ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتامو – زندہ لوگوں کا قبرستان


\"\"

(پہلا حصہ: طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں)

طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام کی کتاب ’مائی لائف ود دا طالبان‘ کے چند صفحات۔

گوانتانامو میں اپنے قیام کے دوران میں نے کیمپ نمبر ایک، دو اور تین میں ہونے والے کئی ناقابل یقین واقعات دیکھے اور سنے۔ قیدیوں کو ایسے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا جو کہ کسی بھی بین الاقوامی، آئینی، شہری، اسلامی یا غیر اسلامی قانون کے خلاف تھے۔

سنہ 2003 میں مسلمانوں کے لئے روزے رکھنے کا مہینہ رمضان شروع ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں کھجوریں، شہد اور خاص طور پر تیار کی گئی روٹی ملے گی۔ گو کہ یہ معمولی چیزیں ہیں مگر ہم نے بہت خوشی محسوس کی۔ لیکن رمضان کے دوسرے دن ہی ایک سپاہی نے ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ ہم کل اڑتالیس قیدی تھے جن میں سے تین نے ردعمل ظاہر کیا اور ایک شخص نے سپاہیوں پر پانی پھینک دیا۔

اس قیدی کو فوراً الگ کر کے ایک دوسرے سیل میں سزا دینے کے لئے لے جایا گیا۔ اگلے دن اعلان ہوا کہ ہم سب کو سزا ملے گی چونتیس دن تک ہمیں تازہ خوراک نہیں دی جائے گی اور پانی نہیں ملے گا۔ ہم نے اعلی افسران سے بات کی اور انہیں کہا کہ انہیں رمضان کے مہینے کا احترام کرنا چاہیے اور صرف ایک قیدی نے غلط رویہ اختیار کیا تھا مگر سب کو سزا دی جا رہی ہے۔ اس کا جواب منفی تھا۔ ’یہ فوج کا طریقہ ہے۔ پورے گروپ کو ایک شخص کی غلطی کی سزا دی جاتی ہے‘۔

\"\"

ایک اور مرتبہ ایک زنانہ فوجی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی اور سیل کی تلاشی لیتے ہوئے جانتے بوجھتے ہوئے اسے زمین پر پھِینک دیا۔ اس واقعے پر قیدیوں نے ہڑتال کر دی۔ وہ اپنے کپڑے نہیں بدلتے تھے، نہاتے نہیں تھے، سپاہیوں سے رتی برابر بھی تعاون نہیں کرتے تھے اور چہل قدمی کے لئے باہر تک نہیں نکلتے تھے۔ یہ ہڑتال تیزی سے پھیل گئی لیکن سپاہی کو سزا دینے کا قیدیوں کا مطالبہ ماننے کی بجائے انہوں نے طاقت کا استعمال کیا۔ قید خانے میں گیس فائر کی جاتی جس سے کئی قیدی بے ہوش ہو جاتے۔ سپاہی سیل میں ہلہ بول دیتے اور ہر قیدی کو باہر نکال دیتے۔ قیدیوں سے سب اشیا چھین لی گئیں اور ان کی شیو کر دی گئی۔ ساری عمارت شور سے بھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے کوئی بھی سو نہ پاتا تھا۔

ایک اور مرتبہ انڈیانا نامی بلاک میں موجود قیدی اللہ اکبر کے نعرے بلند کرنے لگے اور اپنے پنجروں کے دروازوں پر ضربیں لگانے لگے۔ اس وقت تو کسی کو علم نہیں ہوا کہ انڈیانا بلاک میں کیا ہوا ہے مگر جلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ سپاہیوں نے مشال نامی ایک عرب بھائی کو اس بری طرح سے پیٹا تھا کہ کئی قیدیوں کو یقین ہو گیا کہ وہ جان سے گزر گیا ہے۔ تمام قیدی مشال بھائی کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے اور کیمپ میں بحران پیدا کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔

امریکیوں نے پہلے ردعمل میں سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا لیکن پھر انہوں نے اعلان کیا کہ مشال زندہ ہے مگر اس کی حالت نازک ہے۔ دو ماہ بعد ہمیں علم ہوا کہ وہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکا تھا۔ وہ خود سے بیٹھ یا چل نہیں سکتا تھا اور بول بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ گوانتامو کے ہسپتال وارڈ میں ڈھائی برس تک رہا لیکن اس کی حالت میں کوئی فرق نہیں پڑا اور آخر کار اسے سعودی عرب کی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔

\"\"

گوانتانامو میں ہر چیز الٹی چلتی تھی۔ گو کہ میری آمد کے وقت حالات مشکل تھے مگر ہر چیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بد تر ہوتی چلی گئی۔ خوراک ایک مستقل مسئلہ تھی اور حکام کو اسے مناسب مقدار میں مہیا کرنے میں ایک طویل مدت لگی۔ لیکن پھر بھِی گوانتانامو میں ہر شے کاروباری انداز میں کی جاتی تھی۔ رعایت اور اچھا سلوک صرف تفتیش کاروں کے مزاج پر منحصر تھا۔ اگر کوئی قیدی تفتیش کاروں کی توقعات کے مطابق جوابات دیتا تھا تو پھر سب کچھ ممکن تھا۔ اسے ٹائلٹ پیپر، بوتل کا پانی، حتی کہ کیمپ نمبر چار میں تبادلہ بھی دیا جا سکتا تھا۔ دوسری طرف جو بھائی تعاون نہیں کرتے تھے ان کو سزا دی جاتی تھی۔

ملا فضل کو اکتالیس دن تک سزا دی گئی کیونکہ انہوں نے تفتیش کے دوران سوالات کے جواب نہیں دیے تھے۔ رات کو انہیں کمرہء تفتیش میں باندھ کر ائیر کنڈیشننگ کو پوری رفتار سے چلا دیا جاتا تھا اور سپاہی اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ وہ سو نہ پائیں۔ دن کے وقت انہیں ادھر ادھر چلنے پر مجبور کیا جاتا تاکہ وہ سو نہ جائیں۔

مبصرین کو ہمیشہ کیمپ نمبر چار میں ہی لے جایا جاتا اور وہ کبھی چند میٹر دور موجود اصل گوانتانامو نہ دیکھ پائے۔

بہت مرتبہ قرآن مجید کی توہین کی گئی۔ سپاہی جان بوجھ کر اسے قیدیوں کو سزا دینے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ایک سے زیادہ مرتبہ ہم نے تمام قرآن پاک اکٹھے کیے اور انہیں حکام کے حوالے کیا کیونکہ ہم ان کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے لیکن واپس لینے کی بجائے الٹا ہمیں سزا دی جاتی تھی۔

قیدی دنیا کے کمزور ترین انسان ہوتے ہیں۔ لیکن گوانتامو کا قیدی تو ایک انسان بھی نہیں رہتا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس سے انسانیت چھین لی جاتی ہے۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں

گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے

جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے

ملا عبدالسلام ضعیف: امریکی بحری جہاز کا قیدی

ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کا قیدی نمبر 306

ملا عبدالسلام ضعیف: ریڈ کراس، مسیحا یا جاسوس؟

ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کیمپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی

ملا عبدالسلام ضعیف غداری پر آمادہ نہ ہوئے 

ملا عبدالسلام ضعیف گوانتانامو بے میں

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو بے اور ریڈ کراس کا کردار

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو کے پہرے دار

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو بے میں انسانیت سوز مظالم

عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو کے مرتد اور جاسوس قیدی

 ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتامو – زندہ لوگوں کا قبرستان 

عبدالسلام ضعیف: قلعہ جنگی کے مظلوم قیدی

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments