ہیپی ویلنٹائن ڈے


جیسے بالکل سناٹے میں‌ ایک دم سے دو سو چائنا کی پلیٹیں‌ اکھٹی زور سے ٹوٹ جائیں بالکل ایسے نذیر چھینک مارتے ہیں۔ پاس میں‌ بیٹھے لوگ ایکدم اچھل پڑیں! کسی دن مجھے ہارٹ‌ اٹیک ہو جائے گا. آپ پلیز پہلے سانس کھینچ کر کچھ وارننگ دے دیا کریں! کئی بار کہا لیکن ابھی تک کچھ فرق نہیں‌ پڑا۔ دوسری بات یہ کہ انہوں‌ نے پھر کو “فر” کہنا کبھی نہیں‌ چھوڑا۔ میں‌ نے کتنی بار کہا کہ پلیز پھر کو “فر” مت کہا کریں، مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔ ویسے بھی آپ اتنے پڑھے لکھے ہیں اور سات زبانیں‌ جانتے ہیں۔

ایک مصور نے دل کے دروازے کی تصویر بنائی۔ لیکن اس پر ہینڈل تو ہے نہیں‌، اس کو کیسے کھولیں‌ گے؟ کسی نے پوچھا تو مصور نے جواب دیا کہ دل کے دروازے کا ہینڈل باہر نہیں‌ اندر ہوتا ہے اور اس کو اندر سے ہی کھولا جاسکتا ہے آپ صرف دستک دے سکتے ہیں۔ محبت ہنسائے گی بھی اور رلائے گی بھی، محبت قیدی بنا لے گی وہ بھی ایسا کہ پیر میں‌ زنجیر بھی نہیں اور بھاگ بھی نہیں‌ سکتے۔ مجھے اس بات کا قلق رہا کہ فلمی کہانیوں‌ کی طرح‌ پاگل سا عشق کبھی نہیں‌ ہوا۔ محبت ہوئی لیکن وہ اس طرح‌ جیسے بیل ایک عمارت کی دیواروں‌ پر وقت کے ساتھ ساتھ چڑھتی جاتی ہے اور اس کی ہر اینٹ کو اپنی لپیٹ میں‌ لے لیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کو اکھیڑنا چاہیں‌ تو عمارت کا سانس ہی نکل جائے۔

آپ پاکستان جا رہے ہیں تو یہ انگوٹھی لیتے جائیں‌، اس میں‌ جو نگینے گر گئے ہیں‌ وہ کسی سنار سے واپس لگوا لائیں۔ یہ کیا بیکار سی انگوٹھی ہے، اس کو پھینک دو، میں‌ نئی لے آؤں گا۔ میں‌ نے سوچا بیس سال کافی عرصہ ہوتا ہے اور ان کو یاد بھی نہیں‌ رہا کہ یہ انگوٹھی ری پلیس نہیں‌ ہوسکتی۔ یہ چودہ فروری کو نذیر نے مجھے اس وقت دی تھی جب ہم دونوں‌ امریکہ میں‌ ڈاکٹر نہیں‌ تھے ہلکہ چانڈکا کالج میں‌ اسٹوڈنٹس تھے۔ بڑے ماموں‌ نے کہا کہ پاکستان سے کافی سارے ڈاکٹر پڑھ کر آتے ہیں ‌اور وہ یہاں‌ کا امتحان پاس نہیں ‌کر سکتے اس لئیے تم ‌مت جاؤ لیکن میں‌ نے یہ فیصلہ کیا کہ واپس جاکر ڈگری مکمل کی جائے۔ ایک مرتبہ ہمارے کلاس فیلو اسٹیج شو کر رہے تھے جس میں‌ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے کہ تم نے ڈالر دے کر پہلی پوزیشن لی ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہے تھے۔ ہر سال انٹرنیشنل سفر کے جہاز کے ٹکٹ کے لئے ڈالر میں ‌نے خود کام کر کے چھٹیوں‌ میں ‌کمائے تھے اور پوزیشن کالج نے خود دے دی تھی۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں‌ کہ ینگ لوگ بیوقوف ہیں، وہ اپنی زندگی تباہ کریں‌ گے اور ان کے لئے سارے فیصلے ہمیں‌ کر کے دینے چاہئیں وہ بالکل غلط ہیں۔ ہر انسان اپنا اچھا برا خوب سمجھتا ہے۔ ہر کسی کا اپنی زندگی کے لئیے ایک پلان ہوتا ہے کہ ان کا رجحان کس طرف ہے اور ان کو دنیا میں‌ کیا کرنا ہے۔ درست یا غلط فیصلے کوئی بھی کرسکتا ہے۔ ہر چناؤ سے ہم کچھ سیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر روز لوگ اپنے بچوں ‌پر ناپسندیدہ کیریر تھوپ کر اور سطحی جوڑے بنا کر انسانوں‌ کو پیچھے رکھ رہے ہیں اور ان کا مستقبل خراب کر رہے ہیں خاص طور پر لڑکیوں‌ کا۔

جیسا کہ میں‌ نے اس سے پہلے بھی لکھا تھا، میرے ابو ایک کامیاب آرکیٹکٹ تھے۔ ایک دن ہم سب صوفے کی گدیوں‌ سے گھر بنا کر کھیل رہے تھے تو فون آیا کہ ابو کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ اس کے ایک مہینے کے بعد کئی ناکام سرجریوں‌ کے بعد وہ چل بسے۔ پڑوسی اور جاننے والے میری امی سے کہتے تھے کہ آپ کی تین بیٹیاں‌ ہیں، شوہر بھی نہیں تو آپ ان کو جہیز کیسے بنا کر دیں‌ گی اور کون آپ کی بیٹیوں‌ سے شادی کرے گا؟ میری امی نے کبھی ہمارے لئیے جہیز جمع نہیں‌ کیا، انہوں‌ نے سادہ زندگی گذاری اور یہی کہا کہ میری بیٹیاں‌ کالج جائیں ‌گی تبھی بڑے ہو کر ہم لوگ اپنے پیروں‌ پر کھڑے ہوئے۔ ماموں‌ نے ویزا فائل کیا اور ہم لوگ امریکہ شفٹ ہو گئے۔

ایک امریکی کے پاکستانی شوہر نے گرین کارڈ‌ حاصل کرنے کے بعد اس کو چھوڑ دیا حالانکہ وہ اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ میری اچھی دوست بن گئی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کس ملک سے ہو۔ میں‌ نے کہا پاکستان تو کہنے لگی میرا شوہر بھی پاکستانی ہے لیکن یہ ایک سیکرٹ ہے اور تم کسی کو مت بتانا۔ جب اس نے مجھے اپنے شوہر کا نام بتایا تو میرا حیرانی سے منہ کھلا رہ گیا تھا۔ ان دنوں‌ امریکہ میں‌ اتنے دیسی ہوتے بھی نہیں‌ تھے اور خاص طور پر اوکلاہوما میں‌ اتنے تھوڑے تھے کہ وہ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اور یہ لڑکا میرے بھائی کا دوست تھا۔ اتنی کم عمر میں‌ اس نے خود سے کئی سال بڑی 200 پاؤنڈ کی خاتون سے اصلی شادی نہیں کی وہ مجھے صاف سمجھ میں‌ آ گیا تھا۔ حالانکہ میں‌ نے اس کو بتانے کی کوشش بھی کی لیکن اس نے یقین نہیں‌ کیا تھا۔ وہ خود وقت کے ساتھ پتا چل ہی جاتا ہے۔

ایک نہایت شریف اور نیک پاکستانی امریکی فمیلی تھی جن کی بیٹی خوبصورت بھی تھی اور میڈکل میں‌ بھی پڑھ رہی تھی۔ اس کی انہوں‌ نے پاکستان جا کر ارینج شادی کرائی۔ جیسے ہی گرین کارڈ ہاتھ میں‌ آیا تو اس کے شوہر نے طلاق دے دی۔ یہ انتہائی نیچ حرکت ہے اور جس جس کے ذہن میں‌ یہ خیالات کلبلا رہے ہیں ان کو یہ سوچ اپنے ذہن سے بالکل کھرچ دینی چاہئیے۔ شادی ایک بہت بڑا اور سنجیدہ فیصلہ ہے۔ چاہے لڑکے ہوں‌ یا لڑکیاں، بے شک دنیا کے کسی بھی مذہب، نسل یا ملک میں‌ شادی کریں‌ لیکن جب کریں‌ تو اس کو خلوص دل سے نباہیں۔ کسی امریکی شہری سے گرین کارڈ حاصل کرنے کے لئیے شادی کرنا ایک جرم ہے جس کی سزا 250 ہزار ڈالر جرمانہ اور پانچ سال جیل ہے۔

انسان وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے جاتے ہیں۔ ہم خود بھی آج وہ نہیں ‌جو بیس سال پہلے تھے۔ تعلیم، وقت، حالات اور تجربے ہمیں‌ بدلتے ہیں۔ اس کا احساس تب ہوتا ہے جب آپ پرانی تصویریں، خطوط یا ڈائریاں ‌دیکھیں۔ ایک طویل عرصے کے تعلق میں‌ محبت کو زندہ رکھنے کے لئیے اس بدلے ہوئے انسان سے دوبارہ محبت کرنا پڑتی ہے۔ اس میں‌ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں اور ناکام بھی۔ چوتھے سال میں‌ فلائیٹ کینسل ہو گئی تھی اور واپس کالج گئی تو میں‌ نے دیکھا کہ نذیر جو روزانہ شیو کرکے اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے تھے اور ہم ساتھ میں ‌پڑھتے تھے انہوں نے سات دن کی داڑھی بڑھا لی تھی اور بغیر استری کی شرٹ پہن کر اکیلے لائبریری میں‌ بیٹھے تھے۔ میں‌ دیکھ سکتی تھی کہ انہوں‌ نے میرے لئیے اپنے دل کا دروازہ کھول دیا تھا۔

میں‌ ہمیشہ سے ایک اسپیشلسٹ بننا چاہتی تھی کیونکہ میڈیسن بہت بڑی ہے۔ ایک ڈاکٹر ہر فیلڈ کے بارے میں‌ کبھی بھی سب کچھ نہیں‌ سیکھ سکتا۔ اس کے علاوہ میں‌ چاہتی تھی کہ جو بھی مجھ سے شادی کرے وہ میرے لئے کرے۔ ہماری شادی میں ہمارے گھر والے، دوست اور کلاس فیلوز آئے۔ اگلے ہفتے کلاس میں‌ اسٹوڈنٹس نے پروفیسر سے کہا کہ پچھلے ہفتے ساری کلاس غائب تھی کیونکہ ہم سب ان دونوں‌ کی شادی میں‌ گئے ہوئے تھے۔ پروفیسر ہمیں دیکھ کر پلک جھپکنا بھول گئے اور بولے آپ لوگوں‌ نے اپنے ماں‌ باپ کی مرضی سے شادی کی ہے یا خود ہی۔ مجھے بالکل اچھا نہیں‌ لگا کہ انہوں‌ نے مبارک باد نہیں‌ دی۔

جب ہمارا سرجری کا وائیوا ہو رہا تھا تو حالانکہ اس دن نذیر کا ٹیسٹ نہیں‌ تھا پھر بھی وہ میرے ساتھ گئے اور دوسرے اسٹوڈنٹس سے پوچھ کر مجھے آ کر بتا رہے تھے کہ وائیوا میں‌ کیا پوچھا جا رہا ہے۔ میں‌ نے ان سے کہا کہ میں‌ اپنا امتحان خود دے سکتی ہوں، آپ گھر چلے جائیں لیکن ہمیشہ نذیر نے میرا ایسے ہی خیال کرنے کی کوشش کی ہے جیسے میں‌ ایک ننھی منی بچی ہوں جو دنیا میں‌ گم ہوجائے گی۔ جب میں‌ اور ایلس ممبئی میں‌ اپنے جہاز کے گیٹ کے پاس بیٹھے تھے تو میں‌ نے نذیر کو ٹیکسٹ کیا کہ ہماری واپسی کی فلائٹ نکلنے والی ہے۔ انہوں‌ نے لکھا کہ اگر انڈیا والوں‌ نے تم لوگوں ‌کو پکڑ لیا تو میں‌ چھڑانے آ جاؤں‌ گا۔ یہ پڑھ کر میں‌ بہت ہنسی اور جواب میں‌لکھا کہ \”آئے ایم کاؤنٹنگ آن اٹ\”۔ میں‌ بس اسی بات پر انحصار کررہی ہوں۔

جب فیلوشپ ختم کرنے کے بعد نارمن ہسپتال میں‌ کام کرنا شروع کیا تو میں‌ جہاں‌ بھی جاتی نرسیں‌ کہتیں، اوہ آپ ڈاکٹر بلوچ کی بیوی ہیں، آپ تو بالکل چھوٹی سی ہیں پھر وہ ہنس پڑتیں۔ میں‌ نے نذیر سے پوچھا کہ معلوم نہیں‌ آپ نے میرے لئیے سب کو کیا بتایا کہ وہ ایک لمبی چوڑی مسز بلوچ کی توقع کررہے تھے اور ان کا ری ایکشن ایسے ہے جیسے کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ ویسے بھی دنیا میں‌کچھ بڑا کرنے کے لئیے سائز میں‌بڑا ہونا ضروری نہیں ‌ہوتا۔

ایک مرتبہ ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ میرے ساتھ روٹیشن کررہا تھا۔ میں‌ نے اس کو کہا کہ دو منٹ انتظار کرو، میرے شوہر اپنے کسی مریض‌ کے لئیے اینڈوکرائن کا سوال پوچھ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے اپنی بیوی سے میڈیکل کا سوال کرتے ہوئے عجیب لگے گا تو میں‌ نے اس کو کہا کہ اسٹوڈنٹ‌لائف میں‌ ایسا ہی لگتا ہے۔ ہر فیلڈ اپنے دائرے میں‌ آگے بڑھ رہی ہے، نارمن میں‌ سب جانتے ہیں کہ نذیر ایک قابل ڈاکٹر ہیں۔ جب آپ کی تعلیم مکمل ہوجائے گی اور آپ کو خود سے زیادہ اپنے مریض کی فکر ہوگی تو ایسا محسوس نہیں‌ کریں‌ گے۔

اینڈوکرائن کی کانفرنس میں‌ ہمیں‌ ایک ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایک کامیاب خاتون کے پیچھے ایک آدمی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ بالکل صحیح ‌ہے۔ اصلی محبت یہ نہیں‌ کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی بھینٹ چڑھایا جائے، اصلی محبت ساتھ میں‌ پنپنے اور بڑھنے میں‌ ہے۔ پچھلے ہفتے میں‌ نے پھر سے نذیر کا ٹیسٹ لیا تو انہوں‌ نے پھر سے فر ہی کہا۔ اس لئیے قارئین میں‌ سے جو بھی یہ سمجھ رہے ہیں‌ کہ آپ اپنے پارٹنر کو بدل سکتے ہیں‌ تو اپنے ذہن میں‌ سے اس بات کو نکال دیں۔ محبت دوسرے کو اسی طرح‌ قبول کرنے کا نام ہے جیسے وہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments