کہتے چلو فسانہ ہجراں ….


\"mujahid\"ایک معاصر روسی ادیب کا ایک قول نظر سے گذرا جو یوں تھا،” تاریخ کوئی استانی نہیں بلکہ نگران خاتون ہے چنانچہ تاریخ کچھ نہیں پڑھاتی (سکھاتی) البتہ سبق یاد نہ رکھنے پر کڑی سزا ضرور دیتی ہے“۔ ساتھ ہی مجھے ہائی سکول میں اپنے انگریزی کے استاد گوہر علی صاحب یاد آ گئے، جن سے سیکھے ہوئے لفظوں کے معانی میں آج بھی دسویں بارہویں کے طالب علموں سے ان کی انگریزی زبان کی استعداد آنکنے کی خاطر، موقع ملے تو پوچھ لیتا ہوں مثلاً انہوں نے ہمیں دیہات کے سکول میں ’فینٹی سمگوریا‘جیسے الفاظ سکھا دیے تھے۔ وہ یہ اضافی تعلیم پوری کلاس کو نہیں دیتے تھے بلکہ چنیدہ آٹھ دس لڑکوں کو سکول کا وقت ختم ہونے کے بعد نصاب سے علیحدہ انگریزی زبان میں لکھی کوئی کتاب تخصیصی طور پر ایک گھنٹہ مزید پڑھا کر دیتے تھے۔ باقی کلاس کو وہ نااہلی کی کڑی سزا دیتے تھے یعنی ہتھیلیوں پر ڈنڈے مار کر جو اس زمانے میں رواج تھا۔ بالآخر بہت غبی لڑکوں کو وہ کہہ دیا کرتے تھے،’جاؤ صاحب، آپ کو آج سے پنشن ہے‘ یہ فقرہ کہنے کے بعد وہ اسے کبھی کوئی سزا نہیں دیتے تھے اور نہ ہی اس پر توجہ دیتے تھے۔ وہ ایک ایسے استاد تھے جو پنشن کے بعد معمّر ہونے کے باوجود، لوگوں کی منت کرکے ان کے بچوں کو بلا معاوضہ پڑھانے پر اصرار کیا کرتے تھے۔ شاید ماسٹر صاحب آگاہ نہیں تھے کہ اسباق سے پہلو تہی کرنے والے چند نہیں بلکہ بے تحاشا ہیں۔

یورپ میں نشاة ثانیہ کے کوئی چار صدیوں بعد اب کچھ جوان اور کچھ ادھیڑ عمر باعلم دوستوں نے سعی کرنا شروع کی ہے کہ جتنوں کو ہو سکے مختلف اصطلاحات کے معانی، ان پر عمل کرنے والوں کے اوصاف، اس عمل کے نقائص و خصائص سے آگاہ کریں۔ ایسا کرنے کے لیے زیادہ تر معاصر ذریعہ ہائے ابلاغ یعنی انٹرنیٹ یا ای پیپرز سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اس میں مخالف یا مختلف نقطہ نظر رکھنے والے بھی اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ بعض مناظرہ کے انداز میں اور اکثر مکالمہ کے انداز میں۔ اس خوش کن اور بہتر کارخیر کے علاوہ ایک اور اہم واقعہ یہ ہوا کہ پاکستان کی سول ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ نے پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا ’ضیا الحق کے بعد کی دو نسلوں کے ذہن تبدیل ہو چکے ہیں۔ انہیں پھر سے بدلنے (راہ راست پر لانے) کے لیے ہمیں مزید دس برس انتظار کرنا ہوگا‘۔ حیرت اس پر ہے کہ انہوں نے یہ انکشاف ایک ایسی حکومت کے دور میں دیا ہے جس کے وزیراعظم میاں نواز شریف ہیں جو اسی ضیا الحق کے روحانی فرزند کہلاتے تھے مگر شاید انہوں نے تاریخ کی نگران خاتوں سے کڑی سزا نہ پانے کی ٹھان لی ہے تبھی اپنے ماتحت لوگوں کو سچ کہنے کی اجازت دینے لگے ہیں یا پھر وہ نہیں چاہتے کہ تاریخ کا ماسٹر گوہر علی انہیں ’پنشن‘ یافتہ قرار دے ڈالے۔

معاملہ یہ ہے کہ سیکھنے والے کم نہیں لیکن سیکھنے سے انکاری، نالاں اور نہ سیکھنے کے بارے میں ہٹ دھرم لوگوں کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مایوس ہونے کی بات نہیں کیونکہ کوئی کام کہیں سے تو اور کسی نے تو شروع کرنا ہی ہے۔ البتہ زمانہ ایسا ہے جب مخالفوں کے ساتھ ، آج مختلف نقطہ نگاہ کے حامل لوگوں کو باقاعدہ مخالف خیال کیا جاتا ہے، مکالمے سے نمٹنے کا جواب دم توڑ چکا ہے اور زبان سے معاملہ نکل کر ہاتھ تک چلا گیا، ہاتھ بھی وہ جو نہتے نہیں بلکہ مسلح ہیں۔ جاوید غامدی کئی بار اپنے ساتھی کی مثال دے چکے ہیں جو عالم تھے کہ مخالفوں نے ان کے منہ کے اندر گولی ماری تھی۔ یہ وہی انداز ہے کہ ’تو نے میری بہن کو اس ہاتھ سے چھوا تھا نا‘ اور اس کا کندھے سے بازو کاٹ دیا۔ ایسا پنجابی فلموں میں دکھایا جاتا تھا۔ مگر منصور تو بننا پڑتا ہے، سردار بھی وہی بات کرنی ہوتی ہے جو آپ کو سچ لگے۔

صف بندی کا عمل گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں بات کرنا مزید ضروری ہو چکا ہے۔ صف بندی کو اصولی طور پر صف بندی سے ختم کیا جاتا ہے جس نقطہ نظر والوں کی صف جتنی مضبوط اور منظم ہوگی اس کے فائق ہونے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا مگر بات پھر وہیں آتی ہے کہ آج صف بندی دو یا زیادہ نقطہ ہائے نگاہ کو درست ثابت کرنے کی نہیں بلکہ ایک مخصوص نقطہ نگاہ کو فروغ دینے کی خاطر شدت پسندی حتیٰ کہ تشدد پسندی اور حتیٰ کہ دہشت گردی سے کام لیا جا رہا ہے۔ عقل سے کام لینے والے اور زبان سے بات کرنے والے یقینایہ ہدایت نہیں کر سکتے کہ ہتھیار تھام لو۔ اس لیے ان کے پاس ایک ہی راہ بچ رہتی ہے کہ کم از کم اطلاعاتی میدان میں تو مقابلہ کیا جائے۔ اطلاعاتی میدان کل بھی بہت اہم تھا جب جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں نے جرمنوں کے خلاف ایسی ایسی باتیں پھیلائی تھیں جو اگرچہ ناممکن لگتی تھیں مگر پھر بھی لوگ دل وجان سے ان پر ایمان لے آتے تھے اور آج بھی اتنا ہی اہم ہے جب دہشت گرد گروہ بھی فعال انٹرنیٹ پورٹلوں اور ای پیپرز سے استفادہ کر رہے ہیں۔ سماجی نیٹ ورکس پر سرگرمی اس کے علاوہ ہے۔

سیکولرازم کیا ہے؟ لبرل ازم کسے کہتے ہیں؟ جمہوریت کیسے فروغ پاتی ہے؟ طالبان کے ہاتھ کس نے مضبوط کیے؟ دیسی لبرل کون ہے؟ لبرل فاشسٹ کون ہے؟ یہ سب ایسے سوال ہیں جن کے جوابات جہاں ایک طرف بحث کے دروازے کھولتے ہیں وہاں دوسری طرف ان کے مخالفین میں بھی اضافہ کرتے ہیں جو عام روش سے مختلف بات کرتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سے زیادہ موثّر اور زیادہ مستعد میڈیم الیکٹرونک میڈیا ہے جہاں دسیوں بیسیوں سکرینوں پر بیٹھے کم و بیش ایک سی سوچ رکھنے والے گنے چنے لوگ، عام لوگوں کے اذہان میں زہر گھولتے رہتے ہیں۔ سیاست دانوں سے بدظن کرتے ہیں۔ مذہب پرستی کو ابھارتے ہیں۔ شدت پسندی کے لیے تاولیں دیتے ہیں یا اس کے جواز پیش کرتے ہیں۔

تعلیم کا جو ملک میں معیار ہے اس سے کون آگاہ نہیں۔ اس سطح کی تعلیم پانے والوں کو کون سا’بیانیہ‘ زیادہ اپنی جانب راغب کرے گا اس کا اندازہ لگانے کے لیے بہت زیادہ ذہین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مناسب سماجی سیاسی سوچ رکھنے والوں کے خلاف ایک ہی حربہ کافی ہوتا ہے کہ ان کی باتوں پر دھیان مت دو کیونکہ یہ یا تو احمدی ہیں، یا احمدی نواز یا پھر یکسر ملحد۔ پھر بات کیسے بنے گی؟ مجھے کسی دوست سے اس سوال کا جواب درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments