دوسرے جنم میں بانو آپا زبیدہ آپا بن جائیں گی؟


\"\" دو زبانوں میں دو درجن سے زیادہ تصانیف… بیسیوں لازوال ڈرامے، خاکے اور کروڑوں پاکستانیوں کو اپنے روحانی امیج سے متاثر کرنے والی اٹھاسی سالہ بانو کی وفات محض ایک شام کی اداس خبر تھی ؟

نہیں۔

ہمیں چند دن ضرور اس ساحرہ پہ گفتگو کرنا چاہیے جو لگ بھگ نصف صدی تک مملکت پاکستان میں علم و حکمت کا مقدس استعارہ سمجھی جاتی رہیں۔ ہمارے وہ جذباتی اور انتہا پسند لبرل دوست جو انہیں ادیب ماننے ہی سے انکاری ہیں، ایک اور انتہا پر ہیں ۔

 کیا ہم پچھتر فیصدی قارئین اور ناظرین کے دلوں پر راج کرنے والی اس افسانہ و ڈرامہ نگار کے تخلیقی جوہر اور فنکارانہ صلاحیتوں سے انکار کر سکتے ہیں؟ وہ بلاشبہ نکتہ دان تھیں، نکتہ سنج تھیں، ذہین تھیں کہ لڑکپن میں موت کا منظر، بہشتی زیور اور کشف المحبوبی قصص چھوڑ کر رومانس، لاشعور اور ارسطو کے جذبہ ترحم کو خود میں، ہم میں زندہ رکھا۔۔ نہ رکھتیں تو آج کا پاکستان شاید آج کا افغانستان ہوتا۔

ہمارے بچپن کو انہوں نے ہی بولنا سکھایا، لکھنا سکھایا، مقدس ڈائجسٹوں اور سی پارہ بکھرے اخباروں سے بچایا ۔ ڈرامے کی نزاکتوں کا اچھا ذوق دیا۔ انسانیت بالخصوص نسوانیت سے محبت پیدا کی۔ مشرقی لڑکی کو اس کی ذاتی زندگی میں کامیابی کے نفیس ترین ٹوٹکے بانو آپا سے بہتر کون بتا سکتا تھا۔ اشفاق احمد سے ایسے نباہ کی کہ پھر آہ کی نہ کوئی اور چاہ۔۔۔ جنس، محبت، اخلاقیات کی نفسیات کو زوال تک کریدا، کمال تک کریدا۔

وہ از حد تخلیقی خاتون تھیں۔۔ افسوس یہ ہے کہ ان میں اتنا جوہر تھا کہ وہ صف اول کی دانشور ادیبہ بن سکتی تھیں.. قرة العین سے لے کر فہمیدہ ریاض تک میں، وہ مشاہدے اور اظہاریے میں کئی اعتبار سے ممتاز تر تھیں ۔ کاش وہ اپنا فوکس بنیادی اخلاقی تجربوں اور ماورائی مبہم مشاہدوں تک محدود نہ رکھتیں تو ادب اور معاشرہ پہ بہتر طور پر اثرانداز ہو سکتی تھیں۔

وہ ایک متوسط خاندان سے اٹھیں اور اشرافیہ پر چھا گئیں۔ طویل عرصہ ذرائع ابلاغ سے لے کر غلام گردشوں کے فراغتی و عقیدتی لمحات کا مرکز رہیں۔ وہ باآسانی ایک کے بجائے نناوے فیصد کی حریت فکر کی بیلی بن سکتی تھیں، مگر وہ گرتے شہاب کی سہیلی بنیں۔ طلسم ہوش ربا  مگر پھر بھسم۔۔۔

 وہ، آج کی بدلتی ٹٹولتی دنیا میں، ’ ملکہ مزاحمت، بنت حقیقت، مادر قرطاس‘ جیسے القابات لے سکتی تھیں مگر انہوں نے ملکہ جذبات اور ’ام ماورات‘ بننا پسند کیا جسے، بہرحال، ادبی مؤرخ سیاہ تاریخی دور کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی کوتاہی ہی لکھے گا۔

ایک ادیب کی سماجی مباحث میں شمولیت پر بحث اگر گنجلک ہے تو اسے رہنے دیجئے۔۔۔۔ مگر ان کے دور عروج میں خود انہی کے شعبہ کے خرد افروزوں پر جو ظلم ہوا۔۔۔۔

ایوب سے نمرود دوراں کے عہد تک ترقی پسند ادیب مردود، معتوب اور محبوس ٹھہرے۔ اہل نظر جو اہل دل بھی تھے، نے تو مودودی صاحب تک کے قلم کی آزادی پر اصرار کیا مگر وہ چپ رہیں… فیض احمد فیض ، حبیب جالب، احمد فراز، خاور نعیم، منہاج برنا، گل خان نصیر اور جانے کون کون ۔۔ ساٹھ اور اسی کی سیاہ دہائیوں میں کوئی زنداں میں جا لگا تھا تو کوئی بستر کرب پہ…کسی کو کوڑے لگے کسی کو ہتھوڑے ..بازار میں پابجولاں گھسیٹے جانے والے ان سرپھروں کا جرم وہ جانتی تھیں… اسباب تک کو جانتی تھیں..ہر صدیق اور ہر شہاب کو جانتی تھیں۔۔۔

 ایسا بھی نہیں کہ انہیں مسئلہ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ تو حل بھی جانتی تھیں..ان کے میاں نے تو فیض کو ’ملامتی صوفی‘ کہہ کر اپنے حصے اور نسبت کا فرض بھی ادا کر دیا تھا اور قرض بھی مگر وہ سارے فسانے میں یہ سب ناگوار باتیں حذف کرتی گئیں اور نتیجہ یہ کہ آگے بڑھتی گئیں۔۔ ممکن ہے انہیں اس تجاہل عارفانہ پر خفت ہو اور اسی کی تلافی کے لیے تمام ادبی صلاحیتیں انسان دوست جدتی موضوعات پر فوکس کررکھی ہوں.. اور ممکنہ حد تک ملنے والی اجازت سے جبرزدہ سماج کو بزعم خود ترقی پسندی کی طرف کھینچا ہو۔

شاید اسی لیے ان کے موضوعات میں مشرقیت، نسوانیت، نسائیت کے ساتھ ساتھ سلگتی جنسیت بھی دکھائی دیتی ہے۔ بہرطور یہ ایک اچھی بات تھی کہ وہ نذیرہ دہلوی نہیں بنیں۔ نیکوکار کے ساتھ انہوں نے بدچلن اور بری عورت کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی مگر ان سے کم لکھنے اور چھپنے والی عصمت، فہمیدہ، نسرین، کشور وغیرہ اس میدان میں متفق علیہ ان سے آگے رہیں…

 ایسے ہی تہذیبی تربیت میں ان کی خدمات بھی اس عہد کے مروجہ تعلیمی نظام سے کچھ مختلف نہ تھیں جسے بعینہ اساتذہ، علما اور میڈیا کی طرف سے پیش کیا جا رہا تھا۔ شورائی صلواة کمیٹیوں سے تعلیمی جہادی حکایات تک۔۔ باپردہ اخبارات سے قناعتی نگارشات تک ، تلقین شاہی رنگ ہر طرف پچکاریاں مار رہا تھا۔۔ایسے میں ان کا روایتی تہذیب پر اصرار کچھ خاصے کی چیز محسوس نہیں ہوتا۔

خیر۔ باطن کی یہ سب تاریکیاں چھوڑ بھی دیں مگر خارج!

 المیہ۔۔عظیم ترین تاریک المیہ۔۔ جب ملک ٹوٹ گیا

سقوط پاکستان قیام پاکستان سے بڑا واقعہ تھا ۔ ملک ٹوٹنے کے بعد انہوں نے اپنی باقی ماندہ ریاست کو محفوظ بنانے کی بحث ایک بار بھی چھیڑی…؟

کمزور اکائیوں، جمہوری آئینی اداروں کے استحکام، آزادی ٔاظہار وغیرہ کے حق میں آواز بلند کی؟

اپنی ٹوٹ پھوٹ سے ہانپتا کانپتا ملک پانچ سال میں ہی دو سپر پاورز کا پایہ توڑ بستر بن چکا تھا، سرمایہ داری اور اشتراکیت کے اس گھمسانی رن کے لیے ہم نے اپنے میدان پیش کر دیے تھے ۔۔کیا واحد سرکاری ٹی وی پر مکمل اختیار ہونے کو باوجود انہیں کبھی خیال آیا کہ قوم کو وہ بالکل نہیں دکھایا جا رہا جو ایٹم بم گرنے سے زیادہ بڑا واقعہ ہے..یعنی پڑوس کے دو ملکوں کی باہمی چپقلش میں بنا کسی توجیہہ کے کودتے ہوئے ریاست اپنی قوم سے رائے تک نہیں لے رہی.. ریاستی ادارے پڑوس کی سپر پاور سے ٹکر لے کراور دور کی سپرپاور کو مکر دے کر ان سنپولیوں سے شیر و شکر ہو رہے ہیں جو کل دراز دستی کر سکتے ہیں۔ مار سکتے ہیں، مر سکتے ہیں!۔۔ ایسے میں وہ ہمیں رزق حلال، دیہی رومانویت اور شہری جنسیت کے کمال دکھا رہی تھیں ۔ حالانکہ رزق حلال پر علما ، اساتذہ، میڈیا اور رومانوی کمال پر موسیقار، گلوکار،مصور وغیرہ زیادہ پراثرا نداز میں سامنے آ رہے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک ادیب سیاست دان نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ روشن خیالی کی بات کرسکتا ہے جو انہوں نے کی۔ سچ یہ ہے کہ سن اسی کی دہائی میں فری مارکیٹ اکانومی کا چلن تھا۔ جدید صنعتی پراڈکٹس کے لیے پندرہ کروڑ کی منڈی سج رہی تھی… لبرل ازم تو آنا ہی تھا ۔ زوہیب نازیہ ٹی وی پر سہمے سہمے رقص کرتے تھے اور سیف گیمز میں سر گھماتی پاکستانی ایتھیلٹس دوڑ تی تھیں۔ خود انہوں نے اس عہد سے بہت پہلے لو میرج کی۔ ستر اسی کی دہائی میں ٹی وی کیمرہ کا گلیمر دیکھا سو اس کشادگی کا طبع میں آنا قابل حیرت نہیں۔.. رہ گئیں تحلیل نفسی کی وہ پیچیدگیاں جن پہ وہ پہروں سوچتی لکھتی تھیں، تو انہیں ادب کا حصہ بنانا کس حد تک ضروری تھا۔ اس پہ بحث دلچسپ ہو سکتی ہے!

بانو قدسیہ جیسی عظیم صلاحیتوں کی مالکہ کا جیون تمام ہوا ۔ تاہم ان کی روحانی روح اگر پرواز کرے اور آج کے سماج میں سرمایہ داری کی برپا کی گئی دہشت، افراتفری، نفسا نفسی، جنونیت کے گراف کو دنیا میں بلند ترین سطح پر دیکھے تو اتنا ضرور مانے گی کہ کاش وہ صبری شکری ٹوٹکوں کے بجائے قوم کو قومی بقا اورسماجی ارتقا کا تاریخی و سیاسی شعور دے پاتیں۔۔ ان کی روحانیت اگر ان سے سات ہزار صفحات لکھوا سکتی ہے تو خود ان سے مخاطب ہو کر ایک جملے کا یہ طعنہ بھی دے سکتی ہے۔

” بانو! مان جائیے! کالا من دھن اجالنے کے خیالی ٹوٹکے ناکام ہوئے اورچمکتے یوٹوپیا سے سماج میں کالک مزید بڑھی۔ آپ سے اچھی تو زبیدہ آپا رہیں، من نہ سہی، تن ہی سہی، گورا کرنے کا صابن تو لانچ کر ہی دیا۔

بانو آپا ۔کاش آپ زبیدہ آپا ہی بن جاتیں!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments