حنا شاہنواز، غلطی تمہاری تھی


\"\"آج میرا دل رو رہا ہے۔ میرا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میرے اندر سے آگے بڑھنے کی لگن کسی نے ختم کر دی ہے۔ مجھے اس کائنات میں اپنا وجود غیر ضروری لگ رہا ہے۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے اب کچھ کرنے کو بچا ہی نہیں ہے اور جو بچا ہے اسے مکمل کر کے میں کون سا تیر مار لوں گی؟

یہ کیفیت مجھ پر تب سے طاری ہے جب سے میں نے حنا شاہنواز کے قتل کی خبر پڑھی ہے۔ حنا نے ایم فل کر رکھا تھا اور ایک غیر سرکاری ادارے میں نوکری کرتی تھی۔ وہ اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد اپنے گھر کی واحد کفیل تھی۔ حنا صبح سے شام آفس میں کام کرتی تھی اور مہینے بعد ملنے والی تنخواہ سے اپنے گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حنا کے ایک کزن کو اس کا نوکری کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔ جب صورتحال اس کی برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے حنا کو قتل کر دیا۔ ڈیلی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حنا کو جائیداد کے تنازئے پر قتل کیا گیا۔ حنا گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے کچھ جائیداد بیچنا چاہتی تھی۔ یہ فیصلہ اس کے رشتہ داروں کو پسند نہیں آیا۔ حنا کے کزن نے غصے میں آ کر اس کو آفس سے گھر آتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اس سارے قصے میں مجھے اگر کوئی قصور وار لگتا ہے تو وہ ہے حنا۔ اس نے کیوں نہ سمجھا کہ اس کی پڑھائی کا مقصد کسی کا سہارا بننا یا معاشرے میں بہتری لانا نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف ایک سماجی روایت ہے جس کے تحت والدین اپنے بچوں کو سکول کالج بھیجتے ہیں۔ لڑکوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد نوکری کریں اور گھر چلائیں جبکہ لڑکیوں کی کہیں شادی کر دی جاتی ہے کہ اب گول روٹی بنا بنا کر سسرال کی خدمت کرو۔ گیس نہ آئے تو اپنی ڈگریاں چولہے میں پھونک کر چولہا جلائو۔ اس کے علاوہ اس ڈگری کا کوئی مصرف نہیں ہونا چاہئے۔

حنا نے دوسری غلطی تب کی جب اس کے والد کا انتقال ہوا۔ حنا نے دیکھا کے گھر کے اخراجات پورے کرنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے تو اس نے اپنی ڈگری کو استعمال کرنے کا سوچا۔ حنا کو جلد ہی ایک اچھی نوکری مل گئی اور وہ اپنا کام پوری دیانت داری سے کرنے لگی۔ یہ اس کی دوسری غلطی ہے۔ اس نے ایسا سوچا بھی کیوں؟ اسے چاہئے تھا ایک سلائی مشین خریدتی اور محلے والوں کے کپڑے سیتی، جو مہینے کے ہزار دوہزار اکھٹے ہوتے اس میں گزارا کرتی۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو صرف اس روپ میں قبول کیا جاتا ہے۔ کسی عورت کے گھر کا مرد وفات پا جائے تو اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بلک بلک کر زندگی گزارے۔ گھر میں رکھی ہوئی سلائی مشین کو تصرف میں لائے، گھر گھر جا کر صفائیاں کرے، برتن دھوئے، بچوں کو ٹیوشن پڑھائے لیکن باہر جا کر اپنی ڈگری اور قابلیت کا مناسب استعمال نہ کرے۔ اگر حنا آج محلے کی درزن ہوتی تو شائد ہمارے درمیان سانسیں لے رہی ہوتی اور یہی کزن لوگوں میں اس کے گُن گا رہا ہوتا کہ دیکھو میری کزن کتنی بہادر ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد بڑی ہمت سے گھر چلا رہی ہے۔

حنا کی تیسری غلطی اپنی بیوہ بہن اور بھابی کی کفالت کرنا ہے۔ اسے چاہئے تھا کہ ہر ایک کے سامنے رونا روتی کہ ہائے ابو چلے گئے، اب ہم کیسے رہیں گے، ہمارے گھر کا خرچہ کیسے چلے گا۔ اب یہ بیوہ بہن اور بھابھی بھی مجھ پر بوجھ بن گئی ہیں۔ لیکن حنا نے ایسے نہیں کیا۔ اس نے سب کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور ان کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔

حنا کی چوتھی غلطی جائیداد بیچنے کا فیصلہ تھا۔ ٹھیک ہے اسلام نے تمہیں جائیداد میں حق دیا ہے لیکن اس معاشرے نے تمہیں اس حق کو استعمال کرنے کی اجازت کب دے دی ؟ کیا تم نے نہیں سنا تھا کہ کتنی ہی لڑکیوں کو اس معاشرے نے جائیداد بچانے کی خاطر قرآن سے بیاہ دیا ؟

حنا تم کتنی بے وقوف تھیں۔ تم نے اتنی غلطیاں کیسے کی؟ کیا تم نے قندیل بلوچ کی زندگی سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟ شائد تم اسے نہیں جانتی۔ میں بتاتی ہوں ۔ قندیل بھی عام لڑکیوں کی طرح ہی ایک لڑکی تھی۔ اس کی شادی ہوئی۔ ایک بیٹا ہوا۔ لیکن پتا نہیں وہ کن حالات سے گزری کہ اس نے بغاوت کہ ہر حد پار کر لی۔ شوہر سے علیحدگی اختیار کی اور میڈیا میں اپنا نام بنانے کے لئے چل پڑی۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن اسے کوئی مناسب موقع نہ ملا ۔ تب اس نے سوشل میڈیا پر اپنی قابلِ اعتراض ویڈیوز اور تصاویر اپلوڈ کرنا شروع کر دی۔ جلد ہی لاکھوں لوگوں نے اس کا پیج لائک کر لیا۔ وہ روز اس کی پوسٹس دیکھتے تھے اور اسے گالیاں بھی دیتے تھے۔ قندیل کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے خوب کوریج دی ۔ قندیل نے خوب پیسا بھی کمایا جس سے وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ اسے بھی اس کے غیرت مند بھائی نے قتل کر دیا۔ وہی غیرت مند بھائی جو قندیل کے پیسوں پر پل رہا تھا۔ وہی غیرت مند بھائی جو خود تو کاہل تھا مگر اس کی بہن اپنے ماں باپ کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ اب سنا ہے کہ اس کے بوڑھے ماں باپ کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ محلے کے لوگ کبھی کبھار ترس کھا کر کھانا بھجوا دیتے ہیں۔

تم نے بھی اپنے گھر والوں کا سہارابننے کی کوشش کی لیکن تم نے قندیل سے بہتر راہ چنی۔ تم نے عزت کے ساتھ کام کیا لیکن پھر بھی تم ماری گئی۔ کیوں؟ کیونکہ اس معاشرے کو خود مختار عورت پسند نہیں ہے۔ چاہے وہ عورت قندیل بلوچ ہو یا حنا شاہنواز۔ اس معاشرے کو ہمیشہ روتی بلکتی عورت ہی پسند ہے جو خاوند کے مرنے کے بعد گھر گھر جھاڑو پونچھا کرے۔ ہر ایک کے سامنے گڑگڑائے۔ مردوں کی محتاج بنے۔ انہیں کبھی وہ عورت نہیں پسند جو معاشرے میں اپنی ایک جگہ بنائے اور نہ صرف اپنے گھر والوں کا سہارا بنے بلکہ بہت سی دوسری عورتوں کے لئے ایک مثال بھی بنے۔

قندیل آج تم بھی خوش ہو جائو۔ تم غلط نہیں تھی۔ تم صحیح تھی۔ تم بے شک وہ سب نہ کرتی جو تم نے کیا ، اُس کی بجائے تم کسی با عزت پیشے کا بھی انتخاب کرتی تب بھی تمہارا یہی انجام ہوتا۔ کیونکہ معاشرے کو مسئلہ تمہاری ویڈیوز یا سیلفی سے نہیں تھا بلکہ انہیں مسئلہ تمھارے خود مختار ہونے سے تھا۔

مجھ جیسی لڑکیاں بھی سن لیں جو معاشرےمیں اپنی پہچان بنانے کے لئے دن رات محنت کرتی ہیں، ملک کی بہترین یونیورسٹیز کی میرٹ لِسٹ پر آتی ہیں، ملک سے باہر ہائیر ایجوکیشن کے لئے جاتی ہیں، دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کرتی ہیں۔ آپ سب جو مرضی کر لیں آپ کو یہ معاشرہ کبھی قبول نہیں کرے گا۔ آپ کو کبھی بھی کوئی بھی غیرت کے نام پر قتل کر سکتا ہے۔ اس لئے اگر آپ نے زندہ رہنا ہے تو فوری طور پر اپنی ڈگریاں سنبھال کر رکھ دیں اور کچن میں جا کر گول روٹیاں بنانے کی پریکٹس کریں۔ کیونکہ آپ دنیا میں یہی کرنے آئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments