار طبقات صلح کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اس کے نتیجے میں الطاف حسین کو پاکستان میں اپنے تنظیمی ڈھانچہ سے علیحدہ کر دیا گیا اور ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان وجود میں آئی۔ اس گروپ نے الطاف حسین سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا اور ان کے سیاسی نعروں کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن میں متحدہ قومی موومنٹ چونکہ فاروق ستار کے نام سے رجسٹرڈ ہے، اس لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے بیشتر منتخب ارکان نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور فاروق ستار مہاجر ووٹرکے نمائندوں کےلئے سیاسی اسپیس کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔

اس دوران بغاوت پر آمادہ کئے گئے پاکستانی لیڈروں کو سبق سکھانے کےلئے ایم کیو ایم لندن کے نام سے نئی تنظیم کھڑی کرنے اور سیاسی طور سے منظم ہونے کی کوشش کی گئی۔ تاہم یہ گروہ جو لندن سے الطاف حسین کی نگرانی اور ہدایت میں پاکستان میں سیاست کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی نمایاں حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے 2014 اور 2015 کے دوران رینجرز کو ملنے والے خصوصی اختیارات کے ذریعے کراچی میں ایم کیو ایم کے عسکری ونگ اور غنڈہ عناصر کا قلع قمع کر دیا گیا تھا۔ سیاسی کسر اگست 2016 کے بعد پوری کر دی گئی جب پارٹی کے تمام مقامی دفاتر اور ہیڈ کوارٹر نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا۔ اور زور زبردستی الطاف حسین کی حمایت میں سڑکیں بلاک کروانے اور ایک کال پر شہر بند کروانے کی صلاحیت کو سختی سے کچل دیا گیا۔ اب حکومت الطاف حسین کے خلاف قانونی کارروائی کرکے پاکستانی سیاست کے اس اہم باب کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وزارت داخلہ کا یہ فیصلہ قانونی اور سیاسی لحاظ سے مضحکہ خیز ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس طرح ملک میں قانون کے نفاذ کی ذمہ دار وزارت خود یہ اعتراف کر رہی ہے کہ اصل مسئلہ قانون شکنی کا نہیں ہے بلکہ سیاسی ضرورتوں کا ہے۔ وگرنہ ملک کے تھانوں میں الطاف حسین کے خلاف سنگین جرائم کے الزام میں مقدمات تو 1992 میں الطاف حسین کے ملک سے فرار ہونے سے بہت پہلے سے قائم ہیں۔ بلکہ الطاف حسین ہی کیا ملک کے ہر چھوٹے بڑے سیاسی لیڈر کے خلاف سنگین جرائم میں مقدمات درج کئے جاتے ہیں لیکن وہ اس وقت تک سیاسی طور پر متحرک اور قانونی لحاظ سے محفوظ رہتے ہیں جب تک برسر اقتدار قوتیں ان کی مقبولیت سے خائف ہوتی ہیں یا ان کی سیاسی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری ہیں۔ ان دونوں کے خلاف 2014 کے دھرنے کے دوران پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کرنے اور پولیس افسروں کو زد و کوب کرنے کے مقدمے ملک کے انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج ہیں۔ لیکن کسی عدالت کا کوئی سمن پولیس اور متعلقہ اداروں کو ان دونوں رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا ’’اختیار‘‘ نہیں دیتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے مقدمہ کی پیشی پر متعلقہ جج کے سامنے بتاتے ہیں کہ ملزم دستیاب نہیں ہے۔ جج بھی اپنی بات کی لاج رکھنے کےلئے استغاثہ کے نمائندوں کو سخت سست کہہ کر نیا حکم نامہ جاری کر دیتا ہے۔ حالانکہ اسے بھی علم ہوتا ہے کہ اس حکم پر اس وقت تک عمل نہیں ہوگا جب تک سیاسی ضرورتیں تبدیل نہیں ہوں گی۔

ایسی تبدیلی رونما ہو جائے تو ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول لیڈر اور وزیراعظم کے خلاف درج ایک ’’بے ضرر‘‘ ایف آئی آر بھی گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔ اس لئے وزارت داخلہ کے الطاف حسین کے خلاف ریڈ وارنٹ کو قانونی کارروائی سے زیادہ سیاسی اقدام سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی حکومت اور نظام جب قانون کی عملداری کو یقینی بنانے اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کا فیصلہ کرے گا تو اس کا آغاز کرنے کے لئے سمندر پار 25 برس سے مقیم کسی لیڈر کی گرفتاری سے پہلے ان عناصر کی گرفت کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ملک میں ہی دندناتے پھرتے ہیں۔اور اس کے قانون اور نظام کا مذاق اڑانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ لیکن کوئی عدالت یا قانون نافذ کرنے والا ادارہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ ایسی ہی ایک مثال سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کی بھی ہے۔ وہ شدید بیماری اور معذوری کا بہانہ کرکے بظاہر چند دنوں کےلئے ملک سے باہر گئے تھے لیکن وزیر داخلہ سمیت ملک کا ہر فرد یہ جانتا تھا کہ وہ قانون کی گرفت سے نجات حاصل کرنے کےلئے جلا وطنی کی زندگی گزارنے روانہ ہو رہے ہیں۔ تاآنکہ ملک کے حالات از سر نو ان کے موافق نہ ہو جائیں اور وہ واپس آ کر قانون کی حکمرانی اور سرزمین سے محبت کے ترانے نہ الاپنے لگیں۔

حکومت اگر الطاف حسین کو ان کے جرائم کی سزا دلوانا چاہتی تھی تو ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں اس کے پاس اس بات کا سنہرا موقع تھا۔ اگر حکومت پاکستان وہ شواہد اور افراد برطانیہ کے حوالے کر دیتی جو اس قتل میں ملوث ہیں اور بنیادی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں تو یہ ممکن تھا کہ برطانیہ میں الطاف حسین یا ان کے قریب ترین ساتھیوں کو قتل جیسے سنگین جرم میں سزا دلوائی جا سکتی۔ اس طرح ایم کیو ایم یا الطاف حسین یہ دعویٰ کرنے سے بھی قاصر رہتے کہ پاکستان کی عدالتوں نے ناموافق فیصلہ کرکے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔ تاہم حکومت اس مقدمہ کے اہم کرداروں کو اپنے کسی ’’سیف ہاؤس‘‘ میں محفوظ رکھنے پر بضد رہی۔ جب انہیں سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا تو انہیں اچانک افغانستان کے بارڈر سے گرفتار کروا کے، پاکستان میں ہی ان کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے مقدمہ کا آغاز کر دیا گیا۔ حالانکہ لندن میں ہونے والے جرم پر جب برطانوی پولیس مقدمہ قائم کرنے کےلئے بے چین تھی اور اسے بعض اہم گواہوں کی ضرورت تھی تو انہیں برطانوی پولیس کے حوالے کرنے سے گریز کا مقصد الطاف حسین کو کسی ناخوشگوار صورتحال سے محفوظ رکھنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔

ایم کیو ایم کو گروہوں میں بانٹنے اور پاک سرزمین پارٹی کھڑی کرنے کے باوجود ملک کے حکمران یہ محسوس کر رہے ہیں کہ الطاف حسین کو سیاسی طور پر تنہا کئے بغیر اور انہیں کسی نہ کسی الزام میں پاکستانی جیل میں بند کئے بغیر شاید کراچی کی ’’حکمرانی‘‘ واپس لینا دشوار ہو۔ الطاف حسین کی گرفتاری کےلئے موجودہ ریڈ وارنٹ کو اسی خواہش اور کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا لیکن کوئی بھی سیاسی لیڈر جو عوام میں بدستور مقبول ہو اور لوگ اس کی بات پر اعتبار کرنے پر تیار ہوں، اس وقت تک بے توقیر نہیں ہو سکتا جب تک انتخابات میں عوام ووٹ کی طاقت سے اسے مسترد نہ کر دیں۔ پاکستان کی حکومت کو اگر یقین ہے کہ کراچی کے عوام کے سامنے الطاف حسین کا اصل چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ شہر میں امن بحال کرکے اور ایم کیو ایم کے زہریلے دانت نکال کر شہریوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ یعنی قتل و غارتگری کا سلسلہ بند ہو چکا ہے اور ایک پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھتہ خوری کے ذریعے کراچی کے باشندوں کا جینا حرام کرنے کے قابل نہیں ہیں تو انہیں اس بات کا بھی یقین ہونا چاہئے کہ 2018 کے انتخابات میں کراچی اور حیدر آباد کے شہری یا مہاجر ووٹر الطاف حسین کے مقرر کردہ نمائندوں کو ووٹ دینے کی بجائے ان لوگوں کو ووٹ دیں گے جو الطاف حسین کو مسترد کرتے ہیں اور قتل سے لے کر ہر جرم کا ذمہ دار اس ایک شخص کو قرار دیتے ہیں۔

اگر حکومت اور اس کے اشارے پر نمودار ہونے والے ایم کیو ایم کی مختلف صورتوں کو یہ یقین نہیں ہے کہ وہ کسی بھی انتخاب میں الطاف حسین کو شکست دینے کے قابل ہیں تو الطاف حسین کو کٹہرے میں کھڑا کرکے یا جیل کی کوٹھری میں ڈال کر بھی یہ کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ سیاست میں جب ایک مقبول لیڈر کے سحر کو توڑنے کےلئے سرکاری قوت و اختیار استعمال کیا جاتا ہے تو اس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عوام اس لیڈر کے خلاف عائد کئے گئے الزامات پر یقین نہیں کرتے۔ اس طرح ایسے لیڈروں کے خلاف اختیار کئے گئے ہتھکنڈے ناکام ہو جاتے ہیں۔ الطاف حسین کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا اثر بھی اس سے مختلف ہو گا جو نتیجہ حاصل کرنے کےلئے یہ اقدام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

الطاف حسین کی سیاسی قوت ختم کرنے کےلئے ملک کے مہاجر ووٹر کو یقین دلانا ہوگا کہ کوئی دوسرا لیڈر بھی ان کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔ جب تک کوئی سیاسی پارٹی یا لیڈر یہ اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا، الطاف حسین بہرصورت زندہ رہے گا۔ بھلے اس کی کتنی ہی کردار کشی کرنے کی کوشش کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments