سر سیّد احمد خان اور ترکوں کی ڈاڑھی


\"\"(اکتوبر1876 میں روپڑ (انبالہ) سے سر سید سے انتہائی عقیدت رکھنے والے ایک شخص نے انھیں ایک عرضداشت بھیج کر یہ استفسار کیا: ’اکثر کٹھ ملّا کہتے ہیں کہ ترکوں کی ہم لوگوں کو وضع اختیار نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ لوگ لامذہب ہیں، وجہ لامذہب ہونے کی یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی ڈاڑھیوں کو منڈاتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اس کو اپنی تہذیب میں بڑا دخل سمجھتے ہیں۔ ‘ ساتھ ہی درخواست کی کہ جواب ’تہذیب الاخلاق‘ میں شائع کر دیں۔ سر سید نے ان کی درخواست قبول کی اور حسب ذیل تحریر اپنے رسالہ میں شائع کر دی۔ اس میں ان کا منطقی انداز گفتگو بھی نمایاں نظر آتا ہے اور ان کی حس مذاح کا کبھی کبھی بے پناہ پھڑکنا بھی۔)

مکرمی،

آپ نے اس عنایت نامے میں جو خیالات ظاہر کیے ہیں اس میں کئی غلطیاں ہیں۔ اول یہ کہ ڈاڑھی رکھنے یا منڈوانے کو تہذیب میں کچھ دخل نہیں ہے۔ بال جو انسان کے سر پر اور منہ پر خدا نے پیدا کیے ہیں اگر انسان ان کو ایک پریشانی اور ابتری کی حالت میں رہنے دے، جیسے کہ بعض میلے کچیلے بےتمیز جنگلی جانوروں کے ہوتے ہیں، تو بلا شبہ وہ پورا وحشیانہ پن ہے، اور اگر ان کو درستی اور خوبی سے رکھے تو وہ تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ اسی لئے تمام مہذب قومیں بقدر اپنی تہذیب اور موافق اپنے خیالات کے بال بناتی ہیں اور موافق اپنے مذاقِ تہذیب و خیالات کے ان کو آراستہ کرتی ہیں۔ مگر یہ خیال کہ ڈاڑھی منڈانا تہذیب میں داخل ہے ایک محض غلط خیال ہے۔

دوسرے ترکوں کی پیروی کو اس وجہ سے منع کرنا کہ وہ ڈاڑھی منڈاتے ہیں اور اس کو داخل تہذیب سمجھتے ہیں اور بہت کام خلاف شرع کرتے ہیں ایک دوسری غلطی ہے کیونکہ اس دلیل کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہےکہ اُس امر میں ان کی پیروی نہ چاہئے جو خلافِ شرع ہو، نہ یہ کہ دلیل تو ہو خاص اور نتیجہ نکالا جائے عام۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ بعد تسلیم کرنے اس امر کے کہ وہ کام خلافِ شرع ہے پھر اس کی پیروی کی جاوے، بلکہ جہاں تک بحث ہے وہ اس میں ہے کہ درحقیقت وہ کام خلافِ شرع ہے کہ نہیں۔ ترک شراب بھی پیتے ہیں، جیسا کہ مشہور ہے۔ اگر یہ امر سچ ہو تو جیسے ہم کو ان کے اِس کام کی پیروی کرنا برا ہے ویسے ہی اِس کام ناجائز کے سبب ان کے اور عمدہ و مہذبانہ مباح کاموں کی پیروی چھوڑنا بھی ویسا ہی برا ہے۔

تیسری غلطی خیالات کی اس عنایت نامہ سے یہ پائی جاتی ہے کہ کسی مہذب قوم کی پیروی کرنے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے تمام کاموں کی، بلالحاظ اس بات کے اور غور کے کہ وہ فی نفسہ اچھے ہیں یا برے، پیروی کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اگر یہ خیال ہو تو محض ایک غلط اور نہایت مضر خیال ہے۔ بلکہ ہمیشہ جس بات کو اختیار کیا جاوے اول اس کی بھلائی اور برائی پر غور کرنا واجب ہے۔ جو عمدہ بات کسی قوم کی ہو اس کو لینا اور بری کو چھوڑنا واجب ہے، ورنہ ایک گڑھے میں سے نکلنا اور دوسرے میں گرنا ہے۔

آپ کو معلوم ہے کہ ہم کو مسندِ افتا کی گدی پر بیٹھنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف دو امر ہم کو مقصود ہیں۔ اول یہ کہ مذہب اسلام پرجو جھوٹے الزام لگائے گئے ہیں، اور اس کو مانعِ تہذیب و شائستگی و مخالف انسانیت و تمدن و حسن معاشرت قرار دیا گیا ہے، ان غلط الزاموں کی غلطی ٹھیٹ مذہب اسلام کی رو سے ظاہر کردیں۔ دوسرے جو امر کہ خلافِ تہذیب مسلمانوں میں مروج ہیں ان کو دور کریں۔ پس ڈاڑھی، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، بشرطیکہ وحشیانہ پن سے نہ رکھی جاوے، تہذیب کے برخلاف نہیں ہے۔ چنانچہ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں اشخاص جو نہایت مہذب قوم کے ہیں ڈاڑھی رکھتے ہیں۔ اور ہمارے ملک کے بھی خوبصورت گورے رنگ کے چہروں پر، بشرطیکہ گورا رنگ ہو، کالی ڈاڑھی نہایت خوبصورت اور بھلی معلوم ہوتی ہے۔ ہاں جب سفید ہوجاوے تو منڈوانے کے قابل ہوجاتی ہے، بشرطیکہ منہ کی جھریاں اور گالوں کے گڑھے اور منہ کا پوپلاپن صورت کو بدنما نہ کر دے۔ اس کے سوا منہ کی رونق اور شجاعت و بہادری و رعب اس سے پایا جاتا ہے۔ پس اس کا رکھنا یا منڈانا ہماری بحث سے خارج ہے، اور ہم اس پر بحث کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم قطعاً ان مسائل سے جن کو مانعِ تہذیب نہیں سمجھتے بحث نہیں کرتے۔ اگر ڈاڑھی منڈانی ناجائز ہو تو اس سے ہمارا کچھ ہرج نہیں [اور] اگر جائز ہو تو ہمارا کچھ ہرج نہیں۔ لیکن اگر ڈاڑھی کو ایک ٹٹی بنایا جاوے جس کی اوجھل شکار کھیلا جاوے تو اس سے منڈوانا ہی بہتر ہے۔

اگر ڈاڑھی منڈانا ناجائز ہے تو بیچارے ترکوں پر کیا الزام ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مقدّس مولوی، صاحبِ جبہ و عمامہ، بھی ڈاڑھی منڈاتے ہیں۔ اتنا فرق ہے کہ ترک تو ڈاڑھی منڈا کر فرشتہ کی سی صورت ہوجاتے ہیں اور یہ حضراتِ مقدسین بِیچا بن جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاڑھی کا اطلاق جیسا کُل ڈاڑھی پر ہے ویسا ہی جزو ڈاڑھی پر ہے۔ اگر ڈاڑھی کا منڈانا ناجائز ہے تو اس کے جزو کا بھی ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص ایک طرف کی ڈاڑھی منڈاوے اور ایک طرف کی رہنے دے، یا بیچ میں سے منڈاوے اور دونوں طرف گَل مچھے رہنے دے، وہ بھی ایسے ہی ناجائز ہوگی جیسا کہ کُل ڈاڑھی کا منڈانا۔ آپ حضراتِ مقدّسین کو دیکھتے ہوں گے کہ ہر جمعہ کی صبح کو اشراق کی نماز کے بعد نائی حاضر ہوتا ہے اور اصلاح مبارک بناتا ہے۔ اصلاح میں کیا ہوتا ہے کہ گالوں پر سے ڈاڑھی مونڈی جاتی ہے اور ایک قوسی خط میں قریب مدوّر کے کی جاتی ہے۔ ہونٹ اور ٹھوڑی کے بیچ میں ایک بَچکانی بنائی جاتی ہے اور دونوں طرف سے مونڈی جاتی ہے۔ پھر حلقومِ مبارک سے لےکر ٹھوڑی اور جبڑے کے قریب تک مونڈی جاتی ہے۔ بعض مقدّسوں کو اپنے پھولے پھالے مچرّب گالوں کے کھولنے کا ایسا شوق ہوتا ہے کہ ریش مبارک صرف بطور ایک جھالر کے رہ جاتی ہے۔ پس کیا یہ ڈاڑھی کا منڈانا نہیں ہے جو بیچارے ترکوں فرشتہ صورتوں پر طعن کیا جاتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماخذ: شیخ محمد اسماعیل (مرتب)، مکتوبات سرسیّد (لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۵۹)، ۲۱۵ تا ۲۱۹۔

لغت: ’اور‘ بمعنی دیگر۔ ’بِیچا‘، بچوں کو ڈرانے والی فرضی ہستی۔ ’بَچکانی‘، یہ لفظ مجھے لغت میں نہیں ملا۔ فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی ’وہ کمسن نوچی جو کسی نائکہ نے پالی ہو‘ ملتے ہیں۔

حالی کے بقول سر سیّد کا رنگ سرخ و سفید تھا۔ سرسیّد کی شاندار ڈاڑھی کی ابتدا ممکن ہے اس سبب سے بھی ہوئی ہو کہ ان کے گلے میں دائیں طرف ایک رسولی (goiter) تھی جو ڈاڑھی سے ڈھکی رہتی تھی۔ سر سیّد کو ترکوں سے ایک دلی تعلق تھا۔ چنانچہ جب وہ انگلستان گئے تو وہاں انہوں نے ترکوں کا ہی جدید پہناوا اختیار کیا۔ نہ ہندوستانی لباس استعمال کیا، نہ ٹھیٹ انگریزی وضع اختیار کی۔ اسی طرح کالج کے طلبا کا لباس بھی ابتدا میں ترکی وضع کا سیاہ کوٹ تھا جو بعد میں شیروانی بن گیا۔ دونوں کے ساتھ سرخ ترکی ٹوپی پہنی جاتی تھی، جو آزادی سے پہلے ہی غائب ہونے لگی تھی اور صرف خاص خاص موقعوں پر نظر آتی تھی۔ اب عرصے سے لباس کی کوئی پابندی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments