ٹرمپ کو پاکستان کےخلاف محاذ آرائی کا مشورہ


\"\"  امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کافی عرصہ سے بداعتمادی کی خلیج حائل ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ نہ امریکہ یہ فیصلہ کر پا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے کون سا راستہ اختیار کرے اور نہ پاکستانی قیادت ان رویوں کو ترک کرنے پر آمادہ ہے جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ البتہ طے ہے کہ امریکہ میں خواہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیر روایتی اور اچانک اور عجیب و غریب فیصلے کرنے والے شخص ہی کی حکومت کیوں نہ ہو، وہ جوہری توانائی کے حامل ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے یا اس کے ساتھ دشمنی کا رشتہ استوار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ امریکہ افغانستان کے علاوہ عراق اور شام کی خانہ جنگی، لیبیا اور یمن کی غیر یقینی صورتحال اور مسلمانوں میں عام طور سے مغرب کے بارے میں بڑھتے ہوئے اندیشوں میں یوں گھرا ہوا ہے کہ اسے کسی نئے بحران کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں بنیادی نکتہ امریکہ کی سلامتی کا حصول ہے۔ اپنے انتخابی نعروں اور تاجرانہ مزاج و پس منظر کی وجہ سے وہ تنازعہ ، جنگ یا فساد سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ وہ جانتے ہوں گے کہ امریکہ کی سرحدوں سے دور عسکری کارروائیوں کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ نے امریکی معیشت کو جتنا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا اعتراف کئے بغیر بھی اس کے آثار و شواہد دیکھنا مشکل نہیں ہے۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام بے روزگاری اور بگڑتے ہوئے معاشی حالات سے تنگ آ چکے ہیں اور ان کی اصلاح کیلئے ٹرمپ کو بھی اپنا صدر بنانے کیلئے تیار ہو گئے تھے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے امریکی سلامتی بے حد اہم ہے۔ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی معمولی سی کارروائی یا ایک واقعہ امریکہ کی معیشت کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور لوگ یہ سوال کرنے لگتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی قوت کا حامل ملک بھی کیوں اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ ایک نہایت پیچیدہ اور گنجلک مسئلہ کے حوالہ سے یہ نہایت سادہ سوال ہے جو نہ مسئلہ کو بیان کرتا ہے اور نہ اس کا حل تجویز کرتا ہے۔ لیکن اسی سادہ سوال کو انتخابی نعرہ بنا کر اور مخالفین کی طرف سے نسل پرستی ، امتیازی رویہ اختیار کرنے اور انتہا پسندی کو ہوا دینے کے الزام قبول کرکے بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نعرے بازی بند نہیں کی اور انہیں امریکہ کی سلامتی کو لاحق خطرہ کا سبب قرار دے کر اپنے ووٹ بینک کو مطمئن اور خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سات مسلمان ملکوں کے باشندوں پر پابندیاں عائد کرنے اور پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کے صدارتی حکم کا مقصد بھی اس بنیادی سادہ تفہیم کو راسخ کرکے لوگوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت نے امریکہ کو محفوظ بنانے کیلئے فوری اور سنجیدہ اقدام کئے ہیں۔ انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے عناصر کی مزاحمت اور عدالتوں کی طرف سے اس حکم کی قانونی حیثیت پر شبہ کی وجہ سے فی الوقت یہ صدارتی حکم معطل ہے تاہم صدر ٹرمپ اس پر عمل کرنے کا پورا ارادہ رکھتے ہیں۔

مشکل مسئلہ کو سادہ طریقہ سے حل کرنے کا یہ سیاسی طریقہ ٹرمپ کو اس قدر عزیز ہے کہ وہ اس راستہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے پر آمادہ ہیں خواہ وہ ملک کا میڈیا ہو، حلیف ملکوں کے اعتراضات ہوں یا عدالتوں کے شبہات۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جس قدر اس معاملہ پر مزاحمت کا مظاہرہ کریں گے، ان کا حامی طبقہ اسی قدر ان کی اولاالعزمی اور صداقت پر یقین کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس طرز عمل سے امریکہ کے علاوہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں طبقاتی تقسیم ، امتیازی سلوک اور متعصبانہ رویوں میں اضافہ ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عام لوگوں کو سادہ لفظوں میں وہی بات بتانی چاہئے جو وہ سمجھ سکتے ہوں۔ اس وقت امریکی باشندے مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں اپنی ہی لگائی آگ کی حدت سے بچنا چاہتے ہیں لیکن وہ ان جنگوں اور تباہی کی ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہتے۔ ٹرمپ بھی وہی بات کرکے ان کے مقبول لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس لئے ان کا سب سے بڑا نشانہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہ ہیں۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ انتہا پسند اسلامی دہشت گردی کا دنیا بھر سے خاتمہ کر دیا جائے گا۔ لیکن ان کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وہ امریکہ میں دہشت گردی یا مذہبی انتہا پسندی کے واقعات و علامات کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن اس کیلئے انہیں مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف جنگ جیتنا ہے۔ ان کے نزدیک یہ اس قدر ضروری ہے کہ وہ روس کے ساتھ امریکہ کی دہائیوں پرانی عداوت بھول کر داعش یا دولت اسلامیہ کے خاتمہ کیلئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی دانشمندی کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ روس کے ساتھ مل کر ہی داعش کا خاتمہ کر سکتے ہیں یا اس کی موجودہ شکل تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہ امریکہ کو محفوظ دکھانا چاہتے ہیں اور اس عزم کی تکمیل کیلئے روایت سے گریز کے علاوہ وہ مستقبل میں ابھرنے والے مسائل کی پرواہ نہیں کرتے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ کی بیرون ملک عسکری سرگرمیوں کا انحصار صرف اس بات پر ہوگا کہ وہ اس کے نتیجے میں ان عناصر کو براہ راست کمزور یا نیست و نابود کر سکیں جو امریکہ کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اگر انہیں اس بات کا یقین ہو جائے تو مختلف علاقوں کی سیاست، مشکلات اور گروہ بندی سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوگی۔ اسی طرح وہ امریکی معیشت پر اعتماد بحال کرنے اور عام امریکی کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اقدام کر سکیں گے۔ ٹرمپ کی ضرورت اور سوچ کی روشنی میں یہ منطقی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر وہ امریکہ کی خوشحالی اور تحفظ چاہتے ہیں تو وہ بیرون ملک عسکری منصوبوں پر وسائل صرف نہیں کر سکتے۔ وہ جس سیاسی رویہ اور انداز کو سامنے لا رہے ہیں، اس کی روشنی میں انہیں اپنے روایتی حلیف ملکوں کی اعانت و حمایت بھی حاصل نہیں ہوگی۔ وہ نیٹو کے ساتھ مالی معاملات پر کھردرا انداز اختیار کر چکے ہیں اور جاپان، آسٹریلیا یا جنوبی کوریا کے بارے میں بھی وہ ایسا ہی طرز عمل اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ووٹروں کو بتانا چاہیں گے کہ وہ بہرصورت امریکہ اول کے نعرے پر قائم ہیں۔ یہ نعرہ بلند کرکے انہیں بیرونی ملک سرگرمیوں کو بہرحال محدود کرنا ہوگا یا یہ نعرہ بھی نہایت کھوکھلا اور عارضی ثابت ہوگا اور ٹرمپ کی مقبولیت بھی غبارے کی ہوا ثابت ہوگی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان اندیشوں اور امکانات سے آگاہ ہوں گے۔

ان حالات میں تقریباً یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر پاکستان پر دباؤ ڈالنے یا اس سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کریں گے تو بھی وہ براہ راست تصادم یا پاکستان کے ساتھ جارحیت کا رویہ اختیار کرنے سے حتی الامکان گریز کریں گے۔ اس کے باوجود افغانستان میں ایساف کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ وزیر دفاع جیمز میٹس سے ملاقات میں بھی یہ بات کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے اور اسے یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اسے بہرصورت امریکہ کی باتوں یا تقاضوں کو ماننا پڑے گا۔ اس حوالے سے دو باتیں نوٹ کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ جنرل نکلسن پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی حکام سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں افغانستان میں طالبان کا زور توڑنے کیلئے مزید کئی ہزار فوجی درکار ہیں۔ اس وقت امریکہ کے 8 ہزار فوجی افغانستان میں متعین ہیں۔ حلیف ملکوں نے بھی زیادہ تر اپنے فوجی واپس بلا لئے ہیں۔ 2012 میں ایک لاکھ 30 ہزار فوجی ایساف کے تحت افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کیلئے جنگ میں مصروف تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اور امریکہ کو 2014 میں افغانستان میں جنگ ختم کرنے کی حکمت عملی پر عمل کرنا پڑا۔ تو اب امریکی جنرل کی اس بات پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ انہیں اگر دس بارہ ہزار مزید فوجی مل جائیں تو وہ طالبان سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ دراصل یہ بیان افغانستان میں امریکی جنرل کا اعتراف شکست ہے۔ اس ناکامی کا برملا اعتراف کرنے اور اس غیر ضروری جنگ کو ختم کرنے کا مشورہ دینے کی بجائے، وہ اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں مزید چند ہزار فوجی مل جائیں تو وہ ایسا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں جو ان کے پیشرو سوا لاکھ فوج کے ساتھ پورا نہیں کر سکے۔ یہ دلچسپ سوال بہرحال موجود رہے گا کہ کیا صدر ٹرمپ امریکی جنرل کی بات کا اعتبار کرکے مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی غلطی کریں گے اور کیا وہ اپنے سادہ سیاسی اصول سے انحراف کرتے ہوئے سابقہ امریکی لیڈروں کی طرح ایک یا زیادہ نئی جنگوں کی دلدل میں پھنسنے کو نجات کا راستہ سمجھنے لگیں گے۔

اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس وقت جنرل جان نکلسن امریکی سینیٹ کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور مزید فوجی فراہم کرنے کا مشورہ دے رہے تھے، اسی وقت وزیر دفاع جیمز میٹس، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے فون پر بات کرکے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی قربانیوں اور کامیابیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ یہ قیاس کرنا غلط یا کم از کم قبل از وقت ہوگا کہ ٹرمپ حکومت بھی سابقہ امریکی حکومتوں کی طرح پاکستان کو بیک وقت دھمکی دے کر اور اس کی تعریف کرکے تعاون حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کرے گی۔ ٹرمپ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اچانک پاکستان کے بارے میں سخت اور غیر روایتی دعویٰ کریں اور ماضی کی پالیسی کو تبدیل کر دیں۔ اس صورت میں امریکہ کو اس خطہ میں مزید ہزیمت اور پریشانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکہ پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد میں مسلسل کمی کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ اس میں اضافہ نہیں کریں گے۔ لیکن کیا وہ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کی حوصلہ افزائی کرکے اور پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے برصغیر میں خطرناک صورتحال پیدا کر سکیں گے تاکہ امریکہ افغانستان میں ناکامی کا انتقام پاکستان سے لے سکے۔ ٹرمپ جیسے شخص کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے لیکن وہ جس سیاسی رویہ کی نمائندگی کرتے ہیں، اس میں افغانستان میں جنگ کو طول دینا اور پاکستانپر مزید دبانے کی کوشش کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہو سکتا۔

البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ ٹرمپ افغانستان کے مسئلہ سے کیسے نجات حاصل کریں گے۔ کیا وہ روسی صدر پیوٹن کی یہ بات تسلیم کرنے کا حوصلہ کر سکیں گے کہ افغان طالبان امریکہ یا دوسرے ملکوں کیلئے خطرہ نہیں ہیں۔ وہ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ اپنے ملک پر حملہ کرنے والی افواج کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ اس پہلو پر غور کریں تو وہ دنیا کے ایک اہم خطے میں بحالی امن کیلئے کردار ادا کر سکیں گے۔ اس فیصلہ سے امریکی شہریوں کی حفاظت کا مقصد بھی آسانی سے حاصل ہو سکے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments