اسامہ بن لادن کی موت


 \"\" 2  مئی، سنہ 2011 کو امریکی سپیشل کمانڈو ، نیوی سِیلز ٹیم سکس نے سی آئی اے کی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو آپریشن نیپچون سپئیر میں اگلے جہاں روانہ کرکے وہ کام کیا جو انہوں نے اپنی پہلی بیوی سے کئی برس پہلے ایبٹ آباد میں ہی ملاقات میں اک خواہش کے انداز میں کہا تھا: نجانے میری مشکل آسان کب ہو گی؟

 اسی دن بین الاقوامی امور کے اک مشہور پاکستانی وکیل صاحب نے اپنے دفتر میں اس افتاد پر گفتگو کے لیے چند لوگوں کو مدعو کیا۔ میں ان دنوں اپنی پیشہ وارانہ بلندی سے گر چکا تھا، اور رینگنے میں مصروف تھا، تو لہذا اک غیرسرکاری ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر صاحب، جو کبھی \”دوست\” بھی تھے، کے کہنے پر ان کی نمائندگی کرنے وہاں چلا گیا۔ وہاں اک بزرگ ریٹائرڈ جنرل صاحب سمیت سات آٹھ لوگ اور بھی موجود تھےاور گفتگو کا مزاج یہ تھا کہ \”آئی آئی، پاکستان کی شامت آئی۔\” خدا شاہد کہ اپنی باری پر یہ عرض کیا کہ میڈیا میں بتائی جانے والی تفصیلات تو مجھے کارٹون یا سلطان راہی کی کسی فلم کی کہانی محسوس ہوتی ہیں اور اک سوچ رکھنے والے پاکستانی کی حیثیت سے میں اس بات کو تسلیم کرنے سےقاصر ہوں کہ دو اڑھائی گھنٹے یہ سارا کھلواڑ پاکستانی مقتدرہ کی مرضی کے بغیر ہی کھیلا جاتا رہا۔ میز کے گرد کی نظروں نے خاموش ہونے پر مجبور کر دیا، اور اک بار پھر \”آئی آئی، پاکستان کی شامت آئی \” کا نیا دور شروع ہو گیا۔

 پھر شاید اسی دن یا اس سے اگلے ہی روز، مسعود شریف خٹک صاحب نے حامد میر صاحب کے پروگرام میں اک خوبصورت ٹرم استعمال کرتے ہوئے کہا کہ: تھنکنگ پاکستانی کے طور پر میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اس آپریشن کے رموز سے لاعلم تھا۔ وہ چونکہ بڑے آدمی \"\"ہیں، لہذا انکو کسی کی نظر نے ڈانٹ پلاتے ہوئے خاموش ہونے کا نہ کہا۔ مغربی صحافت کے مزاج سے تھوڑی بہت واقفیت ہے، تو معلوم تھا کہ یہ معاملہ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں کھلے ہی کھلے گا۔ اس واقعہ پر اک تاریخ سرکاری ہوگی، اور اک صحافتی۔ اور پھر پانچ چھ سال کی ریسرچ کے بعد، سیمؤر ہرش، اک پرانے امریکی صحافی نے اس پر اک مختصر مگر دلچسپ کتاب لکھ ہی ڈالی۔ سیمؤر ہرش نے اپنے صحافتی دور میں بہت ساری اصل والی بریکنگ نیوز دی ہیں۔ ان سے کچھ صحافتی غلطیاں بھی ہوئیں، کہ جسکو انہوں نے تسلیم کیا، اور اپنے معاشرے کے رواج کے مطابق، آگے بڑھ گئے۔ انکی کتاب کے چند مندرجات آپ کی نذر ہیں:

 ۔ (امریکی انتظامیہ کی جانب سے بولا جانے والا) سب سے بڑا جھوٹ یہ تھا کہ جنرل پرویز اشفاق کیانی اور جنرل احمد شجاع پاشا کو امریکہ نے (اس آپریشن کے بارے میں) معلومات فراہم نہ کی تھیں۔

 ۔ یہ عین ممکن ہے کہ اسامہ کے بارے میں آئی ایس آئی کو معلوم تھا اور اس بات کو اک درست وقت پر ہی آشکار کیا جاتا۔ درست وقت یہ ہوتا کہ اسامہ کے بدلے میں کیا حاصل کیا جا سکتا تھا۔ جب آپکے پاس اسامہ ہو تو آپ اسکو ایسے ہی امریکہ کے حوالے دیتے بھلا؟

\"\" ۔ اکتوبر 2010 میں اوبامہ کو اسامہ کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے اس وقت تک بات نہ کی جائے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ معلومات درست ہیں۔

 ۔ اسامہ کے معاملہ میں ہمیں (امریکیوں کو) پاکستان سے تعاون حاصل کرنے میں دیر نہ لگی۔

 ۔ دسمبر 2010 میں، فاٹا کے اک رہائشی، کریم خان نے سی آئی اے کے پاکستان سٹیشن چیف، جوناتھن بینک کا نام لے کر، اک ڈرون حملے میں اپنے خاندان کے مرنے پر اسکے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی۔ سٹیشن چیف کا نام باہر نکلنے پر انہیں فوری طور پر پاکستان چھوڑنا پڑا۔ یہ دراصل اک جواب تھا اس چال کے خلاف جس میں نومبر 2010 میں، امریکی ریاست نیویارک میں جنرل شجاع پاشا کے خلاف ممبئی حملہ کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔

 ۔ ایبٹ آباد، پاکستانی انسداد دھشتگردی کی ایلیٹ فورس (الضرار کمپنی) کے ہیڈکوارٹر سے صرف 15 منٹ کی ہوائی مسافت پر ہے۔ قیاس ہے کہ اسامہ کو ایبٹ آباد میں رکھا بھی اسی لیے گیا تھا کہ اس پر مسلسل نگرانی کی جاتی رہے۔

 ۔ (پاکستان کے ساتھ) معاملہ فہمی اک لمبا عرصہ جاری رہی۔ جنرل کیانی نے ہمیں (امریکیوں کو) یہ بتایا کہ آپ اک بڑی طاقت کے ساتھ نہیں آ سکتے۔ آپکو کم تعداد میں آنا ہوگا، اور اسے مارنا ہوگا۔ یہ معاملہ جنوری 2011 میں طے پایا۔\"\"

 ۔ ٹاپ کے (پاکستانی سیکیورٹی) افسران کے ساتھ معاملہ یہ تھا کہ پاکستانی دفاعی مفاد میں امریکی مدد مسلسل کم کی جارہی تھی، جبکہ ان مفادات کے تحت مزید مدد کی ضرورت تھی۔

 مزید مندرجات کا اک مختصر خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین اس واقعہ کی میڈیا مینیجمنٹ کی تفصیلات بھی طے ہو چکی تھیں۔ مگر اوبامہ نے اس واقعہ پر اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ زیادہ اہم جانی۔ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع، رابرٹ گیٹس اس میڈیائی شوخی کے حق میں نہ تھے اور انہوں نے اپنی کتاب \”ڈیوٹی\” میں لکھا کہ \”یہ ضروری تھا کہ آپریشن کی تفصیلات ریلیز نہ کی جائیں۔ کمرے میں موجود ہر کسی نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اس معاملہ پر مکمل خاموشی (mum)اختیار کی جائے گی، مگر یہ وعدہ صرف چند گھنٹے ہی رکھا گیا اور ابتدائی لِیکس وائٹ ہاؤس اور سی آئی اے سے آئیں۔ وہ (دونوں ادارے) شوخی بگھارنے اور کریڈٹ لینے کے دوڑ میں صبر ہی نہ کر سکے۔ میں اس موقع پر شدید غصہ میں آ گیا اور اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر، ٹام ڈونیلان سے کہا کہ یہ سارے لوگ خاموش کیوں نہیں ہو جاتے؟ مگر یہ بھی \"\"بےفائدہ رہا۔\”

 یہ مضمون ان تمام حضرات کے نام ہے ایسے معاملات میں جلدی کے تبصرے فرما کر خود کو عقلِ کل ثابت کرنے میں تاولے ہوئے پھرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست ایک Rational Actor ہے جناب۔ اپنے فہم میں اس ریاست نے بھلے غلط فیصلوں کی اک لڑی تخلیق کی ہو، مگر یہ فیصلے پھر بھی رنگا رنگ سوشل میڈیائی اور تھڑا تجزیات کے دائرہ سے باہر ہیں۔

 باقی تفکر کرنے والوں کے لیے ہی نشانیاں ہیں۔ بےتفکرے تبصرے کرتے ہیں۔ مسلسل!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments