جو ملے تھے راستے میں ۔۔۔ بڑے ادیبوں کی ادبی چوپال


منیر احمد فردوس، ڈیرہ اسماعیل خان

\"\"اگرکسی کا تصویری خاکہ بنانا مقصود ہو اور سامنے رنگوں کی بجائے الفاظ رکھ دیئے جائیں کہ لیں جی تصویری خاکہ بنائیں تو کیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ایک لمحے کے لئے تو بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ لو بھلا لفظوں سے کیسے تصویر بنائی جا سکتی ہے؟ الفاظ اب کوئی رنگ تو ہیں نہیں کہ اِدھر آڑی ترچھی لکیریں لگا کر ان کو آپس میں ملایا اور اُدھر خاکہ تیار۔
آخر کیسے ممکن ہو کہ الفاظ ایک دوسرے کی انگلی تھام کر آپس میں مل کے ایک شخص کا روپ دھار لیں اورپھر وہ شخص آپ سے باتیں بھی کرے، آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے ساتھ چلے بھی ، آپ کو گدگدائے، رلائے، قہقہے لگائے، آپ کو آنسو بھی دے اور آپ کے آنسو چنے بھی ۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقناً یہ سارے کمالات اس خاکہ نگار ہی کے ہو سکتے ہیں جس نے لفظوں سے ایسی زندہ اور چلتی پھرتی تصویر بنا ڈالی کہ جو آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ سے اکلاپا تک چھین لے۔
یہ بھی ادراک اور فہم ہی کا معاملہ ہے کہ لفظوں سے تصویری خاکہ بناتے وقت، آخر چہرے پر کس طرح کے دھڑکتے الفاظ فٹ کیے جائیں کہ وہ قاری کو اپنے تمام تر احساسات کے ساتھ سانس لیتا نظر آئے ۔ آنکھوں میں کون سے چمکتے الفاظ ڈالے جائیں کہ وہ چمک اٹھیں ۔ ہونٹوں کے لیے کون سے بولتے الفاظ تراشے جائیں کہ ان سے رستا ہوا ایک ایک لفظ کانوں میں اتر جائے۔ مگر میرے خیال سے ان سب باتوں کے لیے جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے، لفظوں کی نہیں۔

تو کیا لفظوں کے اندر بھی جذبات دوڑتے ہیں یا یونھی یہ بے جان سے ایک طرف پڑے رہتے ہیں؟ اگرلفظ مردہ ہوتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک خاکہ نگار مردہ لفظوں کے ڈھیر سے کسی کا ایک زندہ تصویری خاکہ کیسے تیار کر لیتا ہے؟ جس کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی ہے اور آواز کی بازگشت بھی اپنے قاری کا پیچھا کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میری فہم اس بات کا یہ جواب دیتی ہے کہ لفظوں میں جان نہیں ہوتی، اس میں روح ایک خاکہ نگار ہی پھونکتا ہے اور خاکہ نگار بھی وہ جو ہمیشہ سچ کی ایسی وادیوں میں رہتا ہو، جہاں جھوٹ کا سورج طلوع نہ ہوتا ہو۔ پھر ایسا سچا خاکہ نگار جس لفظ سے جو چاہے کام لے سکتا ہے، جس لفظ میں جو چاہے جذبہ بیدار کر لیتا ہے۔ جن لفظوں سے کسی کو جیسا کاٹنا چاہے کاٹ لیتا ہے، جن سے محبت کا اظہار کرنا ہو وہ لفظوں کے قافلے روانہ کر دیتا ہے، کیوں کہ الفاظ بھی سچے ہوتے ہیں اور اپنے سچے خاکہ نگار کو اچھی طرح سے پہچانتے ہیں۔ میری نظر میں ایک سچے اور کھرے خاکہ نگار کی کمائی یہی الفاظ ہی ہوتے ہیں، جو ہمیشہ اس کے دل کے سچے رنگوں میں ڈوبے رہتے ہیں اور پھر سچ کے رنگوں میں ڈوبے یہی الفاظ اس شخص کی ویسی ہی تصویر قاری کی آنکھوں میں بنا دیتے ہیں، جیسی اس کا خاکہ نگار چاہتا ہے۔

\”جو ملے تھے راستے میں\” بھی میرے لیے خاکوں کی ایک ایسی ہی کتاب ثابت ہوئی، جس کے اندر بچھے راستے بھی سچے ہیں اور ان راستوں کو کھوجنے والے ان کے مصنف احمد بشیر بھی ایک سچے اور نڈر لکھاری ہیں کہ ان کے اندر کے سچ نے ان کی کتاب کو سچائیوں کا ایک ایسا جہان بنا دیا کہ اس میں قدم رکھتے ہی اردو ادب کے نامی گرامی ادیبوں کے پسینے چھوٹتے دیکھے ہیں۔ چاہے وہ قدرت اللہ شہاب جیسا محتاط ادیب ہو یا علی پور کا ایلی کا آوارہ گرد ممتاز مفتی ہو، احمد بشیر کی فکر میں گھلنے والا ابنِ انشا ہو یا قومی ترانے کا خالق حفیظ جالندھری ہو، وہ پراسرار میرا جی ہو یا بے باک سرحدوں پر خیمہ زن کشور ناہید ہو۔ \”جو ملے تھے راستے میں\” کے سچے راستوں پر چلتے ہوئے سب کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ خود احمد بشیر کی بھی سانسیں اکھڑی ہیں۔
میری نظر میں \”جو ملے تھے راستے میں\” محض خاکوں کی کتاب ہی نہیں بل کہ اردو ادب کے بڑے بڑے ادیبوں کی ایک ایسی ادبی چوپال ہے، جہاں آج بھی وہ سب ایک ساتھ رہتے ہیں اور احمد بشیر نے ان کو آج بھی اکٹھا کیا ہوا ہے، جو ان کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ جب وہ زندہ تھے تو اس وقت بھی احمد بشیر کے گھر ہی میں ڈیرے ڈالے رکھتے تھے۔ وہ ممتاز مفتی ہو یا ابنِ انشاء، قدرت اللہ شہاب ہو یا اشفاق احمد، غرض احمد بشیر سب کے لیے سانسوں کا درجہ رکھتے تھے۔

\”جو ملے تھے راستے میں\” حقیقت میں سچ کا ایک ایسا اجلا راستہ ہے، جہاں جھوٹ کی بارش کبھی نہیں ہوتی۔ احمد بشیر ہمیشہ اسی راستے ہی پر چلے اور اس راستے کی چکا چوند دیکھ کر کئی نام ور لوگ بھی ان کے ساتھ آ ملے۔ پھر \”جو ملے تھے راستے میں\” کے ذریعے انھوں نے ہر کسی کے لیے راستے کھول دیے۔
یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ احمد بشیر کی آنکھوں سے دل تک پہنچنے کا سفر بہت مشکل اور کڑا قرار پاتا ہے، جہاں ہر وقت سچائیوں کی بارشیں برستی رہتی تھیں۔ اگر کوئی ان کی آنکھوں میں داخل ہو کر دل تک کے سفر کی ٹھان لے تو راستے میں ہونے والی بارشوں سے وہ کسی طور نہیں بچ سکتا۔ اور اس نے نظر نہ آنے والے رنگوں کی جتنی بھی ملمع کاری کر رکھی ہو، اس کے سبھی رنگ بہہ کر اتر چکے ہوتے اور نیچے سے اس کا کھرا روپ نکل آتا تھا۔ اس کے بعد آگے کا کام احمد بشیر کا بے چین قلم سر انجام دے دیتا۔ ان کے لفظوں میں سچائی کی ایسی کاٹ ہے کہ کئی ایک شخصیات تو بکھر کر رہ گئیں۔ یقین نہ آئے تو کشور ناہید کا خاکہ چھپن چھری پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ یوں لگتا ہے جیسے احمد بشیر نے ان کی بے باک طبیعت کو دیکھتے ہوئے انھی کے مطابق لفظوں سے ایسا آئنہ تیار کیا تھا، کہ جس میں خود کو دیکھنے کے بعد ان کا منہ ہی بنا رہ گیا۔ چھپن چھری ایک خا کہ نہیں بل کہ سچ کی ایسی خار زار وادی ہے، جس پر چلتے ہوئے کشور ناہید کے تلووں میں ببول کے نوکیلے کانٹے آج بھی کھبے ہوئے ہیں اور اس کے تکلیف دہ موسموں سے وہ باہر نہیں نکل پائی ہیں۔ لاہور کے ادبی منظر نامے میں ہلچل مچا دینے والا چھپن چھری جیسا خاکہ دیکھ کر لگتا ہے کہ احمد بشیر ایک بہت عمدہ آئنہ گر بھی تھے۔ انھوں نے سچ کی صنعت سے جن لوگوں کے لیے آئنے تیار کئے۔ وہ خود ان میں پہلی بار اپنے اصلی روپ دیکھ کرحیرت سے جھٹکا کھا گئے اور یہ جھٹکے قاری کو بھی بار بار لگتے ہیں۔

کتاب کا سب سے لازوال لمحہ تو اس وقت میرے ہاتھ لگا، جب قدرت اللہ شہاب اپنی موت سے چند دن قبل اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے احمد بشیر کے گھر پہنچ گئے۔ وہ بہت بے چین اور اداس تھے۔ ٹھیریے وہ حیران کن لمحہ میں آپ کو بھی دکھا دوں تا کہ آپ بھی اسے اپنی آنکھوں میں محفوظ کرلیں۔ قدرت اللہ شہاب \”پیرومرشد\” خاکہ میں احمد بشیر سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
\”قوم ذلت کی جس انتہا کو پہنچ چکی ہے، اس کی کچھ ذمہ داری ذاتی طور پر مجھ پر بھی آتی ہے۔ میں نے ایوب خاں کی خدمت اپنی سرکاری ڈیوٹی سے بہت آگے بڑھ کر انجام دی۔ میں نے اسے اس کی پسند کے مشورے دیے اور اس کے بعد فیصلوں میں شریک رہا، جن کے بدولت ڈکٹیٹر شپ جڑ پکڑ گئی اور قوم کا ہر فرد ذلیل و خوار ہوا۔ اخلاق تبدیل ہو گئے۔ اقدار بگڑ گئیں۔ معاشرہ نفسانفسی کا شکار ہو گیا اور آگے بھی ذلت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس رذالت میں میرا جو حصہ ہے، میں اس کی وجہ سے سخت ندامت میں مبتلا ہوں، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا۔\”

کتاب کے اس ٹکڑے نے مجھے نئی حیرتوں میں مبتلا کر دیا، جس میں شہاب جیسے قد آور ادیب کو احمد بشیر کے سامنے ٹھس ہوتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ شہاب نامہ پڑھنے کے بعد جس شہاب کا بت میں نے اپنے اندر بنا رکھا تھا، اس میں دراڑیں پڑگئیں اور میں اس کی مرمت بھی نہ کر سکا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر احمد بشیر میں ایسا کیا تھا کہ قدرت اللہ شہاب جیسا ولی (بقول ممتاز مفتی) ان کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے بعد مٹی اوڑھ کر چپ چاپ سو گیا۔ شاید انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ ایک سچا ہی سچ کی امانتیں اپنے پاس رکھ سکتا ہے، جب کہ احمد بشیر نے بھی کوئی خیانت نہیں کی۔ چوں کہ شہاب کا سچ قوم کی امانت تھا تو انھوں نے بھی \”پیرومرشد\” خاکہ کے ذریعے اس سچ کو ہر دل میں دھڑکنے کے لیے چھوڑ دیا، تا کہ شہاب نامہ کی بھول بھلیوں سے باہر نکل کر ان کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قوم خود کرے۔

میرا تو یہ کہنا ہے کہ احمد بشیر حقیقت میں چہرہ ساز تھے جو ہزارہا بکھرے ٹکڑوں میں سے اصل ٹکڑے چن کر چہرہ جوڑنے میں ماہر تھے۔ یہ بات اپنی ذات کے ٹکڑوں میں چھپے ہوئے میرا جی ہی نے مجھے سجھائی۔میرا جی کا خاکہ \”اکیلا\” پڑھ کر یقین نہیں ہوتا کہ نظم کو عروج کے زمانے عطا کرنے والے بکھرے بکھرے میرا جی حقیقت میں خود کیا تھے۔ \”اکیلا\” ان پر لکھا گیا بہت ہی دل چسپ خاکہ ہے، جس میں احمد بشیر ان کے اندر کی اسرار بھری دنیاؤں کی طرف جا نکلتے ہیں۔ یقین ہی نہیں آتا کہ اکیلا رہنے والا میرا جی اپنی ذات میں اتنے سارے روپ رکھتے تھے۔ خاص طور پر خاکے کا وہ حصہ نہایت دل کش ہے کہ جس میں میرا جی، کرشن چندر کے گھر کوور لاج میں سکونت پذیر ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کے شب و روز جس طرح احمد بشیر نے اپنے قلم کے ذریعے سے دکھائے ہیں، اس حوالے سے پراسرار میرا جی کسی اور دنیا ہی کے باشندے محسوس ہوتے ہیں۔ \”اکیلا\” میں احمد بشیر ان کی پراسرار شخصیت کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچتے ہیں:
\”سارا دن ہمارے ساتھ گزار کر رات کو وہ ہمارے ساتھ کوورلا ج لوٹا اور کمرے میں داخل ہوتے ہی بالکونی میں جا کے یوں بیٹھ گیا جیسے ہم سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ پھر اس نے ہم سے کوئی بات نہ کی۔ اس کا ایک دلائی اور میلے تکیہ کا بستر کھلا پڑا تھا، جس پر بجلی کی روشنی چھن چھن کر پڑ رہی تھی۔ اس نے بوسیدہ اخبارات کا دفتر کھولا اور اس میں سے چنی ہوئی پٹیاں نکال کر گولیوں پر جمانے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے کرائم اینڈ مسٹری کا ایک پرچا نکالا اور اس کے مطالعہ میں غرق ہو گیا۔\”

میرا جی سے اگلا پڑاؤ قاری کو خانہ بدوشی پر مجبوری کر دیتا ہے۔ یعنی معروف شاعر احسان دانش اور ایک خانہ بدوش؟ کون مانے گا یہ بات؟ مگر جپسی خاکہ میں احسان دانش جب خود قاری کے کانوں میں سرگوشیاں کر کے اپنا کچا چٹھا کھول کر بیان کرنے لگ جائیں تو پھر نہ ماننا کیسا؟ وہ خود احمد بشیر کے قلم سے جھانک جھانک کر اپنے بارے میں اتنے دل چسپ واقعات سناتے ہیں کہ قاری کے پاس سوائے حیران ہونے کے اور کوئی راستہ بچتا ہی نہیں۔ کم از کم مجھے تو یقین ہی نہیں آیا کہ جناح کیپ پہنے تصویروں میں اتنے سنجیدہ اور متین نظر آنے والے احسان دانش جیسے کھلنڈرے شاعر کو روٹھی زندگی کو منانے کے لیے چپڑاسی گیری کا طوق بھی پہننا پڑا۔ اور پھر وہ اس نوکری کے پیچھے چھپے عجیب و غریب واقعات سے رنگ چرا کر جس طرح اپنی زندگی کو رنگین کرتے ہیں، وہ سب کچھ بہت حیران کن ہے۔ احسان دانش مجھے اپنی فطرت میں بہت معصوم اور سادہ انسان لگے۔ میں اس پرکیف خانہ بدوشی سے پہلے صرف ان کے نام ہی سے واقف تھا، مگر جپسی پڑھنے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے میں ان سے بالمشافہ ملاقات کر چکا ہوں۔ جس کا اہتمام احمد بشیر نے بہت خوب صورتی سے کیا ہے۔

\”جو ملتے تھے راستے میں\” کے راستوں میں ممتاز مفتی سے ٹکراؤ نہ ہو؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ بل کہ وہ تو اس راستے کے سورما بن کر سامنے آتے ہیں۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ حقیقی زندگی میں جس طرح سے ممتاز مفتی نے احمد بشیر کو گھیرا ہوا تھا، احمد بشیر بھی بہت کائیاں انسان ثابت ہوئے۔ ان پر خاکہ لکھنے کے لیے وہ ان کے اندر کے بچے کو گھیر کر \”جو ملے تھے راستے میں\” کی طرف لے آئے۔ ممتاز مفتی اپنے اندر کا بچہ ڈھونڈتے ہوئے اس طرح آ نکلے اور احمد بشیر تو پہلے ہی سے قلم لے کر تیار بیٹھے تھے اور پھر انھوں نے دل کھول کر اپنے قلمی جوہر دکھائے۔ انھوں نے قلم سے ممتاز مفتی کے اتنے چہرے بنائے کہ وہ خود بھی اپنے آپ سے مل کر حیرت کدے میں جا اترے۔ یہ راستہ انھیں اتنا پسند آیا کہ وہ آج تک واپس نہیں پلٹے۔ احمد بشیر ایک جگہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
\”ممتاز مفتی ایک ایسا بچہ ہے جو یہ پسند نہیں کرتا کہ اسے کوئی بچہ سمجھے۔ دل ہی دل میں وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی دیکھ بھال کرے اوراسے مناسب وقت پر مناسب کام کرنے پر مائل کرے۔ لیکن یہ سب کچھ اس انداز سے ہو کہ اسے معلوم نہ ہوا کہ اس کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ اگر اسے شک پڑ جائے کہ اس سے ایک بچے کا سا سلوک کیا جا رہا ہے تو اس میں سویا ہوا مرد بے دار ہو جائے اور اپنی تحریک کے خلاف جہاد کرے گا۔\”

ان کی آپس میں اتنی بے تکلفی تھی کہ احمد بشیر ان کے بارے میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
\”دو برس پہلے دمِ رخصت اس سے کہا تم اپنے رویوں پر غور کرو۔ تمھارا مرشد قدرت اللہ شہاب ایک جمالی آدمی تھا۔ تم جلال کی پھنکاریں نہ مارا کرو۔ اناالحق کے دعوے مت کرو۔ لوگوں کو جو تمھارے قرب کے باوجود اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ٹکڑے ٹکڑے مت کیا کرو۔\”
ممتاز مفتی پر لکھا گیا خاکہ سورما تمام خاکوں کا ایک امام خاکہ ہے۔ احمد بشیر کے ساتھ ان کی دوستی، شب و روز کے معاملات اور آپس کی بے تکلفی پر رشک محسوس ہوتا ہے۔ مگر خاکہ لکھتے وقت احمد بشیر بالکل اجنبی بن جاتے ہیں۔ وہ نہ انھیں دوستی کی رعایت دیتے ہیں اور نہ ان کے ناز نخرے برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں انھوں نے صرف اپنے اندر کی آوازیں سنی ہیں اور جب ان آوازوں کو انھوں نے قرطاس پر پھیلایا تو ممتاز مفتی ایک سورما بن کر کھڑا ہو گیا۔

ممتاز مفتی کے بعد اور بھی بڑے بڑے لوگ مجھے اس راستے میں ملے جن میں مولانا حسرت موہانی، چراغ حسن حسرت، ظہیر کاشمیری، خواجہ خورشید انور، وارث میر اور دیگر شامل ہیں، جو سب کے سب اپنی اپنی ذات میں کئی دنیائیں رکھتے ہیں اور جن تک رسائی کے تمام راستے صرف احمد بشیر ہی جانتے تھے۔ خاص طور سے خواجہ خورشید انور اور وارث میر کے اندر کے گوشوں میں جس طرح احمد بشیر قاری کو گھماتے ہیں تو ان کے جذبات کی بہتی لہریں صاف نظر آتی ہیں بل کہ ان میں موج زن کیفیات سیدھا قاری کے باطن تک چلی جاتی ہیں اور جب قاری واپسی کا قصد کرتا ہے تو وہ ہوکوں اور آنسوؤں کے کاروانوں کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔ یقیناً یہ احمد بشیر کے سحرانگیز قلم ہی کا جادو ہے، جو قاری کی سنسان آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے جاری کر دیتے ہیں اور کسی بھی بنجر دل میں وہی کیفیات دوڑا دیتے ہیں، جواس شخصیت میں دوڑ رہی ہوتی ہیں۔
حقیقت میں \”جو ملے تھے راستے میں\” جذبات، محبت، کیفیات اور احساسات کے بہتے ایسے جھرنے ہیں کہ ایک راحت آمیز ٹھنڈک روح کے نہاں خانوں تک اتر جاتی ہے۔ جب کہ یہ ایسے راستے ہیں کہ ان راستوں کے راہی یعنی ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب وغیرہ جو بھی اس راستے پر ملتا ہے وہ قاری کو بہت کچھ دے کر رخصت ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ احمد بشیر کے اشاروں ہی پر ہوتا ہے۔

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ \”جوملے تھے راستے میں\” کی سبھی شخصیات پتلیاں ہیں، ان کے دھاگے احمد بشیر کی انگلیوں سے بندھے ہوئے ہیں اور وہ انھیں اپنی مرضی سے نچاتے ہوئے پتلی تماشا دکھاتے پھرتے ہیں۔ بل کہ وہ سب کے سب خود اپنی زندگی کے کڑوے، میٹھے اور دل چسپ سچ دکھانے کے لیے احمد بشیر کو کہاں کہاں لے کر نہیں گھومے پھرے! احمد بشیر ان سب کے تابع ہیں، ان میں سے کوئی بھی احمد بشیر کے تابع نہیں۔ اس بات کا فیصلہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں \”جو ملے تھے راستے میں\” جیسی لازوال کتاب پڑھ کر۔ ایک بات تو میں کہنا ہی بھول گیا کہ کتاب کا اتنا خوب صورت اور حیران کن انتساب میں نے آج تک نہیں دیکھا، جس میں احمد بشیر لکھتے ہیں کہ
\”پیارے ممتاز مفتی! میں نے تمھیں عقل سکھائی اور تم نے مجھے جنون۔۔۔ ہم دونوں ناکام رہے۔\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments