سمرقند و بخارا کی خونیں سرگزشت (2)


 \"\"میں اپنے گھر سے رات کے وقت چوری چُھپے کیوں نکلا؟ کہاں کہاں کی خاک چھانی اور کن مصائب سے دوچار ہوا؟ ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے مجھے ماضی کی طرف لوٹنا پڑے گا۔

فرغانہ (جوآجکل ازبکستان کہلاتا ہے)کے ضلع اندجان میں ایک چھوٹا سا قصبہ\”قائقی\”ہے۔ میں اسی قصبے میں 1915ء میں پیدا ہوا۔ میرے والد کا نام خوجہ خان داملا ہے۔ (داملا تُرکی میں مولانا کو کہتے ہیں)۔ دادا کانام الشیخ عزت اللہ اور نانا کا غیاث الدین ایشان نمنگانی ہے۔ یہ سب حضرات اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ نانا جان پُورے تُرکستان میں استادالعالم کہلاتے تھے۔ ان کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ والد کے سلسلئہ نسب میں چار پُشت تک علمائے دین اور سلسلئہ عالیہ نقشبندیہ کے خلفاء ملتے ہیں۔ والدہ کی طرف سے میرا شجرہ نسب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ میرے ننھیال کے بزرگ قتیبہ بن مسلم کے ہمراہ تبلیغ دین کے لیے تُرکستان آئے تھے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ اُسوقت سے گھرانے میں بڑے بڑے شیوخ اور علماء پیدا ہوئےجن کے مزارمیرے زمانہ ہجرت تک موجود تھے۔

جب روسی زاروں نے ترکستان پر جارحانہ حملہ کیا ، تو میرے نانا غیاث الدین ایشان اور والدہ کے ماموں باطور تورہ نمنگانی اس جارحیت کی مزاحمت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل تھے، چنانچہ اس جُرم میں عمر بھر نظر بند رہے اور نظر بندی کی حالت میں انتقال ہوا۔ میرے تین ماموں عبدالحمید خان تورہ ، عبدالرشید خان تورہ اور محی الدین خان تورہ بڑے متقی اور صاحب زہد و ورع بزرگ اور مرجع خاص وعالم تھے۔ واضح رہے کہ \”خان\” کا لفظ ترکستان میں یا تو سیدوں کے لیے استعمال ہوتا ہے یا بادشاہوں کے لیے۔ ہمارا خاندان بہت بڑا تھا۔ ہم گیارہ بہن بھائی تھے۔ پانچ بھائی اور بہنیں مجھ سے بڑی تھیں۔ ہمارے خاندان کی خواتین تک عربی اورفارسی کی عالمہ تھیں۔ میری والدہ اور ان کی چار بہنیں بڑی جید عالمہ تھیں۔

ہمارا ذریعہ معاش زراعت اور تجارت تھا۔ کوئی سوا پانچ مربع زمین تھی۔ ڈھائی مربع زمین بارانی تھی اور باقی نہری۔ اس زمین میں باغات اور جنگلات بھی تھے اور کاشت بھی ہوتی تھی، چنانچہ ہم لوگ خوشحال زندگی بسر کرتے تھے۔

ترکستان کے زرعی نظام کے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ زمین کے مالک بالعموم خود کسان ہوتے تھے۔ روس کی طرح زمین پر کمیرے کام نہیں کرتے تھے۔ مزارعت کا رواج بھی تھا، لیکن مزرعین کی بالکل حق تلفی نہ ہوتی تھی۔ انہیں اپنی محنت کا صلہ پُورا پورا ملتا تھا۔ ایسے دہقان جن کی اپنی زمین نہیں تھی بہت کم تھے۔ ہندو پاکستان کی طرح بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر دار نہ تھے۔

میرے بچپن کا دور انقلابی دور تھا۔ ہمارے خاندان کے مرد تقریباً سب کے سب شہادت پا چکے تھے۔ امی جان عربی اور فارسی کی عالمہ تھیں، انہی کی رہنمائی میں تعلیم کا آغاز کیا۔  ابتدائی تعلیم اپنے قصبے ہی میں حاصل کی ثانوی تعلیم نہنگان ، خوقند ، سمرقند اور شہر سبز میں خفیہ طور پر جاری رکھی۔ خُفیہ اس لیے کہ سوشلسٹوں نے ترکستان پر قبضہ کرنے کے بعد دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی تھی۔ دین کی تبلیغ و اشاعت تو بہت بڑا جرم تھا۔ دینی تعلیم حاصل کرنے کے معنی یہ تھے کہ آپ خود بڑھ کر مصائب و آلام کو دعوت دے رہے ہیں۔

انقلاب روس سے پہلے ہمارے یہاں عصری اور جدید تعلیم برائے نام تھی۔ ایک تو ذریعہ تعلیم روسی زبان تھا، دوسرے تعلیمی اداروں کے سربراہی انتظام کیتھولک پادریوں کے ہاتھ میں تھا جو نہایت متعصب اور تنگ نظر تھے۔ استاد بھی بالعموم یہی لوگ ہوتے تھے۔ ان کا مشن تعلیم پھیلانے سے زیادہ مسلمانوں کو عیسائی بنانا تھا۔ ان تعلیمی اداروں کے فارغ اتحصیل لوگ بے دن بھی ہوتے اور روسی سامراج کے حامی بھی، چنانچہ عام مسلمانوں نے ان اداروں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ عوام کی نظر میں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی کوئی وقعت نہ تھی۔

جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق تھا ، ترکستان میں ہزاروں مدارس تھے۔ تُرکی زبان ذریعہ تعلیم تھی۔ کوئی شہر اور قصبہ درسگاہ سے خالی نہ تھا۔ مخیر حضرات نے لاتعداد مدارس کے لیے زمینیں وقف کر رکھی تھیں۔ طلبہ کو تعلیم مُفت ملتی تھی، لیکن وظائف یا کتابیں مستعاردینے کا رواج نہ تھا۔ طالب علم کو بارہ یا سولہ برس تک کے تعلیمی مصارف خود برداشت کرنا پڑتے تھے۔ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات یا تو کاروبار کرتے تھے یا روس کے مقبوضہ علاقوں اور ماتحت ریاستوں میں فتویٰ نویسی اور مسلمانوں کے شخصی قانون سے متعلق عدالتوں میں کسی منصب پر فائز ہو جاتے۔

ان درس گاہوں کی اپنی دنیا تھی۔ سیاست تو گویا شجرممنوعہ تھی۔ یہ میدان علمانے لادین قوتوں کے لیے خالی چھوڑ رکھا تھا۔ ترکستانی معاشرہ عالم اسلام سے بالکل بے خبر اور بڑی حد تک کٹا ہوا تھا۔ رفاہیت اور خوشحالی کی وجہ سے پورا معاشرہ خوابِ خرگوش میں مبتلا تھا۔ ہر شخص شاعر اور ہر فرد ہوس کار تھا۔ سال میں چھ مہینے سیروتفریح میں کٹتے۔ شکار کھیلنا ، نام و نمود کی خاطر مال و دولت لُٹانا ہمارا طرہ افتخار اور امتیازی نشان بن چکا تھا۔ علما کی اکثریت تنگ نظر، جمود کا شکار اور فروعات میں اُلجھی ہوئی تھی۔ تصوف کا دور دورہ تھا۔ مشائخ اور صوفیا ، معاشرےاور قوم کے عملی مسائل سے بے نیاز خانقاہوں میں گُم تھے۔ مراقبہ ، کشف ِ قبور، عزلت گزینی، ریاضت ، چلہ کشی ، وحدت الوجود پر بحث مباحثے اور نفس کشی ان کا اپنا شغل بھی تھا اور اپنے مُریدوں کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے۔ ان کے اس جمود پر کوئی تنقید کرتا ، تو جواب ملتا:\”ہم پر کون سا دشمن حملہ آور ہے؟ اگر کبھی ایسا وقت آ بھی گیا، تو ہم جہاد کے لیے میدان میں نکل آئیں گے، بلکہ خانقاہی ترتیب کا حقیقی مقصود جہاد کی تیاری ہی ہے۔

یہ تھے تُرکستان کے مسلمان معاشرے کے شب و روز جب 1917ء میں رُوس میں انقلاب آیا۔ زار شاہی کا تختہ اُلٹنے کے بعد جمہوریت پسند نیشنلسٹ روسیوں نے الیگزنڈر کرنسکی کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کر لی۔ ادھر تُرکستان نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ خوقند اس نو آزاد ریاست کا دارالحکومت تھا۔ کرنسکی حکومت نے تُرکستان کی اس آزاد مملکت کو تسلیم کر لیا، لیکن اُس کے پاس ایک دستہ فوج بھی نہ تھی۔ ملیشیا (نیشنل گارڈ)کے نام سے پولیس کے دستے تھے، تاہم آزاد حکومت کے رہنماؤں نے آزادی کو مستحکم کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ علما نے بھی ان کے ساتھ پُورا پُورا تعاون کیا۔ دستور ساز مجلس وجود میں آئی اور دستور سازی کا کام پوری تیزی سے شروع ہو گیا۔ اس اثنا میں کمونسٹوں نے لینن کی قیادت میں کرنسکی حکومت کا تختہ اُلٹ کر رُوس پر قبضہ کر لیا۔ فروری 1918ء میں سوشلسٹ رُوس تُرکستان پر چڑھ دوڑا اور اس کی چند روزہ آزادی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ دسمبر 1921ء میں اس نے بخارا اور جمہوریہ خیوا پر اپنے سامراجی چُنگل گاڑ دیے۔

کمونسٹوں نے تُرکستان پر مسلط ہوتے ہی زمینیں ، باغات ، دُکانیں اور کار گاہیں غضب کر لیں۔ کسان ، تاجر ، علما اور مذہت سے وابستہ افراد خواہ وہ پڑھے لکھے سفید پوش تھے یا اَن پڑھ مزدور اور کاشت کار، سب کو حقوق شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ نماز ، روزہ جُرم قرار پائے۔ حج پر پابندی لگا دی اور مسجدیں بند کر دیں۔

مسجدیں بند کرنے کے لیے مکارانہ ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔ سب سے پہلے مسجدوں اور مدرسوں کے اوقات ضبط کر لیے گئے۔ اس طرح مسجدیں اور دینی درسگاہیں اپنے وسائلِ زندگی سے محروم ہو گئیں۔ پھر مسجدوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے۔ جب لوگوں نے چندہ جمع کرکے ٹیکس ادا کیا ، تو چندہ دینے والوں پردفینہ ٹیکس لگا دیا گیا۔ علانیہ کہا جانے لگا کہ جو لوگ مسجدوں کو ٹیکس ادا کرتے ہیں ، انہوں نے خزانے چُھپا رکھے ہیں، ہم یہ خزانے ان سے اُگلوائیں گے۔ اب مسجد ٹیکس ادا کرنے کی جرات کون کرتا؟ چنانچہ جب مقررہ میعاد میں ٹیکس ادا نہ ہوتا ، تو ایک ہفتے بعد مسجد پر جرمانہ عائد کر دیا جاتا،جو وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا۔ ادھر جو لوگ نماز پڑھتے ، ان پر \”نمازی ٹیکس\”عائد کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ لوگ گھروں میں نماز پڑھنے لگے اور مسجدیں ویران اور بے آباد ہوگئیں۔ جب کوئی مسجد اس طرح ویران ہو جاتی، تو ایک روز کیمونسٹ اس میں جمع ہوتے اور ایک قرار داد منظور کرتے کہ یہ مسجد بے کار اور ویران پڑی ہے، اس میں کوئی شخص نماز پڑھنے نہیں آتا، اس لیے حکومت کو چاہیے وہ اس کو کسی رفاہی کام میں استعمال کرے۔ دوسرے روز قرارداد سرکاری گزٹ میں شائع ہوجاتی اور کمونسٹ مسجد پر قبضہ کرکے یا تواسے شہید کر دیتے یا اصطبل ، کلب اور رقص گھر وغیرہ میں بدل دیتے۔

(جاری ہے)

اعظم ہاشمی ازبکستان کے مشرقی منطقے نمگان کے ایک گاؤں میں 1915 ء میں پیدا ہوئے۔  1931ء میں اس علاقے پر سوویت قبضے کے بعد ہندوستان ہجرت کی۔  ہندوستان میں آمد کے بعد آپ دہلی اور بمبئی میں قیام پذیر رہے۔  1934ء میں مہاجرین ترکستان نے مسلمانان ترکستان کے حالات کو ہندوستان کے لوگوں تک پہنچانے کیلئے ’’انجمن اتحاد مہاجرین بخارا و ترکستان ‘‘ کی بنا ڈالی۔  1938ء میں اس انجمن کا مجلہ’’ترجمان‘‘ اعظم ہاشمی مرحوم کی ادارت میں نکلا ۔  قیام پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے۔  1951 میں کراچی سے “ترجمان” کی اشاعت دوبارہ شروع کی۔  “ترجمان افکار” کے نام سے بھی ایک مجلہ نکالا۔  1969ء میں اعظم ہاشمی کی یادداشتیں “سمرقند و بخارا  کی خونیں سرگزشت”کے عنوان سے اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔  اس مختصر سی کتاب کو اپنے پراثر بیان  کے باعث بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اعظم ہاشمی نے 1973 میں وفات پائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments