بھر دے حنا کا رنگ بھی، غیرت کے قبرستان میں


\"\" حنا شاہنواز کو دو روز پہلے تک کوئی نہیں جانتا تھا، آج سوشل میڈیا پر سب انہیں جانتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل ہو گئی۔ ستائیس سال کی لڑکی جس کا باپ کینسر سے لڑتے مرا ہو، بہن اور اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اس کے سر ہو تو اسے چاہیئے جائیداد میں سے حصہ مانگنے کو چھوڑے اور اپنے چچازاد سے بیاہ رچا کر گھر بسائے۔اگر وہ حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرے گی تو اس سے خاندان بھر کی عزت خطرے میں پڑ جائے گی اور اسے مرنا پڑے گا، پھر ایک دنیا اسے جانتی ہو گی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے لاہور کی زینت کو بھی \”شہرت\” تب ملی جب ان کی والدہ اور بھائیوں نے انہیں زندہ جلا دیا۔ حنا شاہنواز کے قتل کی وجوہات زینت کے قتل کی وجوہات سے بہت مختلف ہیں مگر ان دونوں پہ عزت اور غیرت کا پردہ باآسانی ڈالا جا سکتا ہے اور ڈال دیا گیا۔ غیرت کے نام پر قتل جیسا یہ لفظ لکھتے ہی مقتول کے بارے میں سب لوگ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ اس نے ایسا کچھ تو کیا ہی ہو گا جو معمول سے ہٹ کر تھا۔ اب یہ سوچنے والے پر منحصر ہے وہ اس معمول سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہوا اس عمل کو منفی انداز میں پرکھے گا یہ مثبت میں، اس کے نزدیک عزت کے معنی کیا ہیں اور وہ معاشرتی دباؤ کو عزت سے کیسے نتھی کرتا ہے اور قتل کا جواز کیسے ڈھونڈتا ہے۔

حنا پختونخواہ سے تعلق رکھتی تھی۔ زینت لاہور سے لیکن سندھ اور بلوچستان والے بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، یہ سب وہاں بھی ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں ہماری معاشرتی اقدار، ہماری روایات، ہمارا کلچر بہت اعلی و ارفع ہے۔۔۔۔ کیا یہی روایات ہیں؟ اگر ہیں تو آپ کی روایات پہ تف ہے۔۔۔ اور اگر یہ روایت کے نام پر جبر کا فروغ ہے تو پھر آپ کو ہماری اعلی روایات لکھتے ہوئے شرمندگی محسوس کیوں نہیں ہوتی؟ یہ سب پختونخواہ، پنجاب،سندھ، بلوچستان ہر جگہ دیکھا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر وفاق سمیت ہر چھوٹے بڑے صوبے میں اتفاق پایا جاتا ہے، ہر صوبے کو دوسرے صوبے سے گلے شکوے ہیں۔ سب کہتے ہیں، بھئی ہم ان سے الگ ہیں اور مختلف ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ مان لیں۔ ہمارا طریقہ واردات مختلف ہو سکتا ہے مگر غیرت کے معاملے پر سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ ایسا اتفاق رائے سی پیک پہ ملنا ناممکن ہے جیسا اپنی روایات کے تحفظ کی خاطر عزت و غیرت کے نام پر اس قتل و غارت کے معاملے پر ہے۔

سارا شگفتہ کی نظم کا ایک ٹکڑا ہے

 عورت اور نمک

عزت کی بہت سی قسمیں ہیں

گھونگھٹ ، تھپڑ ، گندم

عزت کے تابوت میں قید کی میخیں ٹھونکی گئی ہیں

گھر سے لے کر فٹ پاتھ تک ہمارا نہیں

عزت ہمارے گزارے کی بات ہے

عزت کے نیزے سے ہمیں چھیدا جاتا ہے

عزت کی کنی ہماری زبان سے شروع ہوتی ہے

کوئی رات ہمارا نمک چکھ لے

تو ایک زندگی ہمیں بے ذائقہ روٹی کہا جاتا ہے

تو جو گزارا نہ کرے، صبر کرنے پہ راضی نہ ہو، جبر سہنے سے انکار کرے، فیصلے کی آزادی چاہے، اس کے ساتھ یہی ہو گا۔ کہیں کسی کے مجرم کو سزا مل جائے گی اور بہت سی بےنام و نشاں ماری جانے والی مرجانیوں کے قاتل عزت و غیرت کے رکھوالے بنے آزاد گھومتے رہیں گے۔ اس نام نہاد عزت اور غیرت کے تحفظ کا راستہ موت کے در سے گزرتا ہے، مصدق سانول کے الفاظ ادھار لے کر خدا اور خدائی فوجداروں سے بس اتنا کہنا ہے کہ ہم جینا چاہتے ہیں، ہمیں جینے دیں۔

رب العزت

تیری میری اس دنیا میں

جتنے بھی یہ عزت کے دربار لگے ہیں

ان کے دربانوں کے در سے

موت کے کالے گرز ہٹا

میریا سوہنیا

ان کے زہر کو ٹھنڈا کر۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments