گاندھی جی اور جناح میں بے تکا تقابل


\"\"مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح میں تقابل پر حاشر بن ارشاد اور یاسر لطیف ہمدانی کی بحث نے ایک بات تو طے کر دی اور وہ یہ کہ یہ دونوں ہی اصحاب مہاتما گاندھی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے باپو کے بارے میں کافی پڑھا ہے۔ میرا تعلق بھارت سے ہے اور اگر نہ بھی ہوتا تب بھی باپو کے بارے میں اپنے معمولی سے مطالعے کے سبب میں اس بحث میں ضرور کودتا۔ مہاتما گاندھی کے تعلق سے حاشر بن ارشاد نے جو کچھ اپنے مضمون میں فرمایا ہے اس سے عدم اتفاق کا اظہار کرنے سے پہلے اگر ایک بار تاریخ کے صفحات پلٹ لئے جائیں تو شاید مضمون میں موجود حقائق سے انکار مشکل ہو جائے گا۔ مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح کا تقابل کیا جانا بجائے خود سمجھ سے بالاتر ہے۔ حاشر اور ہمدانی دونوں خود بھی اس پر مصر ہیں کہ تقابل انہیں مقصود نہیں لیکن گفتگو مکمل طور پر تقابل پر ہی ہو رہی ہے۔ خیر یاسر لطیف ہمدانی نے حاشر بن ارشاد کے جوابی مضمون کے جواب میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس پر مجھے کچھ عرض کرنا ہے۔ یہ بات سننے میں شائد ناگوار لگے لیکن سچائی یہی ہے کہ عالمی پیمانے پر گاندھی جی کو جو مرتبہ حاصل ہوا وہ جناح کو نہیں مل سکا۔ اس کی بس ایک مثال لے لیجئے۔ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایک بار نہیں بار بار کہا کہ انسانی تفریق کے خاتمے کے سلسلے میں وہ مہاتما گاندھی سے متاثر ہیں۔ اوبامہ نے ایسا کوئی بیان جناح صاحب کے بارے میں نہیں دیا اور اگر دیا ہو تو مجھے علم نہیں۔ اگر اتنے پر تسکین نہ ہوئی ہو تو ایک اور بات سن لیجئے دو اکتوبر مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش ہے، پندرہ جون 2007 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کو بین الاقوامی یوم عدم تشددکے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ ظاہر ہے اتنے ممالک نے یہ فیصلہ کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا اور انہیں گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کا علم تو رہا ہی ہوگا۔

ہمدانی صاحب مورخین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ گاندھی جی نے برصغیر ہند میں مذہب کو سیاست میں داخل کیا اور بالآخر اسی سوچ کا تسلسل تھا کہ ملک تقسیم ہوا اور پاکستان بنانا پڑا۔ اب یہ ایک ایسی بات ہے جس پر جتنا غور کیجئے اتنا سر گھوم جاتا ہے۔ گاندھی جی بار بار تقسیم سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ ملک کو مذہب کی بنیاد پر دو حصے کرنے کی بات تو مسلم لیگ نے کی تھی، یا کھل کر کہوں کہ جناح صاحب نے کی تھی۔ اب یہ خوب رہی کہ جناح صاحب نے ملک کو مذہب کی بنیاد پر دو کرنے کی بات کہی اور آج تاویل یہ ہو کہ جناح صاحب نے جو کچھ کیا وہ گاندھی جی کا بویا ہوا فلسفہ تھا۔ اچھا ایک اور بات بتایئے۔ اگر گاندھی جی مذہب کو سیاست میں داخل کر رہے تھے تو انہوں نے تقسیم کے بعد بھی بھارت کے سیکولر کردار پر کیوں تاکید کی۔ مسلمانوں کو تو ان کے مطالبے کے مطابق پاکستان مل چکا تھا، اب بھارت کو ہندو مملکت بھی تو بنایا جا سکتا تھا لیکن گاندھی جی نے کبھی نہیں کہا کہ ہمیں بھارت کو ہندو جمہوریہ بنانا چاہئے۔ اب ذرا بتائیے کہ مذہب کو سیاست میں کون لایا؟ ہمدانی صاحب کا سونے پر سہاگہ یہ کہ مورخین کے کاندھے پر بندوق رکھ کر یہ فائر بھی داغ دیا کہ گاندھی ہی احراریوں اور مولویوں کو سیاست میں لائے تھے جو بعد میں پاکستان پر مسلط ہو گئے۔ گویا پاکستان کی ذبوں حالی کا ذمہ بھی گاندھی جی کے ہی سر۔ سبحان اللہ! گاندھی جی ہمیشہ مذہبی شدت پسندی کے مخالف رہے، بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی جان اسی مذہبی شدت پسندی نے لی۔

ایک جگہ فرمایا گیا کہ گاندھی جی کا اصل مقصد جناح صاحب جیسے سیکولر مسلمانوں کو پس پشت ڈالنا تھا۔ اب گاندھی جی کی یہ منشا ان کے کس بیان سے ثابت ہوئی؟ اگر انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا تو پھر ایسا کون سا مورخ ہے جو دلوں کا حال جان کر تاریخ رقم کرتا ہے؟

ہمدانی صاحب کا مضمون کہتا ہے کہ گاندھی کو جناح کھٹکتے تھے اس لئے کہ جناح ہی تھے جنہوں نے لکھنؤ پیکٹ کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کو یقینی بنایا تھا۔ یہ بھی خوب رہی، جناح صاحب کو ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار قرار دینے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ گاندھی جی عمر بھر کیا کرتے رہے؟ کیا گاندھی جی نے ہفتوں ہفتوں اس بات کے لئے بھوک ہڑتال نہیں کی کہ مسلم مخالف فسادات رک جائیں۔ اپنی موت سے چند ہفتے پہلے بھی گاندھی جی ہندو مسلم یکجہتی کے لئے کی گئی اپنی بھوک ہڑتال سے اٹھے تھے۔ جس وقت بھارت میں آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا گاندھی جی دہلی سے دور ہندو مسلم فساد رکوانے کے لئے پاپڑ بیل رہے تھے۔ کیا یہ سب محض دکھاوا تھا؟

ہمدانی صاحب نے یہ کہہ کر بڑی زیادتی کی ہے کہ بھارت کے کسی بھی دلت سے بات کیجئے وہ گاندھی جی کے خلاف بولے گا۔ شاید ایسا حتمی حکم تو بڑے سے بڑا نباض معاشرہ بھی نہیں لگا سکتا تھا جیسا ہمدانی صاحب چٹکیوں میں لگا بیٹھے۔ انہیں کس نے بتایا کہ بھارت کا ہر دلت باپو سے شاکی ہے؟ اس کے برعکس اس ملک میں رہنے والے کسی بھی شخص سے تصدیق کرائی جا سکتی ہے کہ آج ملک میں دلتوں کی جتنی تحریکیں کام کر رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا فکری منبع گاندھی کے ہی خیالات ہیں۔ گاندھی جی نے جتنی بار بھوک ہڑتالیں کیں ان میں سے بہت سی دلتوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی تفریق کے خلاف تھیں۔ تحریر سے لے کر عمل تک گاندھی نے دلتوں کے حق کی کتنی لڑائی لڑی ذرا سا گوگل کرکے پتہ کیا جا سکتا ہے۔ اخیر میں ایک گذارش یہ ضرور کرنا چاہوں گا بلکہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا یہ گاندھی جی کے ساتھ زیادتی نہیں کہ ناتھو رام گوڈسے نے انہیں اس الزام میں قتل کر دیا کہ وہ مسلمان نواز ہیں اور ہمدانی صاحب کے ہم فکر افراد اس کوشش میں مصروف ہیں کہ گاندھی جی کو مسلمان دشمن ثابت کر سکیں۔

مہاتما گاندھی اور جناح صاحب میں تقابل کی ضرورت نہیں ہے۔ جناح ایک ملک کے قیام کے خواہاں تھے اور اس ملک کے قیام کے ساتھ ان کا کام مکمل ہوا۔ گاندھی جی معاشرے میں عدم تشدد کے رویے کو رواج دینے کے پیغامبر تھے، ان کا مشن آج بھی جاری ہے۔ جب جب تشدد کا بازار گرم ہوگا اور عدم تشدد کی ضرورت محسوس کی جائے گی دنیا اس درویش کو یاد کرے گی جس نے ایک ملک کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی اور بنا کوئی عہدہ لیئے خاک نشینی میں ہی دنیا کو الوداع کہہ گیا، نہ وہ وزیر اعظم بنا اور نہ گورنر جنرل۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments