ہائے بسنت وائے بسنت


\"\"ہم دونوں بہت چھوٹے تھے۔ بڑا بھائی چوں کہ آوارہ گرد ٹائپ طبیعت کا ہوتا ہے، تو وہ تھا۔ امی سے جتنی مار اپنی ان حرکتوں پر کھائی، اس سے بہت کم چھوٹے کے حصے میں آئی۔ ان تمام حرکتوں میں ایک پتنگ اڑانا تھی۔
ہم لوگ جہاں رہتے تھے اسے اندرون شہر نہیں کہا جا سکتا۔ باقاعدہ بیرون شہر کا ایک محلہ تھا۔ کچھ چھتیں جڑی تھیں، کچھ الگ تھیں۔ دل جڑے ہوئے تھے۔ لڑائی جھگڑے بھی ہوتے لیکن کوئی زیادہ مار پیٹ کی نوبت نہیں آتی تھی۔ دادا کی ایک پریسٹیج یہ تھی کہ وہ اس محلے کے ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے، کچھ بچوں کے استاد تھے اور کچھ کو قرآن بھی پڑھایا تھا۔
تو وہ ڈاکٹر صاحب کہلاتے تھے۔ اب ڈاکٹر صاحب ہمیشہ گھر سے باہر صاف ستھرے کپڑوں میں جاتے۔ ایک وضع داری تھی، شرافت تھی۔ ابا بھی انہیں کے نقش قدم پر رہے۔ تو ڈاکٹر صاحب کے پوتے کو پتنگ اڑانے یا گلی میں ننگے پاؤں کھیلنے یا چڈی پہن کر باہر نکل جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ لوگ کیا کہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب کا پوتا ایسے کام کر رہا ہے؟ بات ٹھیک تھی، بچہ خراب تھا۔
ہماری چھت بھی ایویں سی تھی۔ کوئی باقاعدہ ایسی جگہ نہیں تھی جہاں کھڑے ہو کر پتنگ بازی کی جا سکتی۔ بس ایک چبوترہ سا آگے کو نکلا ہوا تھا، اس کے گرد باؤنڈری بھی تھی، باقی دیواریں اٹھی ہوئی تھیں۔ جو سب سے اوپر والی چھت تھی، وہ اکھی کھلی تھی۔ ایک دم بغیر کسی دیوار کے، وہاں چڑھنا ویسے ہی حرام تھا۔ کچھ ذاتی بزدلی بھی تھی۔
جہاں چبوترہ تھا، اس کے ساتھ وہ پتلی سی چھت تھی جو سیڑھیوں کے اوپر بنائی گئی تھی۔ سمجھ لیجیے بچوں کی سلائیڈ جیسی چھت تھی۔ اتنی ہی چوڑی اور اسی طرح ڈھلوان سطح تھی۔ تو پتنگ اڑانے کے لیے واحد جگہ وہی بچتی تھی۔
قد تھوڑا لمبا ہوا تو اس چھت پر چڑھ کر کوشش کی جاتی کہ کوئی آتی جاتی کٹی پتنگ لوٹ لی جائے اور موج میلہ شروع ہو۔ الحمدللہ اکثر ناکامی ہوتی۔ دو چار بار کوئی پتنگ خود ہی معجزاتی طور پر عین چھت کے اوپر آ کر غوطہ کھا جاتی تو موجیں ہو جاتیں۔ ساتھ ڈور بھی ہوتی تھی۔ اب اسے دوبارہ اڑانے کی کوشش ہوتی۔ کنی دینے کے لیے چھوٹے بھائی کو بلایا جائے تو شکایت کا اندیشہ تھا۔ جیسے تیسے کبھی اڑا لی جاتی، زیادہ تر پھاڑ دی جاتی۔

\"\"

پھر ہم لوگ تھوڑے بڑے ہوئے تو خرم بھائی کے گھر پتنگ اڑانے جانے لگے۔ وہاں مزا آتا تھا۔ خرم بھائی، وسیم بھائی، جعفر بھائی، گوہر بھائی، سبھی ایک دم ماہر، پورا ماحول ہوتا تھا۔ فہیم، خاور اور فقیر چھوٹوں میں شمار ہوتے تھے۔ تو کبھی وسیم بھائی ایک باریک سی دیوار پر چڑھ کر پیچ لگا رہے ہیں، کبھی خرم بھائی کوئی پتنگ جوڑ رہے ہوتے، کبھی چرخی تھامنے کی فلاسفی پر بات ہو رہی ہوتی۔ باقاعدہ اچھا خاصا علم تھا۔ یہ وہیں سیکھا۔
ڈور لگانے کے لیے مانجھا کیسے بنے گا، دھاگا کون سے نمبر کا ہو، سریش کون سی، ٹیوب لائٹیں کتنی توڑنی ہیں، کون سا شیشہ لگ سکتا ہے، کیا رنگ ہو کہ رات والے پیچ میں ڈور تھوڑی بہت نظر آتی رہے، یہ سب کچھ دیکھ کر بڑا مزا آتا تھا۔ دل کہتا تھا کہ استاد بڑے ہو کر تم بھی نام کماؤ گے، تب تو ابا اڑانے ہی دیں گے۔
گڈی، تکل، پری، شرلی، شرلا، اور پتہ نہیں کون کون سی قسم کی پتنگیں ہوتی تھیں۔ بعض اتنی بڑی بھی ہوتی تھیں کہ ہم لوگ ڈور تک نہیں تھام سکتے تھے۔ ہوا کا دباؤ اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ باقاعدہ ایسا لگتا جیسے پتنگ ابھی انگلی کاٹ کر ڈور سمیت بھاگ جائے گی۔
ہاں پچھلے محلے سے یا آس پاس سے جب خبریں آتیں کہ فلاں بچے کی چھت سے گر کر ٹانگ ٹوٹ گئی، یا فلانے کے یہاں لڑائی ہو گئی یا کسی کا دیوار سے گر کر سر پھٹ گیا تو پابندیاں چند دن کے لیے سب کے نصیب میں آتیں، پھر کام دوبارہ چالو ہو جاتا۔
ہوا میں اڑتی پتنگ تھامنا بڑے مزے کی فیلنگ ہوتی ہے۔ ایک دباؤ آپ کی انگلی پر ہوتا ہے۔ ڈھیل دے کر بڑھائیں اور ایک دم روکیں تو جیسے پتنگ نیچے ڈولتے ہوئے ایک دم اوپر جاتی ہے، آہا، کیا ہی کہنے۔ بہت زیادہ دور نہ ہو تو اس کی شرشراہٹ بھی ایک جوش بھر دیتی ہے۔ اسی طرح چرخی تھامی ہوئی ہے، پیچ لگا ہوا ہے، ڈور پر ڈور دی جا رہی ہے، پتنگ نقطہ بن گئی لیکن پیچ چل رہا ہے۔ اچانک معلوم ہوتا ہے کہ لو بھئی، چرخی مک گئی، اب نئی ڈور باندھنی ہے۔ اس وقت چرخی تھامنے والے کو اپنی اہمیت اور بھاری ذمہ داری کا جو احساس ہوتا ہے، واللہ کیا کہنے۔ خیر، تو اس سب کے بعد اگر جیت گئے تو بو کاٹا ا ا ا ا ا ا ۔۔۔ کے نعرے پورا حلق پھاڑ کر لگائے جاتے اور باقاعدہ چھلانگیں ماری جاتیں تاکہ باقی چھت والوں کو خبر ہو جائے۔
پھر جب کالج میں پہنچ گئے تو قریشی کی چھت پر بسنت منائی جاتی۔ پتنگ اڑانے والے دو چار ہوتے تھے۔ ہم لوگ بیٹھ کر تاش کھیلتے، اونچی آواز میں گانے سنتے، حسب توفیق آس پاس نظر دوڑاتے اور کچھ تھوڑا بہت باربی کیو چلایا جاتا۔ جیسے ہی پیروں کی دھمک زیادہ ہوتی یا ہلڑ بازی انتہا کو پہنچ جاتی، ایک دم قریشی کے ابا اوپر آ جاتے۔ زبردست قسم کی ڈانٹ پڑتی اور قریشی کی ناک اس کے بعد ساری رات کھنچی رہتی۔ قریشی بڑا مخلص دوست ہے۔ اس کا چہرہ اس کی ناگواری نہیں چھپا سکتا۔ پھر جب اس کا موڈ خراب ہوتا تو سارے مل کر اس کے ساتھ شغل لگاتے، لیکن ایک منٹ ۔۔
یہ سب یادیں ہمارے بچوں کے پاس بہرحال نہیں ہیں۔ وہ بچے جو پچھلے آٹھ دس سال میں پیدا ہوئے وہ پتنگ کے نام سے تو واقف ہیں لیکن بسنت کیا ہوتی ہے۔ وہ نہیں جان سکتے۔ جو بچہ ڈور بنتے نہ دیکھ پایا ہو، جسے پتنگوں کی دکانوں میں جانے کا اتفاق نہ ہوا ہو، جس نے کبھی بو کاٹا کے وحشیانہ نعرے نہ سنے ہوں، جس نے کبھی ان نعروں کے بعد گانے لگا کر ڈانس نہ کیا ہو، جس نے پتنگ کا دباؤ اپنی انگلی پر ایسے محسوس نہ کیا ہو جیسے وہی انگلی پوری دنیا سنبھالے ہوئے ہے، جو دیواروں اور چھتوں پر پتنگ لوٹنے نہ بھی چڑھا ہو، لیکن چڑھنے والوں کو حسرت سے دیکھا تک نہ ہو، جو گلیوں میں لمبے لمبے بانس لے کر کٹی پتنگیں لوٹنے نہ دوڑا ہو، جس نے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پیچ نہ لڑایا ہو، وہ کیسا بچہ ہو گا؟
ایسا ہی جیسا ہم سب کے گھروں میں ہے۔ پوکے مان، سب وے سرف، کینڈی کرش ساگا وغیرہ کھیلتا ہوا بچہ۔ جسے ہوا کا رخ تک دیکھنا نہیں آتا۔ آپ گھر سے باہر نکلیں، بچے کا ہاتھ پکڑیں، گلی میں کھڑے ہوں، کاغذ کا ایک باریک سا پرزہ ایسے ہوا میں اڑا دیں۔ جس رخ ہو کر گرنے لگے، بچے کو بتا دیجیے کہ بیٹا ہوا کا رخ یوں دیکھتے تھے اور پھر پتنگ نام کی ایک چیز کنی دے کر اڑائی جاتی تھی۔
فی الحال بے رخا زمانہ ہے، گزارہ کرو میرے بچے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments