غیرت: ایک سوچ جسے تبدیلی کی اشد ضرورت ہے


\"\"کل سے ایک خبر مسلسل سوشل میڈیا پر لگی ہوئی ہے، غیرت کے نام پر حنا شاہنواز کا قتل۔ مقتولہ کا تعلق کوہاٹ سے تھا اور وہ ایم فل پاس تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھرانے کی واحد کفیل تھیں جن کے زیرکفالت ان کی بیمار والد رہے جو کینسر کے خلاف لڑ رہے تھے اور ان کے علاج کی وجہ سے بھی وہ زیر قرض تھیں. والد کے انتقال کے چند ماہ بعد بھائی بھی قتل ہوگیا، اور بھابی اور ان کے دو بچوں کی کفالت بھی حنا کے ذمے آ گئی۔ کچھ عرصے بعد شوہر کی وفات کے بعد بیوہ بہن بھی حنا کے کنبے میں شامل ہوگئی اور بھانجے کی کفالت ہی نہیں بلکہ اس کی کسٹڈی کے مقدمے کا سامنا بھی حنا کو ہی کرنا پڑا۔ قرض اور اخراجات کے باعث حنا نے جائیداد کا کچھ حصہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا لیکن 6 فروری کو جان کی بازی ہار گئی۔

حنا کے کزن نے غیرت کے نام پر حنا کو قتل کر دیا۔ غیرت؟ حنا کی کہانی سننے کے بعد میں اسی سوچ میں گم ہوں کہ اس سب میں غیرت کہاں ہے؟ پہلے ہم لغت سے غیرت کے معنی دیکھ لیتے ہیں، لغت کہتی ہے غیرت کے معنی\” پاس ناموس، احساس عزت اور وہ انسانی خاصیت ہے جو بےعزتی گوارا نہیں کرسکتی\”۔ یعنی اگر کوئی آپ کی بے عزتی نہ کرے ورنہ غیرت کا جوش عود کر آسکتا ہے۔ لیکن کیا غیرت یہ کہتی ہے کہ یہ جذبہ غصہ، جھگڑے، لڑائی کا متبادل ہے؟ یا اس کے معنی بہادری، دلیری، اکھڑ پن کے ہیں؟ لغت میں غیرت کے مترادفات ہیں\” آبرومندی، آن، حیا، خوددداری، حمیت، شرم، لاج، اور ندامت۔ ان میں بھی کہیں اس نفرت اور عناد کے الفاظ نظر نہیں آرہے جو لفظ غیرت کے نام پر فساد برپا کرنے والے افراد کی زبان پر ہوتے ہیں۔

آتے ہیں اب حنا اور دوسری لڑکیوں کی کہانی پر جنھیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ غیرت کہتی ہے اپنی عزت کا احساس کرو۔ فرد کی عزت اور توقیر کیا ہے؟ اپنی ذمہ داریوں سے بحسن خوبی عہدہ برآ ہونا اور دوسروں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا تاکہ جواباً آپ کی عزت محفوظ رہے۔ اچھا یہ لفظ عزت بھی تھوڑا تشریح طلب ہے۔ عزت سے ایک عمومی مراد گھر کی خواتین لی جاتی ہیں یعنی مرد گھر میں یا گھر سے باہر جو کچھ کرتا رہے وہ عزت نہیں ہوتی بلکہ عزت یہ سمجھی جاتی ہے کہ گھر کی خاتون نظر جھکائے بے دام غلام بنی گھر کی چاردیواری میں بےشک بھوکی پیاسی پڑی رہے لیکن اف نہ کرے، مار کھائے باتیں سنے، طعنے سہے، گھر کے اندر آنے والوں کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کا شکار بھی ہوجائے لیکن خود کسی بھی احساس سے عاری مشینی زندگی گزارے جو اس ٹائم ٹیبل اور قواعد کے عین مطابق ہو جو گھر اور معاشرہ اس کے لیے سیٹ کرتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی ایسا نہیں کرتی تو وہ مار دی جاتی ہے۔

یہ غیرت کے نام پر قتل نہیں بلکہ حسد، جلن، احساس کمتری، اور تشنہ ہوس کی وجہ سے کیا گیا قتل ہے جسے غیرت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر کبھی قتل نہیں ہوتا غیرت ایک مثبت جذبہ ہے جو کسی کے سر پر چادر ڈالتا ہے اسے خوشیاں دیتا ہے۔ آپ کی غیرت یہ ہے کہ آپ کی عورت پورے اعتماد سے دنیا کے سامنے ڈٹ سکے کیونکہ اسے پتا ہو کہ اس کی بیک مضبوط ہے کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ کزن کے قتل کرنے کی صاف وجہ یہی ہے کہ اسے خاتون کا اعتماد اس کا اپنے گھر کا سہارا بننا پسند نہیں آیا، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بےغیرت مرد کو طعنے ملتے ہوں کہ وہ ان خاتون سے کم یا بالکل ہی نہیں کماتا اور سب سے واضح اور قرین قیاس وجہ اس ذلیل شخص کا رشتہ ٹھکرانا ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے اشتعال میں آکر یہ قدم اٹھایا گیا تاکہ غیرت کا نام دے کر خود کو ہیرو بھی ثابت کیا جا سکے۔ ہمارے ہاں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی بنیادوں میں اکثر یہی وجوہات پائی جاتی ہیں۔ مرد کسی بھی عورت کو کسی گھر کا کفیل، کسی ادارے میں انتظامی امور چلانے یا اپنی زندگی کے لیے خود اپنے اصول وضع کرنے کی اجازت نہیں دیا کرتے۔

قندیل بلوچ کے قتل میں بھی میری یہی رائے تھی کہ وہ قتل غیرت میں آکر نہیں کیا گیا۔ اگر ہماری قوم اور معاشرہ ایسا ہی غیرت مند ہے تو یہ معصوم طوبیٰ کی عصمت دری اور قتل کیے جانے کی کوشش پر غیرت میں کیوں نہیں آیا؟ یہاں چھوٹی چھوٹی بچیاں ہی نہیں بچے بھی ریپ ہوتے ہیں لیکن کسی کو غیرت نہیں آتی۔ قصور ریپ اسکینڈل تو سب کو یاد ہوگا جہاں بہت سارے بچوں کی عصمت دری اور ان کی وڈیوز بنانے کے گھناؤنے فعل کا ارتکاب کیا گیا تھا، کون غیرت میں آیا؟ وقت کی گرد میں سب مجرموں کے چہرے دھندلا گئے اور اب سب دھوئے دھلائے پاک صاف بیٹھے ہیں۔

انسان کے جسم پر سب سے زیادہ حق کس کا ہوتا ہے؟ خود اس کا اپنا۔ ہم اپنے جسم کے ناز اٹھاتے ہیں، اس کی صفائی و آرائش سے بھی بڑھ کر اس جسم کی حفاظت، موسموں کی شدت سے، آلام سے، بیماریوں سےاور سب سے بڑھ کر بھوک سے۔ جب اپنے جسم کے لیے ہم پر اتنی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں تو ہمارے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ اور وہ حقوق جسم سے اپنی سہولت کے مطابق کام لینے، اپنی امنگوں اور سوچ کے مطابق اپنے جسم سے محنت لے کر خود کو خوشی اور آسودگی دینا ہمارا حق ہے۔ اپنے جسم کو وہ لباس پہنانا جس میں ہم خود کو اچھا محسوس کریں یہ ہمارا حق ہے۔ اپنے جسم کو اس لمس سے ہمکنار کرنا جو ہمیں سرور خوشی اور سکون دے یہ بھی ہمارا حق ہے۔ اگر کوئی ہمیں ہمارے اس حق سے محروم رکھنا چاہے یا محروم رکھنے کی کوشش کرے تو یقیناً غیرت کو جوش آنا چاہیے۔ ہمارے احساس عزت کو ٹھیس پہنچنی چاہیے۔ لیکن دوسروں کو کس نے یہ حق دیا کہ ہمارے جسم کو لے کر اپنی غیرت کا مسئلہ بنائے؟ ہمارا جسم ہے ہماری مرضی ہے، ہمارے پہنے اوڑھنے کھانے پینے میل جول برتاؤ سے یا کسی کے ساتھ ڈیٹ کرنے یا کسی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر بھی کسی دوسرے کی عزت کو کیوں آنچ پہنچنے لگتی ہے؟ کیوں لوگ اپنے کام سے کام نہیں رکھتے؟ کیوں ہم سب نے مفت کی چوکیداری کا بار اپنے سر نہ صرف لادا ہوا ہے بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی اجیرن کر رکھی ہیں۔

سوچیے! جب تک ہم غیرت کی اپنی مرضی کی تعریف پر ڈٹے رہیں گے لوگ اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے۔ ہمارے اطراف لوگوں بالخصوص خواتین کی زندگی مشکل کا شکار رہے گی۔ آپ کتنے قتل کریں گے اپنی غیرت کی غلط تشرح کے ہاتھوں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم تھوڑی سی اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ عزت اور غیرت کے احساس کو صرف اپنی ذات تک اور اپنی ذات کے لیے مخصوص کریں۔ اپنے اصول زندگی زبردستی دوسروں پر منڈھنے سے گریز کریں۔

حنا کے جانے کے بعد اب اس کے کنبے کا کیا بنے گا؟ اس کی بیوہ بھابی جو تعلیم یافتہ نہیں وہ معاشرے کے بھیڑیوں سے خود کو بچا کر کیا اپنے اور کنبے کا پیٹ پال سکے گی؟ کیا بیوہ بہن اپنے بچے کو تعلیم دلا پائے گی؟ کتنے چراغ اس ایک چراغ کے سہارے جل رہے تھے۔ ایسے کتنے ہی چرغ کسی نہ کسی کے سہارے جل رہے ہوتے ہیں۔ جینے دیں، اس لیے کہ بہت سے لوگ اپنی ایک زندگی میں کئی زندگیوں کو زندہ رہنے میں مدد دے رہے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments