جدید ٹیکنالوجی بے حیائی پھیلا رہی ہے


\"masoodکل یا پرسوں ایک دوست خضر حیات خاں نے وقار احمد ملک جی کی ایک تحریر فیس بک پہ شیر کی جو وقار ملک جی نے ” ہم سب“ کے لیے لکھی تھی ۔ جس میں انھوں نے گاؤں میں خوشیوں کے مواقع پہ وہاں کی عورتوں کا خوشی میں مقامی رقص کرنے اور گیت گانے کا ذکر کیا تھا۔ ان کی تحریر سے  خضر جی نے وہی حصہ شیر کیا جس میں وقار ملک جی نے ایک گھڑولی رقص کا ذ کر کیا ہے اور ساتھ ایک تصویر بھی لگائی جہاں عورتیں کھڑی ہاتھوں سے گدا بجا رہی ہیں اور ایک عورت دونوں ہاتھوں میں اور منہ میں گھڑا لیے رقص کر رہی ہے

وقار ملک جی نے گاؤں کی اس گھڑولی رقص رسم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب بھی گاؤں میں کوئی خوشی کا موقع ہوتا تو گاؤں کی عورتیں مل کر گاؤں کی گلیوں یا کسی گھر کے احاطے میں رقص کرتیں اور گانے گاتی۔ ’ گھڑولی رقص‘ کی رسم بھی ادا کی جاتی۔ پھر وقار جی بتاتے ہیں کہ’ ہمارے سکول میں ایک استاد تھے جنہوں نے سب سے پہلے تبلیغی مشن میں شمولیت کی لہٰذا گاؤں کے وہ پہلے آدمی تھے جنہیں ’گھڑولی رقص ‘ کی رسم کے غیر اسلامی ہونے کا ادراک ہوا ۔ پہلے تو اس استاد محترم نے بچوں سے کہا کہ وہ گھر جا کر اپنی ماؤں بہنوں کو اس بے حیائی سے روکیں ۔ مگر جب بچوں کو آگے سے ماؤں بہنوں سے سخت سست سننی پڑیں تو پھر استاد جی نے بچوں کو اکسایا اور بچوں کو پتھروں روڑوں سمیت وہاں بھیج دیا جہاں ان کی مائیں بہنیں گا رہی ہوتیں یا رقص کر رہی ہوتیں اور بچے ان پہ پتھر مارتے ‘۔وقار ملک جی بتاتے ہیں آخر ایک سال ہی میں گاوں اس بے حیا رسم سے پاک ہو گیا۔ میں یہ سب پڑھ کر لوگوں کے نیچے لکھے کمنٹس پڑھ رہا تھا کہ مجھے ایک محترمہ کا کمنٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا ( بعد میں پتہ چلا وہ محترمہ امریکہ میں رہتی ہیں اور جب پاکستان میں تھیں تو بطور صحافی کام کرتی تھیں)

محترمہ لکھتی ہیں کہ ” اچھا ہوا کہ یہ رسمیں ختم ہو گئی ہیں۔ جن زمانوں کی آپ بات کر رہے ہیں اس زمانے میں بزرگوں کی آنکھ میں حیا تھی مگر آنے والی جدید ٹیکنالوجی نے لو گوں کے بے حیا بنا دیا ہے لہٰذا آج کے دور میں یہ رقص کرنے اور گیت گانے کی رسم نہیں ہونی چاہیے “۔

واہ کیا نکتہ نکالا ہے انھوں نے یعنی جدید ٹیکنالوجی لوگوں کو بے حیا بنا تی ہے

کوئی مجھے بتائے کہ قبروں سے جوان اور بوڑھی مردہ عورتوں کو نکال کر ان سے جنسی فعل کرنا جدید ٹیکنالوجی سکھاتی ہے۔ چھ چھ سات سات برس کی بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر ان کو قتل کرنا کیا جدید ٹیکنالوجی سکھاتی ہے۔ گھروں کے اندر بھائیوں کا اپنی بہنوں کے ساتھ، دیوروں کا اپنی بھابھیوں کے ساتھ، باپ کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ اور سسر کا اپنی بہو کے ساتھ شرم ناک سلوک جدید ٹیکنالوجی سکھاتی ہے ؟ اور پھر یہ جدید ٹیکنالوجی صرف مردوں ہی کو کیوں بے حیائی سکھاتی ہے، یہاں کی عورتوں کو کیوں نہیں سکھاتی؟ آج کل مرد حضرات عورتوں سے بڑھ کر میک اپ کر کے نکلتے ہیں، شہر کے خوبرو نوجواں کنگھی کر کے نکلتے ہیں، کتنی عورتوں نےان لڑکوں کو پکڑ کر خفیہ یا سر عام ریپ کیا ہے؟ کیا یہ جدید ٹیکنالوجی پنچائت کو سکھاتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ فلاں عورت کے ساتھ انتقام کے طور پہ اجتماعی جنسی فعل کیا جائے اور پھر اس کو ننگاکر کے گاو¿ں کی گلیوں میں دوڑایا جائے۔ پنجاب کے لوگ اکثر دھوتی کرتا پہنتے ہیں اور اور اپنے محلے میں تو اوپر صرف بنیان ہی انہوں نے پہنی ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ بھی نہیں پہنی ہوتی صرف دھوتی ہی باندھ لیتے ہیں اور اگر ہوا ذرا سی تیز ہو جائے تو دھوتی بھی ادھر کی ادھر ہو جاتی یعنی وہ تقریبا برہنہ ہو جاتے ہیں کتنی عورتیں ان کو پکڑ کر ان کے ساتھ جنسی فعل کرتی ہیں ۔ اور اس پہ کمال کہ جہاں سے یہ جدید ٹیکنالوجی آئی ہے وہاں یہ بے حیائی کیوں سات پردوں میں بھی نظر نہیں آتی مگر ہم جو اس جدید ٹیکنالوجی سے مکمل استفادہ بھی نہیں کر پارہے یہاں حجروں میں بچوں کے ساتھ جنسی فعل کر کے بچے کے گلے میں پھندہ ڈال کر اسے لٹکا دیتے ہیں۔

جہاں سے یہ ٹیکنالوجی آئی ہے وہاں موسم گرما میں وہاں کی عورتیں اپنے لباس کو بہت ہی مختصر بلکہ بعض دفعہ جسم کو کپڑوں سے بالکل آزاد کر کے سمندر کنارے لیٹ کر اپنے جسموں کو آفتابی غسل دے رہی ہوتی ہیں مگر وہاں کی جدید ٹیکنالو جی کسی مرد کو نہیں اکساتی کہ کسی عورت کے جسم کو چھو بھی سکے۔ جہاں سے یہ جدید ٹیکنالوجی آئی ہے وہاں سینما گھروں میں چلنے والی فلموں میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے بوسے لے رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض دفعہ معاملہ اس سے بھی بڑھ جاتا ہے مگر فلم دیکھتا مرد ساتھ بیٹھی عورت کے ہاتھ تک کو نہیں چھوتا ۔ غضب خدا کا کہ مغرب کی ساری جدید ٹیکنالوجی کچھ اس طرح بنائی گئی ہے کہ ہمارے معاشرے کو بے حیا بنا رہی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments