طالبان اور دیسی لبرلز، شدت پسندی اور اصول پسندی


\"\" وطن عزیز میں بہت کنفیوژن ہے۔ بعض اوقات کسی بنیادی بات کی کمیونیکشن سے بھی ہمارے اہل علم محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ اپنی بات سمجھانے کے لئے جن اصطلاحات کو بیان کرنا لازم ہوتا ہے یا جس سیاق و سباق میں بات کرنا مقصود ہوتا ہے اس سے عوام الناس میں لاعلمی پائی جاتی ہے۔ بیس کروڑ کی آبادی میں اگر کسی اچھی کتاب کی فروخت محض ایک ہزار سے پندرہ سو میں ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے علمی مکالمہ میں کس درجہ کی سنجیدگی اور دانش پائی جاتی ہے۔ یہی معاملہ شدت پسندی اور اصول پسندی کی اصطلاحات میں فرق کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

شدت پسندی اور بنیاد پرستی میں بہت ہی معمولی فرق ہے۔ شدت پسند اپنی فکر یا عقیدہ کا بذریعہ جبر نفاذ چاہتے ہیں۔ وہ اپنی رائے کو حتمی سمجھتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کی فکر پر وقت و مقام (Time & Place) کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ عوام کو کم فہم سمجھتے ہیں اس لئے ان کا ماننا ہے کہ مکالمہ لاحاصل مشق ہے جب تک کہ فلاں فلاں اور فلاں چیزوں کو بذریعہ قوت بدل نہ دیا جائے۔

اصول پسندی سے مراد یہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ فرد و سوسائٹی ، سیاست و معیشت اور قانون و ثقافت میں کچھ بنیادی اصولوں (Principles) کی اہمیت مرکزی ہے۔ مثال کے طور پر انصاف ایک بنیادی قدر بھی ہے اور کامیاب معاشروں کے لئے اصول بھی۔ مساوات ایک بنیادی قدر بھی ہے اور بنیادی اصول بھی۔ شخصی آزادی لبرلز کے لئے ایک بنیادی قدر بھی ہے اور بنیادی اصول بھی۔ اہل مذہب کے ہاں توحید کا تصور بنیادی قدر کا بھی درجہ رکھتا ہے اور بنیادی اصول کا بھی۔ کوئی بھی فکر نظریہ یا عقیدہ، اصولوں سے ماورا نہیں ہوتا۔ اصولوں سے جڑ کر رہنے میں عظمت ہے نہ کہ ان میں شرمندگی یا ندامت ہے۔

اصول پسندی اور شدت پسندی میں فرق اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ہم اپنے اصولوں کو بذریعہ جبر نافذ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ امن کی ثقافت میں اپنے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ جو پسند ہو پڑھیں، جس کا من کرے لکھیں اور جس کا شوق پیدا ہو اس کا اظہار کریں مگر آپ کسی دوسرے فرد پر اپنی فکر یا عقیدہ بذریعہ جبر نافذ نہیں کر سکتے، نہ ہی کسی دوسرے کی براہ راست توہین کر سکتے ہیں اور نہ جسمانی طور پر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندی کی واضح مثال طالبان اور تکفیری گروہ ہیں۔ ان شدت پسندوں کو اصول پسندوں سے مماثل قرار دینا میری رائے میں علمی بددیانتی ہے جو اپنے اصولوں پر پرامن رہ کر عمل کرتے ہیں اور صرف تقریر و تحریر سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم دیسی لبرلز اصول پسند ہیں اسی طرح اہل مذہب میں وہ لوگ بھی اصول پسند ہیں جو اپنی فکر پر قائم ہیں اس کا اظہار کرتے ہیں اس کے مطابق زندگی گزرتے ہیں مگر امن و امان میں خلل نہیں ڈالتے، کسی کی توہین نہیں کرتے، اور قتل کے فتوے نہیں جاری کرتے۔

یہاں ایک اور اہم نقطہ برداشت اور تنقید کے مابین فرق کا بھی ہے۔ تنقید ….، تطہیر فکر اور تعمیر فکر میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ تنقید نہیں ہو گی تو علم میں ارتقا پیدا نہیں ہو گا۔ تنقید نہیں ہو گی تو رائج فکر میں بھی جمود پیدا ہو گا جس کا ناگزیر نتیجہ عدم برداشت ہے۔ اگر فکر نظریہ یا آئیڈیا چیلنج نہیں کیا جائے گا تو اس میں خامیاں اور کوتاہیاں جم جائیں گی یوں وہ وقت و مقام کے امتحان میں ناکام ہو کر معدوم ہو جائے گا۔ ہم اپنی فکر میں پرفیکٹ نہیں، ہم میں ایسی ان گنت خامیاں ضرور موجود ہوں گی جن سے ہم واقف نہیں ہوں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا نہیں جانتے۔ اسی طرح رائج نظام بھی پرفیکٹ نہیں ہو سکتے اور نہ تاریخ میں کبھی ہوئے ہیں۔ تنقید پر پابندی کا مطلب دراصل اپنا گلا گھونٹنے کے برابر ہے۔ اگر ڈاکٹر مریض کو بولنے ہی نہیں دے گا تو بہتر علاج بھی نہیں کر سکے گا –

اسی طرح بنیادی بات یہ بھی ہے کہ بغیر اصول پسندی کے تعمیری تنقید بھی ممکن نہیں – اگر اپنی فکر پر کھڑے رہنے والے اور اس کے حق میں دلائل دینے والے نہیں ہوں گے تو مکالمہ کیسے اور کس سے ہو گا ؟ تنوع پسندی سے مراد بھی یہی ہے کہ تنوع میں خرابی نہیں ہوتی بلکہ اس میں خوبصورتی ہے اور یہ کہ تنوع ہی ہے جو سچائی کے اجزاء کو چہار سو چن کر، انہیں اکٹھا کر کے ان میں ارتقاء کو بامقصد راستہ دیتا ہے – بدقسمتی سے وطن عزیز میں ان لوگوں کو جو امن کی ثقافت میں رہتے ہوئے اپنی فکر کے بنیادی اصولوں پر کھڑے رہنے والے ہیں اور اس کے حق میں دلائل دیتے ہیں انہیں فاشسٹ کہہ دیا جاتا ہے یہ سوچے بغیر …..کہ بغیر جبر و استبداد اور ریاستی طاقت کے استعمال کے محض انفرادی طور پر ایک شخص کیسے فاشسٹ ہو سکتا ہے ؟

تنقید کی ثقافت میں تحمل کا عنصر لازم و ملزوم ہے۔ تحمل سے مراد یہ نہیں کہ میں آپ کے نظریات کو قبول کر رہا ہوں بلکہ اس سے مراد اس اصول پر قائم رہنا ہے کہ آئیڈیا صحیح ہو یا غلط…، تشدد اور جبر سے پرہیز لازم ہے– برداشت کی فضا میں ہی سول سوسائٹی پھلتی پھولتی ہے اور تعاون و تبادلہ کے امکانات وسیع ہوتے ہیں – تنقید اور تحمل کی مشترکہ ثقافت کو ہی ہم مکالمہ کی ثقافت کہتے ہیں۔

قوی امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم مکالمہ کی ثقافت میں جینے کا ڈھنگ بھی دریافت کر لیں گے اور شدت پسندی کو اصول پسندی سے مختلف جانتے ہوئے شدت پسندی سے نفرت بھی کریں گے اور اصول پسندی کو شخصیت کا حسن بھی سمجھیں گے۔ اعتدال پسندی بے اصولی میں نہیں بلکہ تنقید کو مثبت رسپانس دینے میں ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments