بانو آپا ہر رنگ میں ماں تھیں …. قدسی ماں!


 \"\" عورتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو بچے تو پیدا کر تی ہیں مگر ماں نہیں بن سکتیں۔ دوسری وہ جو صاحب ِ اولاد ہوں نہ ہوں قدرت نے انہیں ہر رنگ میں ماں بنا کر بھیجا ہوتا ہے۔ ۔

 بانو آپا ہر رنگ میں ماں تھیں۔ ماں جس کے ایک ہزار ایک روپ ہوتے ہیں اور ہر روپ میں بے لوث خدمت اورقربانی نمایاں ہوتی ہے۔ وہ ایک ہزار ایک روپ ان کی شخصیت میں کبھی دھیمے، کبھی تیز، بولتے باتیں کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ماں کا ہر روپ معجزاتی ہے، اگر معجزہ دکھانے پر آجا ئے توسنگلاخ چٹا نوں، بے آب و گیاہ میدانوں اور پتھریلی زمینوں سے آب ِ زم زم بھی جاری کر سکتا ہے، یہ جو ماں کا روپ ہے دراصل اس سے گندھی تھی وہ بی بی جس کا نام بانو قدسیہ تھا۔ جس نے اپنے ارد گرد کی دنیا کو اپنے وجود کے دھیمے مگر پائیدار رنگوں کی ایسی پورٹریٹ بنا رکھا تھا جس میں سب سے جاندار چیز وہ خو د تھیں۔

 ہم بزعِم خود لکھاری عورتیں، آدھی گھریلو آدھی دنیا دار، کہیں سے با ادب، کہیں سے بے ادب۔ ۔ ۔ محنت اورر یاضت کے بغیر نام کمانے، ادب اور زندگی کے میدانوں میں جھنڈے گاڑنے کی خواہش ایک دن بانو آپا کے گرد اکٹھی ہو گئیں۔

عورت اور ماں کا فلسفہ زیر ِ بحث تھا۔ خاتون لکھنے والی کے مسائل کو سمجھتا کوئی نہیں۔ اسے وقت نہیں دیا جاتا، ہانڈی روٹی میں قیمتی خیالات ضائع ہو جاتے ہیں۔ چاہے جتنا نام کما لو، شوہر پرواہ نہیں کرتا، بچے مان کر نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ۔ بانو آپا خاموشی سے بیٹھی سنتیں تھیں۔ جب ہم لوگ بول بال کر چپ ہو گئے تو، نہایت رسان سے گویا ہوئیں۔ اس لیئے کہ بچوں کو لکھاری، اور افسر نہیں، ماں چاہئے، انہیں ماں کی شہرت اور نام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ۔ انہیں چولہے پر بیٹھی گرم گرم روٹیاں توے سے اتارتی ماں چاہئے، جو کڑوے کسیلے دھوئیں سے آنکھیں پھوڑے اور بغیر شکایت کئے انہیں وقت پر کھانا کھلاتی رہے۔ ان کی خدمت میں حا ضر باش رہے، جب جب وہ چاہیں انہیں گھر کے کونوں کھدروں میں دکھائی دیتی رہے۔

\"\" چاہے وہ ماں بانو قدسیہ ہی ہو ؟ کسی نے جل کر کہا۔ ۔

 وہ مسکرائیں اور اپنے دھیمے لہجے میں بولیں، ہاں چاہے وہ بانو قدسیہ ہی کیوں نہ ہو۔ ۔

 اس بات پر سب نے ناک بھوں چڑھائی، ایک آدھ نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا آج کی عورت نے مشکل سے اس چولہے چوکے سے جان چھڑائی ہے اسے بانو آپا دوبارہ اسی چولہے چوکے میں جھو نکنا چاہتی ہیں، لگتا ہے انہیں عورت کی ترقی نہیں بھاتی۔ ۔ ؟

مگر ان سب تبصروں سے بے نیاز بانو آپا عورت کو ترقی، فلاح اور حسن ِ زندگی کا جو راستہ بتاتی تھیں،

 وہ راستہ رسموں اور ریتوں سے بغاوت نہیں، سراسر معاشرتی اور مذہبی حدود و قیود کے اندر اپنی بقا کا تصور پیش کر تا تھا۔ یعنی وہ عورت جس کی سوچ لبرل اور جدید ہو، زہن آزاد ہو مگر وہ حقوق و فرائض کا بھی برابر خیال رکھے اور ماں کے کردار کا بھی، جس سے ایثار اور قربانی کا تصور وابستہ ہے۔۔۔ !

ان کی اس سوچ سے لاکھ اختلاف کے باوجود ان پر تنقید کرنے والے، اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ انہوں نے ادبی، سماجی اور گھریلو زندگی کو توازن، اور خوبصورتی کے جن اصولوں پر گزارا، ان کے اندر آج کی ادیب عورت کی گھریلو اور ادبی زندگی کا بہترین نمونہ ہے اگر کوئی سمجھے تو۔ ۔

 آج ان کی بات کرتے ہوئے وہ دعا یاد آتی ہے جو ہمیشہ ان کے لبوں پر ہوتی تھی۔

 یہ دعا حسن ِ خاتمہ کی تھی، ان کو دیکھنے گئی تو ان کا ابدی نیند سویا ہوا پورا وجود جیسے حسن ِ خاتمہ کی خاموش گواہی تھا۔ وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اس گواہی کا حصہ تھے۔ ۔

 کاروان سرائے کے در ودیوار جیسے پکار پکار کر کہہ رہے تھے

 یہ عورت جس سلیقے سے جی کر گئی ہے، اس سلیقے سے جینا ہر کسی کو نہیں آتا۔

 بانو قدسیہ جس خاتون کا نام تھا، توازن، انکساری، عاجزی، دھیما پن، وقار اور وضع داری وہ عناصر تھے جن سے مل کر اس کی شخصیت بنتی تھی۔ ۔

 ادب کو اپنی جگہ اور زندگی کو اپنی جگہ رکھ کر انہوں نے اپنی ذات کو دو حصو ں میں بانٹ رکھا تھا۔ ۔\"\"

 جب ان کے ہاتھ میں قلم ہوتا تھا تو وہ صرف ادیب ہوتی تھیں۔ ۔

 اور جب وہ قلم رکھ دیتی تھیں تو اس وقت وہ صرف ایک ایسی گھر یلو عورت رہ جاتی تھیں جسے اپنے گھر والوں کی سیوا کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا۔

 اشفاق صاحب کے بعد انہوں نے ادب سرائے کا دروازہ کبھی بند نہ ہونے دیا۔ لوگ آتے، ملتے، انہیں تھکاتے اور چلے جاتے، مگر اگلے دن وہ پھر اسی طرح تازہ دم ہو کر ان کی خدمت میں جت جاتیں۔ ۔ !

 مجھے لگتا ہے انہوں نے اپنی مرضی سے اپنے لئے ایک عام زندگی چنی۔ اور اپنی ہر کامیابی، ہنر اور ناموری اشفاق صاحب کے نام لکھ دی۔ خود کو کبھی کوئی کریڈٹ نہ دیا۔

 ساری عمر دانستہ اشفاق صاحب کے پیچھے چھپی رہیں۔ سمٹی سمٹائی، ڈھکی چھپی، دھیمے لہجے میں دانش کے موتی پروتی رہیں۔ مگر خود کو کبھی دانش ور مان کر نہ دیا۔ ۔

راجہ گدھ کی تعریف ہوئی تو اسے باتوں میں اڑا دیا اور یہ ثابت کر نے کی کوشش کی کہ اشفاق صاحب  کا کام ان سے زیادہ معتبر ہے۔ ۔

 گھٹی میں تسلیم و ر ضا کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ ساری زندگی ا شفاق صاحب سے ڈھائی قدم پیچھے رہیں۔ وہ ہٹو بچو کہتے رہے یہ اس ہٹو بچو کے پیچھے سر جھکا کر چلتی رہیں۔ ۔

 انہوں نے کہا بانو خیالات کی مثا ل مچھلیوں کی مانند ہوتی ہے۔

 ا نہیں ایک مقرر وقت پر دانہ ڈالتی رہو جب کنارے پر آئیں تو پکڑ لو۔ ۔

 بانو نے یہ گر پلے سے باندھ لیا اور نہایت تابعداری سے خیالات کے تالاب کے کنارے دانہ لے کر بیٹھ گئیں، ساری عمراسی طرح بیٹھی رہیں۔ ۔ !\"\"

 مجھ جیسے نکمی کو جب بھی ملتیں مچھلیوں کو دانہ ڈ النے کی تلقین کر تے ہوئے کہتیں لکھنے کا ایک وقت مقرر کر لو، اس وقت پر خیالات آنا شروع ہو جائیں گے، ان خیالات کو دیانت داری سے سنہری، روپہلی او ر نارنجی مچھلیوں کی طرح پکڑ نا شروع کر دو۔ ۔ اگر دن میں ایک صفحہ بھی لکھو گی تو مہینے میں تیس صفحے بن جائیں گے۔ ۔ مگر کوشش کے باوجود میں ایسا نہ کر سکی کہ شاید میرے آگے ڈھائی قدم چلنے والا کوئی نہ تھا۔ ۔ جو ہٹو بچو کہتا اور میرے راستے صاف کر تا جاتا، سامنے کی رکاوٹیں ہٹا تا جاتا اور مجھے لکھنے کی تلقین کر تا جاتا۔ ۔ !

 مجھے جب بھی ادب سرائے جانے کا موقع ملا بانو آپا کو اشفاق صاحب کے مہمانوں کی خاطر تواضع میں تن من سے لگے دیکھا۔

مہمانوں میں کیسے کیسے لوگ ہوتے تھے۔ ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، احمد بشیر، واصف علی واصف، سید سر فراز شاہ اور ان جیسے اپنے وقت کے ایسے بلند قامت جو ایک چھت کے نیچے عموما َ شاذ و نادر ہی کہیں د کھائی دیتے ہیں۔ ۔ علمی بحثیں، سیاسی اور سماجی گفتگوئیں، سائنسی اور منطقی باتیں، تصوف کے اسرار و رموز اور نور بابا والوں جیسے بابوں کے تذکرے، ان کی روحانی کرامات، اور سلاسل، جن کے دوران ایک روایتی گر ہستن کی طرح بانو آپا دستر خوان سجاتے، گرم روٹیاں اور چائے سرو کرتے ہوئے کمال لاتعلقی سے یوں ان کے درمیان پھر تی رہتیں، جیسے ان کا ان باتوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، بس انہیں اپنے مہمانوں سے غرض ہے جن کی مہمانداری میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہئے۔ ۔ !

 آج ان پر لکھتے ہوئے مجھے بہت کچھ یاد آرہا ہے۔

 وہ بزم ِ ہم نفساں کا ماہانہ اجلاس، جس میں، میں نے فیری لینڈ ( میری زندگی کی دوسری کہانی )سنائی تھی، اور بانو آپا نے میری پیشانی پر بوسہ دے کر مجھے شاباش دی تھی۔ ۔ ۔

۔ باباجی نے کھل کر تعریف کرتے ہوئے میری پشت تھپتھپائی تھی اور ا س کہانی پر چند روز بعدایک تفصیلی نوٹ لکھ کر بھجوایا تھا، جس میں میری حوصلہ افزائی کے سارے سامان موجود تھے۔\"\"

جسے میں نے بعد میں اپنی کہانیوں کی کتاب میں شامل کیا تھا۔ ۔

 یہیں مجھے پروین باجی ( پر وین عاطف ) کی انگلی پکڑ کر ادب سرائے میں پہلی دفعہ قدم رکھنا بھی یاد آ رہا ہے، جہاں بابا جی ممتاز مفتی اپنی شرارتی مسکراہٹ سے موجود تھے۔ بانو آپا مہمانوں کو چائے پلاتی پھرتی تھیں اور میں ان کے نیلے سویٹر کی ادھڑی ہوئی آستین کو حیرت سے دیکھتی تھی۔ ۔

 ان کی سفید سوتی قمیص کے دامن پر لگے چکنائی کے دھبے دیکھتی تھی۔

 جن سے بے نیاز وہ ہم سب کی خاطر تواضح میں مصروف تھیں۔ ۔

 اور میں نے راجہ گدھ پڑھ رکھا تھا۔ ۔ توجہ کی طالب پڑھ رکھی تھی۔ فٹ پاتھ کی گھاس، اور سورج مکھی جیسے کھیل دیکھ چکی تھی اور مجھے ان سے ملنے کا ازحد شوق تھا۔ ۔

 مگر جس بانو آپا کو اس وقت میں اپنے سامنے دیکھتی تھی ان کے سویٹر کی آ ستین ادھڑی ہوئی تھی اور ان کے ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی جو وہ مجھے پیش کر رہی تھیں۔ ۔

 ایک سادہ حلیئے والی عام گھریلو عورت۔ ۔ جسے دیکھ کر

ممتاز مفتی پروین باجی کے کان سے کہہ رہے تھے۔ ۔

 ایہہ قدسی اے۔ ۔ بانو نئیں۔ ۔ !!

 اور میں بانو اور قدسی کے فرق کو سمجھنے کی صلا حیت خود میں نہ پاتی تھی۔ ۔

 انہی لمحوں میں ایک اور یاد گار لمحہ، بابا جی اشفاق احمد، میں اور بانو آپا، آرٹ فورم کے اجلاس میں اکٹھے مد عو تھے۔ ۔ بابا جی مرکزی مہمان تھے، بانو آپا نے کہانی سنانی تھی اور میں نے نظمیں۔ ۔ اجلا س ختم ہونے پر جب ہم وہاں سے نکلے تو الحمرا اوپن ایئر کے باہر رات بھیگ رہی تھی، اور پارکنگ کی طر ف بڑھتے ہوئے بابا جی اپنے مخصوص لہجے میں مجھے شاباش دیتے ہوئے کہہ رہے تھے

 بانو ایہہ کڑی تے لیق ( لائق) ہو گئی اے ؟

 بانو تائید کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ خان صاحب ایہہ نظماں ای نئیں کہانی وی سوہنی لکھدی اے۔ ۔

 ہم پارکنگ میں اپنی اپنی گاڑیوں کے پاس کھڑے ہیں۔ ۔ اور وقت کہیں ٹھہر گیا ہے۔

 بانو آپا اور باباجی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کو روانہ ہوگئے اور میں انہیں جاتے دیکھ رہی ہوں۔

مجھے بھی جانا ہے مگر شاید ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ ۔

 میرا شمار ان خوش نصیب مسافروں میں ہوتا ہے جنہیں سفر کے دوران اپنے وقت کے ایسے لوگ میسر آئے جن کے اندر سے روشنی پھوٹتی تھی اور ارد گرد کو منور کرتی تھی۔ ۔

 جس سے کنکر روڑے، پتھر اور گیٹے بھی دمکنے لگتے تھے اور خود کو ہیرا ماننے لگتے تھے۔ ۔

 اب یہ سارے ہیرے اس بجھ چکی روشنی میں خود کو اپنی اصلی حالت میں دیکھتے ہوئے اس دروازے کی جانب بھاگتے ہیں۔ ، جس کی پیشانی پر ادب سرائے کندہ ہے۔

 مگر اب یہ دروازہ بند ہو چکا ہے۔

 سرائے سے مسافر جا چکے ہیں ان منزلوں کی جانب جن کی طلب انہیں بے چین رکھتی تھی۔ ۔ ۔

رہا ادب تو اس بے ادب معاشرے کو اب اس کی ضرورت ہی کیا ہے ؟؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments