پربتوں کے سائے میں (4)


\"\" کتنا عجیب لگتا ہے کہ آپ ایک شخص سے کبھی ملے نہ ہوں ، کبھی بات نہ ہوئی ہو اور وہ آپ کوآپ کے ایک درجن ساتھیوں سمیت لنچ پر مدعو کرے اور وہ بھی اس طرح کہ وہ شخص کینیڈا جیسے دور دراز ملک میں ہو اور آپ یہاں اس کے آبائی گاؤں جا رہے ہوں ۔ جہاں کچھ لوگ اور ایک شاندار لنچ آپ کا انتظار کر رہا ہو ۔ مگر ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا ۔ زاہد ملک کا گاؤں مہوڑیانوالہ ہے جو امب سے اوچھالی جانے والی روڈ پر ہے ۔ زاہد ملک سے ہمارا واسطہ کئی برسوں سے ہے اور اس تعلق کی بنیاد بنی فیس بک ۔ یہی تعلق اب دوستی کی حدوں سے بھی آگے نکل چکا ہے ۔ اور ہم یادگار امب ٹیمپلز سے یوں چلے کہ شیراز بھائی کی ٹیکسی ہمیں لیکر مہوڑیانوالہ لے گئی اور پھر واپس گئی کہ اب عدنان بھائی اور دیگر ساتھی بھی اسی ٹیکسی پر آئیں گے ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہم سے پوچھا کہ کس کے گھر جانا ہے میں نے زاہد ملک کے بھائی ذاکراللہ کا بتایا اس نے قدیمی سے گاوں میں گاڑی روک کر ایک گلی کی طرف اشارہ کیا کہ اس طرف چلے جائیں مسجد سے آگے جا کر کسی سے پوچھ لیجئے گا ۔ دن کے اس پہر گلی بالکل ویران تھی ہم کافی آگے تک چلتے گئے ۔ ایک نہایت قدیم مکان کے پاس سے گزرے ۔ نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات ۔ ایک نوعمر لڑکی ایک گھر سے نکلی اور اسی طرف چل دی جدھر ہم جا رہے تھے ۔ عدنان احسن نے ہمت کر کے اسے پکارا اور اس سے ذاکراللہ کے گھر کا پوچھا اس نے رکے بغیر ، مڑے بغیر بتایا کہ اسی طرف چلتے جائیں ۔ اور ہم چلتے ہی گئے ۔ ہمارے دائیں طرف ایک مسجد تھی ۔ اس سے آگے نکلے تو ایک صاحب ملے ۔ بہت تپاک سے ملے ۔ انہوں نے بتایا کہ زاہد ملک کی کوٹھی تو سڑک کے پرلی طرف ہے آپ واپس جائیں ۔ جب ہم واپس مڑے تو مسجد پر نظر پڑی ۔ مسجد کی بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ ہمارے قدم خود بخود رک سے گئے ۔ ہم بے اختیار مسجد کی جانب چلے ۔ مسجد کا دروازہ بند تھا ہم اسے کھول کر اندر داخل ہوئے ۔ مسجد کا وسیع صحن تھا اور مسجد کی سامنے کی دیوار پر بہت ہی خوب صورت ٹائلیں اور نقش کاری کی گئی تھی لگتا تھا کوئی من کا موجی اپنی مستی میں اور اپنے خدا کی محبت میں بس اسی نقاشی میں ہی لگا رہا ۔ وہاں بہت سکون تھا ہم کچھ دیر یونہی فن کار کی فنکاری کو دیکھتے اور داد دیتے رہے ۔ اتنے میں موٹر سائیکلوں کی آواز آئی دو لڑکے موٹر سائیکلوں پر ہمارے قریب آ رکے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارے میزبان ہیں انہیں ہمارے آنے کی اطلاع ہو گئی تھی لیکن ہم نہیں پہنچے تو وہ ہمیں لینے آئے ہیں۔ شیراز نے عدنان احسن ، صدیق بھائی ، سلمان اور وقاص کے ساتھ پیدل چلنے کا فیصلہ کیا اور ہم ایک لڑکے کے پیچھے بیٹھ گئے۔

گاوں سے باہر سڑک کے ساتھ اونچائی پر زاہد ملک نے اپنے لئے ایک الگ گھر بنوایا ہے جس کا رقبہ چار کنال سے بھی زیادہ ہے ۔ تھوڑی \"\"ہی دیر میں عدنان بھائی اور دوسرے ساتھی بھی پہنچ گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک محمد علی ، مقصود بلال اور نیاز بھائی جو ٹریکنگ کے شوقین ہیں وہ پیدل آ رہے ہیں ۔ مہوڑیانوالہ اور امب شریف میں سبھی لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں کہ یہی دونوں گاؤں ایک دوسرے کے قریب ہیں پڑوسی ہیں اور باقی دیہات سے کٹے ہوئے لیکن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ مہوڑیانوالہ گاؤں امب سے ایک دم ہی بلند ہوتا ہے اور ایک ہزار فٹ بلند ہو جاتا ہے مہوڑیانوالہ کے مشرق میں کوہان کی مانند ابھی ہوئی دو پہاڑیاں ہیں جن کے نام بہت دلچسپ ہیں ایک ججے والی ہے اور دوسری ڈھولے والی۔ پتا نہیں نام رکھنے والوں نے کیا سوچ کر یہ نام منتخب کئے تھے ۔ ان پہاڑیوں کے نیچے کھیوڑہ کے بعد کوہستان نمک کی دوسری سب سے بڑی کان ہے۔

زاہد ملک کے بھائی بھتیجوں اور کزنز نے ہمارا بہت پرتپاک استقبال کیا ۔ ہم کمرے بیٹھے، گپ شپ لگائی ۔ ہمیں چائے کی آفر کی گئی لیکن ہم نے پہلے کھانے سے دو دو ہاتھ کرنا بہتر سمجھے ۔ شیراز بھائی کو جلدی تھی وہ شام ہونے سے پہلے پہلے کلر کہار انٹر چینج پہنچنا چاہتے تھے ۔ کھانے میں سب سے پہلے ہمیں وادی سون کی مشہور سوغات موٹے آٹے کا حلوہ پیش کیا گیا یہ بالکل خوشاب کے مشہور ڈھوڈے جیسا ہوتا ہے ۔ وادی سون میں روایت ہے کہ یہاں ہمیشہ سویٹ ڈش پہلے سرو کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد چکن قورمہ ، سلاد اور رائتہ کی باری آئی ۔ بہت دور سے منگوائے مالٹے پیش کیے گئے اور پھر چائے ۔ یہ سب بہت پرخلوص لوگ ہیں لگتا ہی نہیں تھا پہلی بار ملے ہیں اور حقیقت میں ہم جس کے مہمان ہیں وہ تو وہاں ہے ہی نہیں ۔ جی تو کر رہا تھا کہ جس قالین پر بیٹھ کر کھانا کھایا ہے وہیں لیٹ جائیں اور لیٹے ہی رہیں لیکن ٹریکرز جب ٹریکنگ مہم کر رہا ہو تو پھر آرام سے پرہیز لازم ہے۔

شیراز بھائی کی ٹیکسی ان کا انتظار کر رہی تھی الوداع ہونے سے پہلے گروپ فوٹو بنے ۔ دوبارہ ملنے کے وعدے ہوئے ہمارا یار دلدار ہم سب کا محبوب ملک محمود ستمگر نکلا اس نے کہا کہ اسے بھی جانا ہے اور ضرور جانا ہے تو ہم نے بھی اسے کہا کہ جا سجناں تیرا رب راکھا۔ اور وہ گاڑی پر نکلے اور ہمارے لئے عدنان بھائی نے ایک اور ٹریک سوچ رکھا تھا جو ہمیں اوچھالی کے جنوب مغرب کی طرف لے جانے والا تھا ۔ یہاں سے چلے تو زاہد ملک کا ایک کزن ہمیں گاؤں سے باہر تک چھوڑنے آیا ۔ مہوڑیانوالہ گاؤں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر پانی نہیں ہے ۔ یہاں کے باسی بہت دور سے پانی لے کر آتے ہیں ۔ سچے دل کے مالک باسیوں اور دلکش مناظر والا یہ گاؤں اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ یہاں تک نہ قائد آباد سے کوئی سڑک آتی ہے اور نہ اوچھالی سے کوئی رابطہ ہے ۔ یہاں کی خواتین کو ہم نے پانی لاتے لے جاتے ہی دیکھا ۔ مرد حضرات البتہ اس زحمت سے مبرا ہی تھے ۔

گاؤں سے نکلے تو عدنان بھائی نے بلند پہاڑوں کے بیچوں بیچ جاتا ہوا ایک درہ دکھایا کہ یہ ہمارا آج کا ٹریک ہے ۔ بکریاں چرانے والے چرواہے ، پانی بھرنے کو جانے والی مٹیاریں ہمیں حیرت سے دیکھتی تھیں کہ آج کے دور میں جب گاڑیاں چلتی ہیں یہ کون ہیں جو بیک پیک پشت پر اٹھائے پیدل چل رہے ہیں ۔ بہت جلد گاؤں پیچھے رہ گیا ۔ ایک تنگ سا پتھریلا رستہ تھا جس پر ہم چل رہے تھے ۔ دونوں طرف والے پہاڑ قریب آ رہے تھے ۔ موسم بہت خوشگوار تھا سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ آگے اترائی تھی ۔ علی بھائی مقصود اور نیاز کے ساتھ بہت آگے نکل گئے عدنان بھائی فوٹو گرافی کے شوق میں پیچھے رہ گئے ۔ عدنان احسن اور میں اکٹھے چل رہے تھے ۔ ہمارے دائیں طرف گھنی جھاڑیاں تھیں اور پھر دیوار کی مانند بلند ہوتے پہاڑ تھے عدنان احسن نے مجھے کہا کہ عدنان بھائی کو ڈراتے ہیں ہم ان جھاڑیوں میں چھپ جاتے ہیں اور جب عدنان بھائی قریب آئیں گے تو ہم انہیں ڈرائیں گے ۔ اور ہم ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں چھپ گئے جب عدنان بھائی قریب آئے تو عدنان احسن نے اس مہارت سے لگڑ بگڑ کی آواز نکالی کہ ایک لمحے کو میں بھی چونک گیا میں نے فوراً چند پتھر ایک جانب کو لڑھکائے جیسے کوئی پتھروں پر چل رہا ہو عدنان بھائی کے قدم ایک لمحے کو روکے ۔ اور پھر چل دیئے ۔ وہ تیار ہو گئے کہ جوبھی جانور سامنے آیا اس سے مقابلہ ضرور کرنا ہے ۔ مگر انہوں نے پہلے مجھے اور پھر عدنان احسن کو دیکھ لیا ۔انہوں نے کہا کہ آواز سنتے ہی میں نے وڈیو کیمرہ آن کر لیا تھا کہ جو بھی بلا آ رہی ہے کم از کم اس کی وڈیو ضرور بن جائے لیکن ہمیں پتا تھا کہ وہ ڈر گئے تھے۔

یہاں سے آگے نکلے تو پہاڑاتنے تنگ تھے کہ اس رستے سے دو آدمی بھی کندھے سے کندھا ملائے نہیں گزر سکتے تھے اور یہاں ایک چٹان پر ہم اپنے محبوب کے انتظار میں بیٹھے کسی عاشق زار کا لکھا یہ ماہیا دیکھا
لمے وال ودھائے ہوئے نیں ۔ اج پتا لگا تساں راہ بدلائے ہوئے نیں
ہم قیافے لگاتے رہے کہ عشق کی اس کہانی میں کس پر کیا بیتی ہو گی کہ اسے یوں لکھنا پڑا ۔ مزید آگے کچھ اور بھی لکھا ہوا تھا لیکن وہ زرا مدھم تھا ۔ اگر وہ عاشق زار ہماری یہ آپ بیتی پڑھے تو کم از کم مجھے ضرور اپنی کہانی سنائے ۔\"\"

ان پہاڑوں سے نکلے تو ہر طرف ایک گھنا جنگل تھا ایک چشمہ کہیں سے بہتا ہوا آ رہا تھا اور دوسری طرف کہیں گھاس میں گم ہو رہا تھا ۔ اب سامنے ایک چھوٹی سی بلند پہاڑی تھی جس کوہم عبور کرنا تھا ہمارا اندازہ تھا کہ اب ہمیں اوچھالی دکھائی دے گی لیکن دوسری طرف پھر ویسے ہی پہاڑ تھے پتھریلے رستے تھے ۔ دور ایک ڈیرہ دکھائی دے رہا تھا ۔ اور اس کے پرلی طرف ایک اور تنگ درہ تھا ۔ ہم ڈیرے کے قریب سے گزرتے چلے گئے ۔ بچوں کے کھیلنے کی آوازیں تھیں مگر دکھائی کوئی نہ دیتا تھا ۔ ہم اگلی پہاڑی پر چڑھے تو پھر ایک دلکش سی وادی دکھائی دیتی تھی مگر اس اوچھالی جھیل کا کوئی نام و نشان نہ تھا جس کو دیکھنے کی ہمیں امید تھی ۔ اس وادی میں سے ہم گزرتے گئے ایک جگہ سے پھر ایک چشمہ پھوٹ رہا تھا وہاں ہری ہری گھاس تھی ہم نے جوتے اتارے پاوں پانی میں ڈال دیئے اور کچھ دیر بیٹھے رہے ۔ نیاز نے اپنے بیگ سے کھجوریں اور بادام نکالے اور سب کو پیش کئے ۔ اس سوغات نے بہت لطف دیا ۔

وہاں سے چلے تو کچھ آگے ایک آدمی دکھائی دیا ۔ اس سے سلام دعا ہوئی ۔ پرانے سے کپڑے پہنےکلہاڑی کندھے پر اٹھائے اس سادہ سے بندے نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اسے ہمارے جانے والے روٹ کا علم تھا یہ بھی علم تھا کہ ہم امب میں کس کے پاس ٹھہرے تھے اور آج دو پہر کا لنچ ہم نے کہاں کیا ہے ۔ وادی سون کی انٹیلی جنس بہت تیز ہے ۔ اس نے بتایا کہ اوچھالی سے مہوڑیانوالہ کے پیدل رستہ یہی ہوتا تھا لیکن اب کچی پکی سڑک بن گئی ہے تو یہاں سے بہت کم لوگ آتے جاتے ہیں ۔ وہاں پھر ایک ڈیرہ دیکھا اس کے قریب سے گزر گئے آگے ایک کچا رستہ تھا ۔ عدنان بھائی نے بتایا کہ اوچھالی سے امب کی طرف جانے والی گاڑیاں یہیں سے گزر کر جاتی ہیں ۔ ہر طرف پتھر ہی پتھر اور اونچا نیچا رستہ تھا ۔جس پر ٹریکٹر بھی مشکل سے چلتا ہے لیکن وادی سون کے جفا کش باسی اس پر موٹرسائیکل بھی چلاتے ہیں اور کار بھی ۔ اب امید لگ گئی تھی کہ اوچھالی قریب ہے ۔ یعنی اب ٹریکنگ کا اختتام ہے ۔ ہمارے سٹیمنا کا بھی اختتام ہی لگ رہا تھا جب اچانک عدنان بھائی نے ایک خوفناک خبر سنائی ۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم سامنے والی پہاڑی پر چڑھ جائیں تو دوسری طرف عین وہی جگہ ہے جہاں ہم نے اپنے ٹریک کا آغاز کیا تھا اور جہاں ہماری گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس پہاڑی سے ہم اوچھالی جھیل کا ایک بہتر منظر دیکھ سکیں گے ۔ لیکن اگر ہم اس سڑک کے رستے جاتے ہیں تو پھر یہ رستہ ابھی بہت طویل ہے بہت سی اونچائیاں چڑھنا پڑیں گی پھر اوچھالی شہر میں سے گزرنا پڑے گا اور رستے میں وہ جگہ بھی ہے جہاں سارے اوچھالی کا کوڑا کرکٹ جمع رہتا ہے اور وہاں بدبو بہت ہوتی ہے ۔ ہمیں سینئر سمجھ کر عام طور پر ہم سے رائے لی جاتی ہے تو ہم سے بھی پوچھا گیا ۔ اور ہم نے ایک لحظے کا توقف کئے بغیر پہاڑ پر چڑھنے پر آمادگی ظاہر کر دی ۔

شام ہونے میں کچھ وقت تھا عدنان بھائی زرا تیز قدموں سے چلے وہ اس طرف سے اوچھالی جھیل کی کچھ تصویریں لینا چاہتے تھے ۔ ہم بھی ان کے پیچھے چلے ۔ ہمارے ہر ٹریک میں ایک جگہ ایسی ضرور آتی ہے جہاں ہم بغیر کسی رستے کے بس یونہی جھاڑیوں میں گھس جاتے ہیں پہاڑ کے اوپر چڑھتے ہیں اور پھر دوسری جانب اتر جاتے ہیں ۔ یہیں بلندی پر ایک ڈیرہ تھا جہاں کے باسی ہمیں دیکھ رہے تھے اس نے پکار کر ہمیں متوجہ کیا اور سیدھے رستے پر لگایا ۔ میرے اندازے سے بہت جلد ہم پہاڑی پر چڑھ گئے تھے ۔ اور یہاں سے ہم نے وہ نظارہ دیکھا کہ اتنے طویل ٹریک کی ساری تھکن اتر گئی سامنے ہی وسیع و عریض اوچھالی جھیل تھی ۔ ساتھ میں دائیں طرف اوچھالی گاؤں تھا ۔ اوچھالی جھیل تمام کی تمام ہم دیکھ سکتے تھے ۔ کافی دیر ہم یہیں کھڑے جھیل اور آس پاس کے منظر دیکھتے رہے۔ پھر ہم دوسری طرف کو اترے اور بس جھاڑیوں کو پکڑ کر اترے کہ یہاں کوئی رستہ نہیں تھا ۔ عدنان بھائی بہت خوش تھے انہوں نے ہمیں انگریزی میں کچھ گانے بھی سنائے ۔ کچھ ہی دیر میں ہم پہاڑ سے نیچے کھیتوں کے بیچ پہنچ چکے تھے.

عدنان احسن اور عدنان عالم گاڑیاں لینے چلے گئے اور ہم نے سیدھا سڑک کا رخ کیا ۔ شام ہو چکی تھی ایک شاندار دن کا سورج غروب ہو چکا تھا اور ہمارا دو روزہ ٹریک بھی اختتام کو پہنچ چکا تھا ہم نے پہلے دن بارہ کلو میٹر طویل ٹریک طے کیا تھااور دوسرے دن بھی بارہ کلو میٹر طویل ٹریک کے ذریعے واپس آئے تھے ۔ اگرچہ ہم تھک چکے تھے لیکن ہمارے حوصلے بلند تھے ہم اگلے ٹریک کے بارے میں سوچ رہے تھے ۔ ان بہترین کھانوں اور بہترین لوگوں کی تعریف کر رہے تھے جو ہمیں اس ٹریک کے دوران نصیب ہوئے تھے ۔ یہ ایک بہترین سفر تھا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments