مرد سادہ ہے بے چارہ۔۔۔ اور بدنام بھی ہے


\"\"کچھ روز قبل رادین شاہ کی تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے مردوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تھی۔ مجھے تو ان کے چند نکات درست لگے۔ یہ بات درست ہے کہ بہت سے گھروں میں اگر بیٹی کی پیدائش ہو تو افسوس کیا جاتا ہےاور لڑکے کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے، مگر کیا کبھی سوچا کہ لڑکے کی پیدائش پر خوشی کی وجہ کیا ہےاور یہ خوشی بے چارے لڑکے کو ساری زندگی کس بھاؤ میں پڑتی ہے؟

لڑکے کے پیدا ہوتے ہی والدین اپنی ساری نا آسودہ خواہشات ، ناتمام امنگوں اور مستقبل کا سارا بوجھ اس کے کاندھوں پر ڈال دیتےہیں، اس سے ایسی توقعات باندھ لی جاتی ہیں جیسے وہ ایک بچہ نہ ہو بلکہ بڑھاپے اور مستقبل کی انشورنس پالیسی ہو۔ لڑکی نے تو بیاہ کر پرائے گھر چلے جانا ہوتا ہے۔ لوگ ایک لڑکے کی خواہش میں بیٹیوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں مگر بعض گھروں میں آٹھ آٹھ بہنوں کے بعد اگر ایک بیٹے کی پیدائش ہو تو ان بہنوں کو بیاہنے سے لے کر معاشرے کے مروجہ رواجوں کے مطابق ان کو میکے سے سوغات بھجوانا بھی ساری زندگی اسی لڑکے کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ میں نے بہت سے ایسے مرد دیکھے ہیں جو بہنوں کو بیاہتے بیاہتے ادھیڑ عمری کو پہنچ گئے مگر والدین کہتے ہیں کہ بہنوں کے بیاہ سے قبل تمہاری شادی نہیں ہو سکتی۔

لڑکیوں کو اگر پڑھنے نہیں دیا جاتا تو بہت سے لڑکوں کو بھی ان کی مرضی کا مضمون پڑھنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ وہی مضمون پڑھو جسے پڑھنے کے بعد زیادہ سے زیادہ کما سکو۔ میری نظر سے ایسے کاروباری حضرات بھی گزرے جنہوں نے لڑکوں کو پڑھانے کی بجائے پڑھائی چھڑوا کر کاروبار میں ساتھ لگا لیا تاکہ ان کو اپنے کاروبار میں مدد مل سکے۔ کم آمدنی والے طبقے میں بھی چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو ورکشاپ میں بٹھا دیا جاتا ہے جہاں استاد کی توقعات بسا اوقات گول روٹی کی توقع سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ بچےبے پناہ تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ اگر اس گھریلو ملازمہ طیبہ کو مارا گیا تو ایک چھوٹے گھریلو ملازم لڑکے کی خبر بھی میری نگاہ سے گزری جو تشدد کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گیا تھا اور ہاں عجب بات یہ کہ دونوں صورتوں میں تشدد کی ذمہ دار عورت تھی۔ وڈیرے اور زمیندار اگر مرد ہوتے ہیں تو ان کے تشدد کا نشانہ بننے والے مزارعے بھی بہت دفعہ مرد ہی ہوتے ہیں۔ بچپن میں زیادتی کا شکار اگر لڑکیاں بنتی ہیں تو ان ہوس زدہ درندوں کی زد میں چھوٹے لڑکے بھی برابر کی تعداد میں یا زیادہ ہی آتے ہیں۔

 بچپن میں مجھے یاد ہے کہ پڑوس کے ایک لڑکے سے میرے بھائی کی لڑائی ہوئی تو اس لڑکے کے بال میں نے ہاتھوں میں لے کر اتنے زور سے کھینچے کہ وہ ٹوٹ کر میرے ہاتھ میں آ گئے، مگر وہ روتے ہوئے بولا کہ میں تمہیں نہیں ماروں گا کیونکہ تم لڑکی ہو اور امی کہتی ہیں لڑکیوں کو نہیں مارتے (خیر اس حرکت پر مجھے آج تک افسوس ہے)۔ اگر لڑکیاں جسمانی طور پر کمزور ہیں تو بہت سی جگہوں پر وہ اس کا فائدہ بھی حاصل کرتی ہیں۔ مرد اگر جسمانی تشدد کا نشانہ کم بنتا ہے تو ہمارے معاشرے میں اسے ذھنی تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اگر عورت شادی کے بعد رخصت ہو کر ایک نئے گھر اور ماحول میں جاتی ہے تو ہمارے معاشرے میں مرد بھی شادی کے بعد ایک پل صراط پر چلتا ہے جس میں اگر ماں کی سنے تو ماماز بوائے اور بیوی کی مانے تو جورو کا غلام کہلاتا ہے۔ مرد کی عیاشی کا لونڈیوں ، باندیوں اور چار بیویوں والا زمانہ تو عرصہ ہوئے گزر گیا۔ اب اگر بیوی کو گھر بیٹھنے کو کہے تو بیوی کو اس کی صلاحیتیں استعمال نہ کرنے دینے والا ظالم شخص اور نوکری کرنے دے تو اس کی کمائی کھانے والا لالچی آدمی کہلاتا ہے۔

اگر عورت روٹی پکاتی ہے، بچے پالتی ہے قربانیاں دیتی ہے تو ایک اچھا مرد بھی دن رات جتن کر کے پیسا کماتا ہے اور سب کا سب گھر والوں پر لگا دیتا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ اعصابی طور بر بہت سے مرد عام عورتوں سے بہت بہتر ہوتے ہیں ورنہ چند بیمار جانور نما آدمیوں کے کرتوتوں کی بنا پر ان کو من حیث الجماعت جن جن القابات سے نوازا جاتا ہے اسے برداشت کرنا کافی مشکل ہے۔ ہم ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ داعش اور طالبان کی دھشت گردی کو تمام مسلمانوں سے منسوب نہ کیا جائے تو حیوان نما، طاقت کا بے جا استعمال کرنے والےاور بیمار ذہنیت کے مردوں کی حرکتوں کو بھی تمام مردوں سے منسوب کرنا درست نہیں۔

بات یہ ہے کہ ہمارے معشرے میں ہر مسئلہ دوسرے سے منسلک ہے اورہر مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مسئلہ مرد، عورت یا خواجہ سرا ہونے کا نہیں بلکہ مسئلہ قانون کی پاسداری اور بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ اگر لوگوں کو اچھا روزگار میسر ہو، بڑھاپے میں لڑکےکی کمائی کی بجائے کوئی اور سیفٹی نیٹ ہو ۔ ہمیں یقین ہو کہ بڑھاپے میں ہماری صحت اور جان کو تحفظ حاصل ہو گا، تو ہمارے معاشرے میں بھی بچے بڑھاپے کے تحفظ اور سہارے کی بجائےانسانوں کے طور پر پیدا کئے اور پالے جائیں گے اور اس طرح لڑکے اور لڑکی کی تفریق بھی مٹ جائے گی جیسے بہت حد تک ترقی یافتہ اقوام میں مٹ چکی ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments